نایاب تودور کی بات اب تو کم یاب لوگ بھی عنقا ہوگئے ہیں۔ماضی پرستی اچھی بات نہ سہی لیکن کیا کیجیے گا ‘جب آپ کو ماضی قریب کی خصوصیات اور کردار دور ِموجود میں کہیں دکھائی نہ دیں۔کیا کیجیے گا جب ان شخصیات کا ہم پلہ کوئی نظر نہ آئے جن کی خوشبو نے ایک زمانہ مہکا رکھا تھا۔وہ روایات‘ وہ وضع داری اور وہ خو بوکہاں ڈھونڈیے گا جو بتدریج اس طرح گم ہورہی ہے جیسے کسی کردار کی آواز مدھم ہوتے ہوتے فیڈ آؤٹ ہوجائے اور تماشائی ایک سناٹے میں گم سم رہ جائیں۔
بات آج کی نہیں‘ ڈاکٹر توصیف تبسم سے جب پہلی بار ملا تھا تو دل نے یہی کہا تھا کہ یہ ہمارے دور کے کمیاب لوگوں میں ہیں‘لیکن ملاقات سے بھی پہلے ان کا یہ کمال کا نعتیہ شعر مجھ تک پہنچ چکا تھا
اے روشنیٔ مقامِ محمود
سورج ترے سائے میں کھڑا ہے
اور اس شعر کی گونج بھی تا دیر دوستوں میں گردش کرتی رہی تھی جو آج بھی دل کو لطف سے بھر دیتا ہے
سوال یہ ہے کہ ان آئنوں کی بستی میں
سفر تمام کرے کس طرح کرن اپنا
لیکن یہ تو پہلی ملاقات سے پہلے کی باتیں ہیں۔ڈاکٹر توصیف تبسم سے پہلی ملاقات کو قریب قریب پچیس سال بیت چکے‘ لیکن اس یقین کا احساس بتدریج بڑھتا گیا ہے کہ وہ عہدِ رواں کے منتخب حرف کاروں میں ہیں۔ اس دوران ان سے بہت سی ملاقاتیں بھی رہیں‘ان کے ساتھ مشاعرے بھی پڑھے‘ان کا غائبانہ ذکر بھی رہا‘ان کی داد اور پذیرائی بھی سمیٹی ۔سیرابی ہوئی لیکن سیری نہیں ہوئی ۔سچ یہ ہے کہ ان سے جتنی ملاقاتوں کو جی چاہتا تھا اور اب تک چاہتا ہے‘ ملنا اس سے کافی کم ہوا۔وہ جو ایک پر کیفیت حالت ہے جسے ہم ہجر کہتے ہیں ‘ بہت ستم گر لیکن بہت بارور حالت ہوتی ہے ۔ تہ در تہ بہت سی حالتیں اپنے اندر سموئے ہوئے ایک حالت ۔ اور یاد رہے بہت ذہنی قرب کے باوجود جغرافیائی فاصلہ درپیش ہو نا ہجر کی بہت سی حالتوں میں سے ایک ہے۔سو یہ ہجر مجھے بھی لاحق رہا۔
توصیف صاحب نے ' ' کوئی اور ستارہ ‘ ‘مجھے عنایت کی۔پھر 2011ء میں ' ' سلسبیل‘ ‘ مجھ تک پہنچی اور 2012ء میں ان کی یاد داشتیں ' ' بند گلی میں شام‘ ‘ کے نام سے آئیں تو اس وقت بھی مجھے یاد رکھا۔یہ ان کے تعلق اور محبت کی دلیل تھی۔شاعری تو خیر ان کی شناخت ہے ہی لیکن کیا خوب صورت اور دل چسپ نثر لکھی ہے انہوں نے اپنی یادداشتوں میں۔کتاب پوری پڑھے بغیر رکھی نہیں جاتی۔اتنی متنوع جہات اور اتنی اصناف میں تخلیقی اظہار پر قادر لوگ ہوتے ہی کتنے ہیں بھلا۔ذرا کروڑوں کی آبادیوں والے شہروں کوکھنگالیے۔پھر پورے ملک پر ایک نظر ڈالیے ۔پھر پورے خطے میں تلاش کیجیے۔ پھر پوری اردو دنیا میں چھانیے۔اتنے ہی لوگ ملیں گے جتنے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جائیں ۔
اور اب ان کی منتخب کلیات ' ' آسماں تہ آب‘ ‘ میرے ہاتھوں میں ہے۔شفاف جھیل میں جھلملاتے نیلے آسمان جیسا منظر آپ کے ہاتھ میں آجائے تو اور کیا چاہیے ۔ جن دوستوں کے اصرار اور محنت سے یہ مرقع شائع ہوا ‘ان میں محمد فیصل بھی ہیں جن کے نام اس کلیات کا انتساب کیا گیا ہے۔فیصل کا تعارف ڈاکٹر توصیف تبسم سے سعود عثمانی ہی نے کروایا تھا اس لیے اس کلیات میں کچھ نہ کچھ حصہ میرا بھی شامل سمجھیں۔ کوئی سمجھے ‘ نہ سمجھے ‘میں تو یہی سمجھ رہا ہوں۔حمد‘ نعت ‘غزل‘ نظم سب اصناف کی پتیاں دور تک فرشِ گل کی طرح پھیلی ہوئی ہیں ۔ لطافت ہر صنف سے اس طرح پھوٹتی ہے جیسے شاخِ گلاب سطح ِآب کو چھو رہی ہو۔پڑھتے ہوئے کیسے کیسے شعروں اور مصرعوں نے زنجیر ڈالی ۔کبھی ' ' دھوپ میں اس کے چہرے پر لٹ اور سنہری لگتی ہے‘ ‘ پر ٹھٹکا۔ گاہے ' ' کبھی شب کو جب آسماں پر گل ِ ماہ کھلتا‘ ‘ نے قدم روکے ۔کبھی ' ' سورج ڈوب گیا ہے لیکن سارا دشت سنہرا ہے‘ ‘ نے کچھ دیر کے لیے ایک طلائی صحرا میں پہنچا دیا۔
رات بدن یوں لَو دیتے تھے جیسے صندل جلتا ہو
لیکن دل دیوانہ چاہے اور بھی کچھ ہو وصال کے بعد
وجۂ بیگانگٔیٔ خواب نہیں کھلتی تھی
روئے تو کھول دیے نیند نے بازو اپنے
صبح تک طلعتِ مہتاب نے پاگل رکھا
رات رخصت ہوئی لے کر سبھی جادو اپنے
ڈاکٹر توصیف تبسم سے جو ملاقاتیں رہیں ان میں وہ چار پانچ دن ناقابلِ فراموش ہیں جب لکھنؤ کے باکمال شاعر عرفان صدیقی پاکستان آئے ‘جناب توصیف تبسم سے ان کی رشتے داری بھی تھی اور دونوں سخنوروں کا تعلق اصلاً بدایوں ہندوستان سے تھا۔جناب فیصل عجمی نے دو بہت زبردست کام کیے ۔ ایک تو انہوں نے عرفان صدیقی کو کچھ دن کے لیے اسلام آباد بلوالیا۔اور ازراہ کرم مجھے بھی آنے کی دعوت دے دی ۔دوسرے ڈاکٹر توصیف تبسم کے ذمے یہ کام لگا دیا کہ وہ عرفان صاحب کی کلیات شائع کروائیں ۔ یہ کلیات دریا کے نام سے شائع ہوئی اور اس زمانے میں یہ عرفان صدیقی کے مداحوں کے لیے بہت گراں مایہ تحفہ تھی ۔
انہی چند دنوں میں توصیف صاحب کے زیر انتظام اور زیرِ نظامت ایک یادگار مشاعرہ منعقد ہوا جو دراصل عرفان صدیقی سے دوستوں کی ملاقات کا ایک بہانہ تھا۔ اس میں عرفان صاحب کو جی بھر کے سننے کا موقعہ ملا اور ان کے مخصوص انداز میں سنے ہوئے یہ دو شعر تو بھولتے ہی نہیں
میں طلب گار بھی تھا کام کی آسانی کا
حکم ہے مجھ کو خرابوں کی نگہبانی کا
اس ہوس میں کہ مرے ہاتھ نہ خالی رہ جائیں
کتنا نقصان ہوا ہے مری پیشانی کا
اچھی کتاب مل جائے تو اس کے چار سُو کم از کم چار کام تو کیے ہی جاسکتے ہیں۔سب کام چھوڑ کرپڑھی جاسکتی ہے‘بھرپورداد دی جاسکتی ہے ‘رشک کیا جاسکتا ہے اور اپنے لیے تخلیقی توفیق کی دعا کی جاسکتی ہے۔ سو یہ چاروں کام کر رہا ہوں۔کیا یہ شعر آپ کو بھی کام پر نہیں لگا دیں گے؟
جو دیا ہٹ گیا منظر سے وہ کب یاد آیا
یاد آیا اس محفل میں ابھی تھے ہم بھی
ہم سے مایوس نہ ہو بجھتی ہوئی شامِ شفق
خون ہے دل میں بہت رنگ اگر کم ہو جائیں
ڈالی ڈالی رنگ برنگی چڑیاں پھولوں جیسی ہیں
سب سے اونچی شاخ پہ جیسے کھلتا پھول پرندہ ہے
ہوں ایک عمر سے اوڑھے ہوئے بدن اپنا
جو بن پڑے تو بدل لوں نہ پیرہن اپنا
شکستگی کا سفر رائگاں نہ ہونے پائے
گریں بھی ہم تو کسی کو گماں نہ ہونے پائے
کچھ عرصہ قبل برادرم نوید صادق نے جب اپنے ادبی رسالے کارواں کا توصیف تبسم نمبر نکالا تو مجھ سے بھی فرمائش کی کہ میں کچھ لکھوں۔میں امریکہ کے لمبے سفر میں تھا ۔کچھ زنجیریں ایسی ہوتی ہیں کہ خواہش اور کوشش سر توڑنے کے بعد بھی انہیں توڑنے میں ناکام ہوجاتی ہیں ۔سو اس زنجیر نے مجھے رہا نہیں کیا ۔لیکن یہ بوجھ سا رہا کہ میں اس رسالے میںشامل نہیں ہوسکا۔کچھ قرض کسی کی محبت کے ہوتے ہیں اور کچھ اپنی طبیعت کے۔ دونوں مل جائیں تو ایک پتھر سا دل پر دھر دیتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک پتھر لیے کافی دن پھرتا رہا ۔اب یہ لفظ لکھے ہیں تو شاید کچھ بوجھ کم ہوجائے ۔ لیکن یہ بوجھ کیسے کم ہوگا کہ اب کمیاب لوگ بھی نایاب ہوتے جاتے ہیں۔سخن ورہیںاور رہیں گے‘لیکن وہ روایت‘ وضع داری اور اقدار کے امین لوگ؟ توصیف صاحب ہی کا شعر مستعار لینا ہوگا۔
ورق کے بعد ورق اور اک سیاہ کریں
کریں بھی کیا جو غمِ جاں بیاں نہ ہونے پائے