ترقی یافتہ ممالک میں کئی برس پہلے اور پاکستان جیسی ترقی پذیر ملکوں میں گزشتہ کچھ برسوں سے ہرمینو فیکچرر کو اس بات کا پابند کر جا رہا ہے کہ وہ اپنی تیار کی گئی تمام پراڈکٹس میں استعمال کی گئیingredientکی مکمل تفصیلات لازمی درج کریں‘ تاکہ ان کی پراڈکٹس استعمال کرنے والوں کو معلوم ہو کہ اس میں شامل کوئی ایسا جزو تو نہیں‘ جو ان کیلئے ضرر رساں ہے۔اسی طرح اب‘ دنیا بھر میںمسلمانوں کی کثیر آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے حلال خوراک کے سرٹیفکیٹ کو بھی نمایاں طور پر تیار کی جانے والی تمام غذائی پراڈکٹس کے ڈبوں پر لکھا جا رہا ہے‘ اگر کسی بھی تیار کی گئی خوراک یا پہنے جانے والے لباس کے بارے میں یہ تاثر ابھر ے کے اس میں مسلمانوں کیلئے حرام قرار دئیے گئے اجزا کو شامل کیا گیا ہے یا غیر مسلموں کو بتایا جائے کہ ان کی نا پسند کا خیال رکھے بغیر کچھ اشیاء استعمال کی گئیں ہیں‘ تو ہر کوئی اس سے پرہیز کرے گا۔
ہندوستان پر جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا راج مضبوط کیا ‘تو اس کی فوج میں شامل مسلمان سپاہیوںمیں یہ خبر پھیلا دی گئی کہ جو کارتوس وہ اپنے منہ سے کھول کر بندوق میں لوڈ کرتے ہیں‘ اسے بند کرنے کیلئے حرام جانور 'سور‘ کی چربی استعمال کی گئی ہے‘ جس پر مسلمان سپاہیوں نے بغاوت کر دی کہ وہ اس حرام چیز کو منہ نہیں لگائے گے‘ جس پر انگریزی راج کو بہت پریشانی ہوئی‘ کیونکہ ان دنوں سلطنت ِبرطانیہ کے جنگی آپریشنز زوروں پر تھے اور بر سر پیکار کئی درجن کے قریب مسلمان سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کر دیا تھا۔
29 نومبر کو بظاہر تو دیکھنے اور سننے والوں کے سامنے یہی منا ظر اور آوازیں سماعت سے ٹکرائیں‘ جیسے ایک طویل عرصے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کی بحالی کی جدو جہد اور مطالبات رکھے جا رہے ہیں‘ لیکن جب ان کے نعرے‘ ان کے بینرز سامنے آئے ‘تو ذرا سا بھی شک نہ رہا کہ یہ تو کوئی ایسا گروہ ہے‘ جو اس ملک کے نظریات ‘ دو قومی نظریے اور ملکی سرحدوں پر برف کے طوفانوں‘ تپتے ہوئے صحرائوں ‘اچھلتے کودتے ‘ مچلتے ہوئے سمندروں کے پانیوں اور کڑ کڑاتی ہوئی بجلیوں سے سہمی ہوئی فضائوں میں وطن کی سالمیت کیلئے سر بکف بیٹوں سے دلی بغض و نفرت رکھتا ہے۔
ان ناچتی گاتی اور قومی اداروں کے خلاف نفرت پھیلاتی ہوئی ریلیوں کو اگر ہمارے کچھ دوست طلبا یونینز کی بحالی کا نام دیتے ہیں تو ان کو مشورہ ہے کہ وہ ان سے کہتے ہوئے سمجھاتے ہوئے ان کی مددکریں کہ جس شاخ پر آپ بیٹھے ہیں‘ اگر اسی کو کاٹنا شروع کر دیں گے یا جس کشتی میں سفر کر رہے ہیں‘ اسی میں نسلی‘ لسانی تعصبات کے سوارخ کریں گے تو یہ سب کو ڈبو دے گا ۔ اگر دین اسلام کو راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے غنڈوں سے بچانے کیلئے رسمِ شبیری ا دا کرتے ہوئے اپنے سر کٹوا کر شہادت کا جام پینے والوں کیخلاف نعرے لگاتے ہوئے طلبا یونین بحال کرانے کی کوشش کی جائے گی‘ تو پھر سوال تو اٹھے گا کہ اس سب کے پیچھے کون ہے؟اگر افراتفری‘ انارکی اور آگ و خون کی آڑ میں سی پیک کے سب سے اہم اور حساس ترین مرحلے کی جانب بڑھتے ہوئے پراجیکٹس کو رکوانے کیخلاف کسی یونین کی بحالی کا ڈراما کروایا جائے گا‘ توپھر ہر محب وطن یہ پوچھے گا تو ضرور کہ اس کے پیچھے کون ہے؟
آپ سب نے طلبا یونینز کی بحالی کے نام پر فیضؔ امن میلہ کو سیڑھی کے طو رپر استعمال کرتے ہوئے یہ چار نعرے تو ضرور سنیں ہوں گے کہ '' بلوچستان مانگے آزادی‘ پنجاب مانگے آزادی‘ سندھ مانگے آزادی‘ پشتون مانگے آزادی‘‘ اور یہ نعرے پنجاب کی دھرتی پر لگائے گئے‘ بلکہ سب سے بڑھ کر حیران کن طو ر پر لاہور کی ایک بڑی اور سرکاری جامعہ میں لگائے گئے ۔ یہ انداز اور نعروں کے اطوار صاف بتا رہے ہیں کہ امریکی سی آئی اے اور بھارت جلد ہی پاکستان میں لسانی بنیادوں پر ایک بار پھر افراتفری پیدا کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکا ۔ امریکہ شاید سمجھ چکا کہ اپنے مقاصد کیلئے اگر کسی سیا سی جماعت کو استعمال کیا گیا تو ممکن ہے کہ اسے عام طبقہ جلدی قبول نہ کرے‘ اگر مذہبی قوتوں کو سامنے لایا گیا‘ وہ اپنا حصہ الگ سے وصول کریں گی‘ اس لئے چالیس ‘پینتالیس برس پرانا پینترا بدلتے ہوئے ایسی قوتوںکو سڑکوں پر لایا گیاہے۔ ان کو وہ زبان دی گئی ہے‘ جس کا زہر پاکستان کو چار حصوں میں علیحدہ کرنے کا سبق دیتا ہے۔
لگتا ہے کہ ان نعرے لگانے والوں کو پہلے سے ہی تیار کیا گیا تھا کہ انہوں نے کیا کہنا ہے۔ان کو چند مخصوص نعرے رٹا دئیے گئے تھے‘ جنہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے ملک پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ ان کے ساتھ شامل کروائے گئے نو جوان تو ان نعروں کے جوابات دیں گے‘ جبکہ پس پردہ تو اس کیلئے تیار کئے گئے لیڈران ہوں گے‘ جو ان نوجوانوں کو اس طرح کے نعروں اور ترغیبات سے اشتعال دلائیں گے‘ جیسے ان کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہو‘ انہیں ان کی غربت‘ والدین کی زبوں حالی‘ محرومیوں اور ایک حقیقت کے طو رپر اچھی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بھاری اخراجات کے نام سے ابھارا جائے گا ۔
ہمارے ادارے اندازہ ہی نہ کر سکیں کہ اس دفعہ فیضؔ میلہ کسی اور رنگ اور مرضی سے مناتے ہوئے اس میں دور دورسے بلائے گئے طلباو طالبات کے ذریعے کچھ اس قسم کی ڈانس پارٹی ترتیب دی جائے گی‘ نیز عجیب و غریب اور تضحیک آمیز بعرے بازی شامل کی جائے گی اور ایسا ہی ہوا‘ جس پر اس فیضؔ میلے میں شریک لاہور کے بہت سے شرکاء اور مندوبین نے احتجاج بھی کیا‘ لیکن انہیں دشمن کا ایجنٹ کا خطاب دیتے ہوئے چپ کروا دیا گیا۔
امریکہ سمیت پاکستان کی سالمیت اور وجود کی دشمن قوتیں کبھی نظریاتی تو کبھی اقتصادی حملوں کے ذریعے تو کبھی اپنے خریدے گئے میڈیا تو کبھی مشکوک حرکات سے پاکستان کو کمزور کرنے کی لگا تار کوششیں کرتی رہیں‘ لیکن ہر دفعہ انہیں نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔جب پاکستان دشمن قوتوں نے دیکھ لیا کہ ان کے لسانی‘ مذہبی اور اقتصادی تمام حربے نا کام ہو چکے ہیں تو اب‘ انہوں نے پاکستان بھر میں سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو استعمال کرکے ہماری سالمیت اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا حربہ آزمانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جلد ہی وہ فیکٹریوں اور کارخانوں کی ٹریڈ یونینز کو پھر سے متحرک کرتے ہوئے ملکی ترقی کا پہیہ جام کرنے کا آغاز کرنے والے ہیں‘ جس کی ایک ہلکی سی ریہرسل انہوں نے29 نومبر کو اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور کوئٹہ میں انٹری دیتے ہوئے دکھا ئی گئی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ آپ اپنے لئے سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں‘ لیکن کراچی سمیت لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ اپنے اپنے صوبے کی آزادی کے نعرے بھی لگاتے ہیں ۔ اس کے پیچھے کوئی توہے۔