تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-12-2019

اس قدر نا اہل؟

2014 ء میں میاں نواز شریف حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈ جاری کئے ‘ جن کی مدت پانچ برس تھی۔وہ جانتے تھے کے اگلا الیکشن ان کا نہیں ہو گا اور جو بھی آئے گا یہ بوجھ اس کو اٹھانا نہیں بلکہ گھسیٹنا پڑے گا‘ اور اگر اس نے یہ قرض اتارنے کی کوشش کی تو ہر چیز مہنگی ہو جائے گی اور لوگ ہمیں پھر سے یاد کرنا شروع ہو جائیں گے اور اگر یہ قرض نہ اتارا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
لیکن وہ بھول گئے کہ آنے والے ملک بچانے کیلئے آتے ہیں‘اسی لیے انہوں نے اپنا ووٹ بینک کم کرنا گوارہ کر لیا ‘اپنے لیے طعنے سن لیے‘ لیکن سکوک بانڈز پر ایک ا رب ڈالر سے زائد لیا گیا قرضہ ابھی حال ہی میں واپس کر دیا ہے ۔ شاید اسی لیے ایسے لوگوں کو ''نا اہل ‘‘کہا جاتا ہے ‘جو سب سے پہلے پاکستان کا سوچتے ہیں۔ پاکستان جیسا غریب اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ملک روزانہ اڑھائی لاکھ ڈالرایل این جی جہاز کے کرائے کی مد میں ادا کر رہا تھا ‘ لیکن عمران خان کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے ڈیڑھ سال بعد کچھ ایسا کمال کر دیا کہ اس غریب قوم اور اس مقروض ملک پر ایک عفریت کی شکل میں لادے گئے اس بوجھ سے بھی نجات دلا دی‘ جوپانچ برسوں سے ''انتہائی قابل اور تجربہ کار‘‘ حکومتیں اور وزرائے اعظم کی ذہانت اور دور اندیشی کی وجہ سے ہمیں ادا کرنے پڑ رہے تھے ۔
پاکستانی سٹاک مارکیٹ کے کریش ہونے کی باتیں سنا کرتے تھے‘ لیکن اب یہ چالیس ہزار پوائنٹ کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے ۔ نواز لیگ اور پی پی پی سمیت سب کہتے ہیں کہ عمران خان جیسی'' نا اہل‘‘ حکومت کبھی نہیں دیکھی‘ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘ عمران خان کی حکومت نے مدتوں بعد اپنے روایتی حریف بھارت کو دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر پر اس قدر رسوا کر کے رکھ دیا کہ اس کے دو دہائیوں سے روشن بھارت کے نام سے مشہور چہرے پر بر بریت اور سفاکیت کی کالک مل کر رکھ دی ہے۔ عمران خان حکومت کی کارکردگی کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ اس نے صرف ایک سال کے اندر دنیا بھر سے بھاگ بھاگ کر بھارت آنے والے سرمایہ کاروں کی واپسی کی دوڑ لگوا دی کہ شائننگ بھارت میں 79بڑی بڑی صنعتیں بند ہونے سے 12لاکھ سے زائد لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں ۔ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے بھارت کے دو بہترین جہازوں کو ان کے پائلٹ سمیت لمحوں میں گرا کر مدتوں سے''نا قابل تسخیر فوج‘‘ کے غبارے سے ہوا نکال کر پاکستان کی فضائی قوت اور صلاحیت کا دنیا بھر میں لوہا منوا لیا۔ ترکی سے کئے گئے ایک معاہدے میں ''کشش اور چمک‘‘ پیدا کرنے کی پاداش میں گزشتہ حکمرانوں نے پاکستانی عوام کی گردن پر ڈیڑھ ارب ڈالر جرمانہ لاد رکھا تھا‘ اس حکومت نے کسی جادوئی طاقت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے نجات دلواتے ہوئے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوا کر قومی خزانے کو سکھ کا سانس فراہم کر دیا۔ڈیڑھ ارب ڈالر جرمانے کی بھاری بھر کم رقم قوم پر لادنے والے اور ان کے مددگار آج بھی بضد ہیں کہ عمران خان کو ''نا تجربہ کار‘‘ حکمران کے نام سے یاد کرو اور جو ڈیڑھ ارب ڈالر کی اس پہاڑ جیسی رقم اس ملک و قوم پر لاد گئے انہیں ''ذہین و فطین‘‘ کہہ کر پکارو ۔
وہ حکومت کیا ہو گی جس کے متعلق بڑے بڑے دانشور کہہ رہے ہیں کہ نہ انجن کی خوبی نہ ڈرائیور کا کمال چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے‘ مگرپاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے والا پاکستان کو دنیا بھر سے حاصل کئے گئے ہر قسم کے قرضے سے نجات دلانے کی سکت رکھنے والا ریکو ڈک منصوبہ‘ جس کے متعلق جرمنی‘ آسٹریلیا اور دنیا بھر کے معدنیات کے ماہرین کی کئی سالہ تحقیقاتی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ وہاں سونے اور تانبے کے کم از کم500 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں‘ اگر اس پراجیکٹ پر نیک نیتی سے گزشتہ دس برسوں میں کام کیا جاتا تو اس ملک پر ایک رتی برا بر اندرونی اور بیرونی قرضہ نہ رہتا اور نہ ہی ملک بھر میں غربت‘ مہنگائی اور افلاس کا وجود بھی نہ ہوتا۔ ہمارے ملک کی دفاعی صلاحیتیں بھی کئی گنا زیا دہ مضبوط ہونے کے علا وہ اس ملک کوبیروز گاری کے سیلاب سے بھی نجات مل جاتی۔ ہمارے سکول ‘کالج‘ یونیورسٹیوں کی تعداد میں کمی اور بھاری فیسوں کی بھر مار بھی نہ ہوتی۔
500 ارب ڈالر رقم کا تصور کریں کہ اگر ریکوڈک کو سیا ست اور امریکی دبائو کا شکار نہ کیا جاتا‘ اگر اسے امریکہ کی شہ اور حکم پر بند نہ کیا جاتا تو ہمارے ملک کے کسی بھی کونے میں کتے کے کاٹے سے مرنے کی بجائے اس کیلئے بہترین قسم کی ویکسین ہر ہسپتال میں موجود ہو تی۔ جگہ جگہ لوگ بھوک اور ڈینگی سے نہ مرتے۔ پاکستان کے غریب عوام مہنگے ہسپتالوں میں اپنا علاج کرانے کیلئے دھکے نہ کھاتے‘ادویات سے خالی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کمی اور ان کے سروس سٹرکچر کی وجہ سے آئے روز کی ہڑتالوں سے لاکھوں مریض سسک سسک کر نہ مرتے ۔ ہماری بد قسمتی کہ امریکی سامراج نے کچھ ایسا کھیل کھیلا کہ ریکو ڈک کا وہ منصوبہ اس طرح ٹھپ کروا یا کہ ہماری چلتی ہوئی سانسیں بند کرنے کیلئے ریکوڈک معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں پاکستان کی گردن پر چھ ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ بھی لاد دیا۔ اب سوچئے کہ موجودہ حکومت جسے نا تجربہ کاری کا طعنہ دیا جاتا ہے‘ اس کا وزیر اعظم حلف اٹھاتا ہے تو اس پر گزشتہ دس سالوں میں لیے گئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی ‘ نیز ریکو ڈک اور سمندر میں لنگر انداز ایل این جی جہاز کے کرائے کی ادائیگی کیلئے گیارہ ارب ڈالرکسی بھوکے شیر کی صورت میں کھڑے تھے‘ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عمران خان کی شکل میں ایسا وزیر اعظم آیا جس نے اپنی مقبولیت اور دنیا بھر میں اپنے تشخص کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے غریب عوام پر لادے گئے ساڑھے سات ارب ڈالر کے علا وہ اڑھائی لاکھ ڈالر روزانہ کا بوجھ ختم کرا دیا اور یہ اڑھائی لاکھ ڈالر جو پاکستان روزانہ کی بنیاد پر کرائے کی صورت میں ادا کرتا چلا آ رہا تھا اس کا اگر شمار کیا جائے تو صرف ایک ماہ میں پاکستانی کرنسی کے حساب سے ہم ایک ارب باسٹھ کروڑ روپے کرائے کی صورت میں ادا کر رہے تھے۔ اب خو دہی اندازہ کر لیجئے کہ یہ پونے دو ارب روپے ماہانہ کن کی جیبوں میں جا رہے تھے؟ پونے دو ارب اگر ایک ماہ میں ادا کرتے تھے تو گویا ایک سال کے20ارب روپے نہ جانے کن کھاتوں کیلئے ادا کرتے رہے ؟ تعمیرات کے شعبے کا کوئی بھی ماہر آسانی سے بتا سکتا ہے کہ ان بیس ارب روپوں سے ہر سال پاکستان کے کسی بھی حصے میں ایک یونیورسٹی اور ایک انتہائی خوبصورت ہسپتال‘ جہاںعلیٰ درجے کی تمام سہولیات اور مراعات کے ساتھ ساتھ وہاں شعبہ طب سے متعلق دنیا کی جدید ترین مشینری اور آلات نصب ہوں‘ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔جہاں ہر سال ہزاروں طلبا تعلیم کے بہترین زیور سے آراستہ کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں کسی بھی مرض میں مبتلا شہریوں کا بہترین علاج کیا جا سکتا ہے۔اس حکومت کی اہلیت کا کیا ذکر کیا جائے جس نے طعنے سن لیے لیکن قوم کی گردن پر سکوک بانڈز اور دیگر مدات میں اربوں ڈالر واپس کر دیئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved