تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     06-12-2019

پُررحمت‘ رس بھری حکمرانی میرے حضورؐ کی!

میرے وطن ِعزیز کے 22کروڑ انسانوں میں سے چند سو کی کلاس اشرافیہ کہلاتی ہے۔ان لوگوں کی زبان‘ اخلاق اور رویوں کو ہم روزانہ ٹی وی اور اخبارات میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ کسی کا نام لئے بغیر اور تبصرہ کئے بغیر‘ میں اس معزز و مکرم اور محترم کلاس کو سرکارِ مدینہ حضرت محمد کریمؐ کے عظیم اخلاق کی ایک جھلک دکھلانے چلا ہوں۔ سرکارِ مدینہؐ کے مقابلے میں ایک ایسا شخص ہے کہ جو منافق ہے۔ یہ انتہائی بدتمیز ہے۔ یاد رہے! کسی بھی مسلمان میں منافقت کی کوئی علامت ہو سکتی ہے۔ کسی بھی مومن میں نفاق کی کوئی نشانی پائی جا سکتی ہے‘ مگر اس سے کوئی منافق نہیں ہوتا۔ وہ مسلمان اور مؤمن ہی رہتا ہے۔ منافق وہ ہوتا ہے‘ جس کے دل میں حضورؐ کے دین کا انکار ہو‘کُفر ہو اور اوپر سے اسلام دکھلاوے کا ہو۔ عبداللہ بن ابی ایسا ہی تھا اور حضورؐ کو وحی کے ذریعے بتلا دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود آپؐ نے اس کے ساتھ مسلمان والا رویہ ہی رکھا۔ اسے مسلمان ہی سمجھا۔ میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے‘ لہٰذا کسی پر فتوے بازی کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلامیت اور پاکستانیت سے خارج کرنا جائز نہیں ہے‘ کیونکہ سب مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ اس تمہیدی اور اصولی گفتگو کے بعد اب ہم ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا مدینہ دیکھتے ہیں ‘جہاں عبداللہ بن ابی کی اخلاقی گراوٹ اپنی انتہائی حدوں سے بھی بڑھی ہوئی نظر آتی ہے‘ جبکہ ریاست ِمدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمﷺ کی اخلاقی برتری سدرۃ المنتہیٰ پر آفتاب سے بڑھ کر روشن اور دمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آئیے! نظارہ کرتے ہیں:۔
قارئین کرام! صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3895 اور بخاری ہی کی دیگر احادیث کے مطابق ‘حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے (ایک دن پچھلی یادوں کو تازہ کیا اور فرمایا) عائشہ! میں نے تجھے خواب میں دیکھا تھا۔ تجھے ایک شبیہ کی شکل میں میرے پاس جبریل ؑ لائے۔ اس پر سبز ریشم کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ جبریل ؑ نے مجھ سے کہا؛ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میںبھی ؛چنانچہ میں نے وہ کپڑا ہٹایا تو وہ آپ تھیں۔
قارئین کرام! حضورؐ کی زوجہ محترمہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ بخاری ہی میں سورۂ نور کے باب میں حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں؛ اختصار اس طرح ہے کہ حضورؐ ایک غزوہ سے واپس آتے ہیں۔ راستے میں پڑاؤ ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کسی ضرورت کی خاطر لشکر سے فاصلے پر جاتی ہیں۔ ہار گم ہو جاتا ہے تو ڈھونڈنے لگ جاتی ہیں۔ اتنے میں قافلہ روانہ ہو جاتا ہے۔ چند بندے حضرت عائشہؓ والے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے ہیں۔ سمجھا یہی گیا کہ وہ موجود ہیں۔ پیچھے سے حضرت عائشہؓ قافلے کو نہ پا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ قافلے کا آخری آدمی حضرت صفوانؓ وہاں آتے ہیں‘ تو حضرت عائشہؓ کو دیکھتے ہیں۔ اونٹ پر بٹھاتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ اونٹ پر بیٹھتی ہیں اور یہ اونٹ قافلے سے مل جاتا ہے۔ حضورؐ کو صورتحال کا علم ہو جاتا ہے۔ صحابہ باخبر ہو جاتے ہیں۔ عبداللہ بن ابی کو پتا چلتا ہے۔ وہ مدینے میں بہتان کا طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ نور نازل فرما کر حضرت عائشہؓ کی پاکیزگی کا اعلان فرماتے ہیں۔ حضورؐ ایک ماہ تک پریشان رہے۔ چاہتے تو عبداللہ بن ابی کی گردن اڑ جاتی‘ مگر حضورؐ نے ایسا صبر کیا کہ عبداللہ بن ابی کے بارے میں اپنی زبان مبارک سے ایک جملہ تک نہیں بولا۔ قربان جاؤں ایسے صبر‘ حلم اور حوصلے پر کہ جو حوصلہ ریاست مدینہ کے حکمران کا تھا۔ لاکھوں درود‘ اُن پر اور کروڑوں سلام ان پر!!
ایک اور غزوے کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن ابی ‘وہاں بھی اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ تھا۔ پانی بھرنے پر ایک مہاجر اور انصاری کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دونوں نے اپنے اپنے لوگوں کو مدد کیلئے پکارا۔ قبائلی تعصب میں بعض لوگ آگے بڑھے ۔حضورؐ کو پتا چلا تو اس عصبیت کو جاہلیت قرار دیا۔ عبداللہ بن ابی نے مدینہ پہنچنے تک طوفان کھڑا کر دیا۔ کہا: ہم مدینہ کے باعزت لوگ جو لوکل ہیں ‘وہ باہر سے آ کر بسنے والے مہاجروں کو جو کم تر ہیں‘ نکال باہر کریں گے۔ 
یاد رہے! عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا‘ وہ حضورؐ کے سچے جانثار صحابی تھے۔ وہ مدینہ میں داخل ہونے کے راستے پر کھڑے ہو گئے۔ باپ داخل ہونے لگا تو بیٹے نے تلوار سونت کر روک لیا اور کہا؛ جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ میں ذلیل ہوں اور اللہ کے رسولؐ عزت والے ہیں‘ مدینے میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ جی ہاں! عبداللہ بن ابی مندرجہ بالا جملہ کہہ کر مدینہ میں داخل ہوا۔ اب‘ حضرت عبداللہ‘ اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی؛ اے اللہ کے رسولؐ! بجائے اس کے کہ کوئی اور قتل کرے۔ مجھے حکم دیں‘ باپ کا سر آپ کی خدمت میں حاضر کرتا ہوں۔ حضورؐ نے منع کیا۔ حسن ِسلوک کا حکم دیا اور فرمایا؛ ایسا مت سوچو۔ لوگ کیا کہیں گے؟ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتے ہیں؟ 
اللہ اللہ! یہ ہے‘ میرے حضورؐ کا حوصلہ اور برداشت کہ پکے منافق ِاعظم کو بھی اپنا ساتھی کہہ دیا۔ پاکباز طاہرہ اماں جان حضرت عائشہؓ کے پاک شوہر جناب حضرت محمدﷺ حکمران ریاست مدینہ پر بے شمار درود و سلام...!!
مدینہ میں منافق ِاعظم اپنے تھڑے پر اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ حضورؐ اپنی سواری پر وہاں سے گزرے کہ اپنے بیمار صحابی کی عیادت کو جا رہے تھے۔ ہلکا سا غبار اڑا۔ عبداللہ بن ابی نے رومال اپنی ناک پر رکھتے ہوئے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نفرت آمیز جملہ بولا؛ حضورؐ تک یہ جملہ پہنچا‘ مگر اس کا جواب حضورؐ کی طرف سے یوں آیا کہ عبداللہ بن ابی جب بیمار ہوا‘ بستر پر فراش ہوا تو حضورؐ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ جی ہاں! وہاں دل لگی کی باتیں اور صحت یابی کی دعائیں تو حضورؐ کی عادت مبارکہ تھی۔ یہ تھا‘ جواب ریاست مدینہ کے حکمران کا اپنے بدترین مخالف‘ ضدی ‘اڑیل اور انتہائی بدتمیز کو!!صدقے وقربان جاؤں ایسی پُرحمت‘ رس بھری اور نرمی و بلند حوصلگی کی آئینہ دار حکمرانی پر۔
کالم کی تنگ دامانی حائل ہو رہی ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ منافق ِ اعظم کی زندگی کا اختتام ہو گیا ہے۔ عبداللہ بن ابی کا مومن بیٹا حضرت عبداللہؐ اپنے مدنی حکمرانؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ جنازہ پڑھانے کی درخواست کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ! اپنی قمیص مبارک بھی ابا کو پہنا دیجئے۔ (شاید کہ اس ظالم اور گستاخ کی بخشش ہو جائے) حضورؐ اپنے بدترین دشمن کا جنازہ پڑھانے کو چلے تو حضرت عمرؓ نے دامن تھام لیا۔ عرض کی؛ اے اللہ کے رسولؐ! ایسے منافق کا جنازہ؟ اللہ نے قرآن میں فرما تو دیا کہ میرے حبیبؐ! آپ 70بار بھی ان کیلئے بخشش کی دعا کرو‘ تب بھی اللہ نہیں بخشے گا۔
حضورؐ نے دامن چھڑوایا اور چل دیئے کہ اپنے جانثار صحابی کا دل بھی تو رکھنا تھا اور فرمایا؛ مجھے اگر پتا چل جائے کہ میرے 71بار بخشنے کی دعا سے اللہ کریم بخش دیں گے تو میں ایسا کر گزروں گا۔ اللہ اللہ! سارے جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجنے والے رحمان مولا کریم نے کیسا رحمتوں بھرا رسیلا مدنی حکمران بنایا کہ جنازہ پڑھا دیا۔ لوگو! بخاری مسلم کی احادیث دیکھو۔ پتا چلتا ہے کہ حضور ذرا لیٹ ہو گئے۔ عبداللہ بن ابی کو قبر میں ڈال دیا گیا۔ بیٹے نے سمجھا ہو گا کہ شاید حضورؐ اب نہیں آئیں گے۔ حضورؐ تو جا پہنچے۔ قبر سے نکلوایا۔ زمین پر حضورؐ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ دشمن کا چہرہ گود میں رکھ لیا۔ کرتا اپنا پہنایا‘ پھر اپنا لب مبارک عبداللہ بن ابی کے منہ میں ڈال دیا کہ قبر میں کہہ سکے کہ میرا اللہ میرا رب ہے‘ دین میرا اسلام ہے‘ جناب محمدؐ میرے رسول ہیں۔
لوگو! میرے حضورؐ نے جب مُردہ دشمن کا چہرہ اپنی گود میں رکھا ہو گا تو اس کی دشمنی کا ہر منظر اور جملہ سامنے آیا ہو گا‘ مگر عبداللہ بن ابی کی ماں نے بھی اپنے بچے کے ساتھ وہ پیار نہ کیا ہو گا‘ جو حسنؓ و حسینؓ کے نانا جان نے اپنے دشمن اور وہ بھی منافق ِ اعظم کے ساتھ اپنی گود میں کر دیا۔
اے ایلیٹ کلاس بننے والو! یہ تھی حکمرانی مدینے میں میرے حضورؐ کی۔ ارے بتلاؤ! ہم سب کیسے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved