آج کل سیاست اور صحافت میں برداشت و عدم برداشت کا راگ خوب الاپا جارہا ہے۔ انگریزی والوں نے ''زیرو ٹالرنس‘‘ کی اصطلاح بھی خوب دی ہے۔ یہ اصطلاح اُس وقت استعمال ہوتی ہے جب کسی معاملے کو بالکل برداشت نہ کرنا ہو۔
برداشت اور عدم برداشت کے فرق کو سمجھنا لازم ہے‘ کیونکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم پہلے سانس سے آخری سانس تک بہت کچھ بہ رضا و رغبت قبول کرتے ہیں اور دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہاں‘ بعض معاملات میں فطری طور پر برداشت کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ اگر ایسے معاملات میں بھی رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے تو محض خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ خرابیاں پنپ کر اتنی بڑی ہوجاتی ہیں کہ اصلاح کی صورت مشکل سے نکلتی ہے۔
ہمیں تصورات‘ نظریات‘ ایجادات اور اختراعات کے حوالے سے دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ برداشت و عدم برداشت ہی کا معاملہ ہے۔ جب انسان کسی صورتِ حال سے اکتا جاتا ہے تب کچھ نیا کرنے کا سوچتا ہے اور اس حوالے سے میدانِ عمل میں نکلنے کی ٹھانتا ہے۔ اس دنیا میں کچھ نیا کرنے کی راہ اُسی وقت ہموار ہوتی ہے جب لوگ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے ہیں۔ یہ سنجیدگی مختلف عوامل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں معاملات جب ٹھہرے ہوئے پانی جیسے ہو جاتے ہیں تو زندگی پر کائی جمنے لگتی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں اور معاملات کے جمود کو مزید برداشت کرنے سے گریز و انکار کرتے ہوئے کچھ نیا کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں نکل آتے ہیں۔ معاملات کا ٹھہراؤ سوچ کے حوالے سے ہو یا پھر اشیا و خدمات کے حوالے سے‘ حقیقی و بامعنی پیش رفت کی بنیاد اُسی وقت پڑتی ہے جب لوگ کچھ نیا کرنے کی ٹھانتے ہیں۔
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو صرف اور صرف تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ ہم خود بھی ہر آن بدلتے رہتے ہیں‘ مگر اس کا احساس کم کم ہو پاتا ہے۔ ہمارے جسم میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور نفسی ساخت میں بھی۔ ہمارا جسم ماحول کے اثرات کو قبول کرتا رہتا ہے اور ذہن سوچ کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نشانے پر رہتا ہے۔ یہ عمومی کیفیت ہے۔ خصوصی کیفیت اُس وقت رونما ہوتی ہے جب کوئی اس تماشے کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔
جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں منفی بھی ہوسکتی ہیں۔ ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کا سب ہمارے کام کا نہیں۔ مثلاً دھواں چاہے کیسا ہی ہو‘ ہمارے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ہم سگریٹ نہ بھی پئیں تو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ بیٹھ کر سگریٹ پیے اور دھواں اُگلے تو وہ دھواں ناک کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اسے اصطلاحاً ''غیر فعال تمباکو نوشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اس صورتِ حال کو برداشت کرتے رہیں گے تو صحت کے حوالے سے معاملات الجھتے جائیں گے۔ اسی طور اگر کوئی شخص کسی ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں کیمیائی مادے استعمال کرنے والے ادارے بڑی تعداد میں ہوں تو ان اداروں کی طرف سے ماحول میں پھینکا جانے والا کیمیائی یا صنعتی کچرا صحتِ عامہ کے معیار کا گراف نیچے لانے کا باعث بن سکتا ہے اور عموماً بنتا ہی ہے۔ ایسے میں عمومی صحت کا معیار بلند رکھنے کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔
کسی بھی حوالے سے حقیقی اور بامعنی تبدیلی کی گنجائش صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم معاملات کو جوں کا توں رہنے دینے پر راضی نہ ہوں اور کسی بھی نوع کے منفی اثرات کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم کبھی اُس چیز کو بدل نہیں سکتے جسے برداشت کرلیتے ہیں! زندگی کو مجموعی طور پر متاثر کرنے‘ یعنی منفی اثرات مرتب کرنے والی کسی بھی چیز یا بات کو برداشت کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم اُسے قابلِ اعتراض نہیں گردانتے۔ کسی بھی صورتِ حال کو برداشت کیے جانے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم خوش ہیں‘ راضی ہیں۔ ہمیں زندگی بھر ایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جب ہمیں کوئی نہ کوئی واضح فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی ہمیں بار بار ایسے دو راہے پر لاتی ہے جہاں سے ایک راستہ ہمارے مفادات کے تحفظ کی طرف جاتا ہے اور دوسرا یکسر ناموافق معاملات کی طرف۔ ذرا سی کوتاہی یا سُستی ہمیں مشکلات کی طرف لے جاتی ہے۔ بہت سے لوگ دو راہے پر کھڑے ہوکر ایسا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جو تیسرے راستے کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے! ایسا ہو تو صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھی زندگی ہمیں ایسے موڑ پر لاتی ہے جہاں صرف زیرو ٹالرنس کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر ہم ایسے میں اصولوں پر سمجھوتہ کر بیٹھیں تو مطلوب نتائج کی راہ کسی طور ہموار نہیں ہو پاتی۔ جہاں معاملات کو برداشت کرنے کی گنجائش نہ ہو‘ وہاں صرف اور صرف عدم برداشت ہی کو واحد قابلِ عمل اصول کی حیثیت سے اپنانا پڑتا ہے۔ سوال صرف معاشی معاملات کا نہیں ہے۔ سماجی تعلقات‘ نفسی امور اور اخلاقی معاملات میں بھی کبھی کبھی صرف عدم برداشت ہی کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ معاملات اگر خطرناک یا تباہ کن حد تک بگڑ گئے ہوں تو اُنہیں برداشت کرتے رہنے سے اصلاح کی راہ کبھی نکل سکتی ہے‘ نہ سُجھائی دے سکتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو اصلاح کی طرف اُسی وقت لے جایا جاسکتا ہے جب ہم طے کرلیں کہ کوئی بھی خرابی یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور کچھ ایسا کرنے کی منصوبہ سازی کی جائے گی جس سے معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوں۔ قصہ معاشی معاملات کا ہو یا سماجی تعلقات کا‘ بچوں کی تربیت کا ہو یا خاندانی امور کی انجام دہی کا ...ہر معاملے میں اصلاح کی صورت اُسی وقت نکل سکتی ہے اور نکلتی ہے جب ہم خرابی کے حوالے سے شدید عدم برداشت کا رویہ اپنائیں‘ کسی بھی نوع کی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں اور بھرپور غور و خوص اور محنت کو شعار بنانے پر متوجہ ہوں۔
جب تک کوئی بھی خرابی برداشت کی جاتی رہے گی تب تک اصلاح کی گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ لوگ بعض خرابیوں کو اس لیے جھیلتے رہتے ہیں کہ اُنہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ معترض ہونے کی صورت میں اُنہیں مختلف حلقوں سے اختلاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خوف بلا جواز ہے‘ کیونکہ کسی بھی خرابی کے آگے ایک نہ ایک دن تو بند باندھنا ہی پڑتا ہے‘ ماحول کو مخالف بنانا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں کیا یہ بات قرینِ دانش نہیں کہ ہم کسی بھی خرابی کو ابتدائی درجے یا مرحلے میں روکنے کی کوشش کریں اور اصلاح پر مائل ہوں؟
بعض معاملات میں صرف زیرو ٹالرنس ہی لازم ٹھہرتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ معاملات کو برداشت کرنے کی روش ترک کرکے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں ہوتا کہ سوچیے اور کر گزریے۔ کسی بھی غلط بات کو بروقت مسترد کرنے اور زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرنے کے لیے خاصی توانا اور معقول ذہنی تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے ذہن اور مزاج کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں وہ زندگی بھر کامیاب فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ مکمل عدم برداشت کے مقام پر برداشت محض زہر ہے‘ اور کچھ نہیں۔