چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد رضا خان اپنے بعد از ریٹائرمنٹ عہدے کی پانچ سالہ میعاد پوری کرنے کے بعد ایک بار پھر باعزت طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سردار رضا سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تو حکومت اور اپوزیشن نے مل کر چیف الیکشن کمشنری کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا تھا۔ وہ ان تاریخ ساز جج صاحبان میں شامل تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی طاری کردہ (نام نہاد) ایمرجنسی کے بعد ان کے عبوری دستوری حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے بارہ ججوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ انہیں برطرف کر کے جنرل پرویز مشرف نے چین کی بانسری بجا لی۔ اپنی من پسند سپریم کورٹ بنا کر اپنے اقدام کی توثیق بھی حاصل کر لی، اور سمجھے کہ اب راوی چین ہی چین لکھے گا، وہ حسبِ سابق اپنا ڈنکا بجاتے رہیں گے، لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس اقدام کے خلاف ''عوامی بغاوت‘‘ برپا ہو گئی۔ سیاسی جماعتوں، وکلاء تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اداروں نے عدلیہ کی یہ بے توقیری مزید برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی یوسف رضا گیلانی حکومت کو جنرل پرویز مشرف کے اقدام پر خطِ تنسیخ کھینچنا پڑا۔ دُنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ برطرف کیے جانے والے جج دوبارہ عدالتوں میں پہنچے، اور طاقت کے سامنے سجدہ ریزی کرنے والوں کو کفِ افسوس ملتے ہوئے اپنے چیمبر خالی کرنا پڑے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایوان صدارت سے رخصت کر دیے گئے، اور آج وہ اپنے اس اقدام کی پاداش میں بیرون ملک ''پناہ‘‘ لیے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف دستور کی دفعہ 6 کے تحت انتہائی غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ایک تازہ ترین ویڈیو میں وہ بستر علالت پر پڑے ہوئے دہائی دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ان کے وکیل ان کا مقدمہ نہیں لڑ پا رہے... حالانکہ وہ اپنی مرضی سے بیماری کے عذر پر بیرون ملک گئے، اور پھر وہیں ٹھہر گئے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو بیان ریکارڈ کرانے پر تیار ہوئے نہ کسی عدالتی کمیشن کو اپنا بیان قلم بند کرنے کی اجازت دی، اب جبکہ بہت سی چڑیاں بہت سا کھیت چُگ کر اُڑ چکی ہیں، وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے پر تیار ہیں۔ ان کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے 17 دسمبر کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔ پراسیکیوشن کو اپنا موقف اس سے پہلے ریکارڈ کرانا ہے۔ یہ عدالت تو کارروائی ختم کر کے فیصلہ سنانے کا اعلان کر چکی تھی، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت پر سماعت کا دروازہ پھر کھول دیا گیا۔ یہ مقدمہ جو (سابق) وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے درج کرایا تھا، اور جس میں برادر عزیز محمد اکرم شیخ نے اعزازی طور پر (کوئی فیس لیے بغیر) چیف پراسیکیوٹر کی ذمہ داری سنبھالی تھی، اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد شیخ صاحب تو دستبردار ہو گئے لیکن بنیادیں وہ پکی کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی بغاوت کار کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں ہو سکی تھی۔ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے اپنے مخالفین پر ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے الزمات لگائے۔ تعزیراتِ پاکستان کے تحت غداری کے مقدمات بھی قائم کیے، لیکن کوئی بھی معاملہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے کئی مخالفین کو غداری کے الزام میں دھرا، ان میں نوابزادہ نصراللہ خان اور میاں طفیل محمد جیسے سیاست دان بھی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے تو خان عبدالولی خان، اور ان کے متعدد رفقا کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹریبونل بھی قائم کر رکھا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دینے کے بعد حیدر آباد جیل میں ''غداری‘‘ کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ مرحوم جسٹس اسلم ریاض حسین اس عدالتی ٹریبونل کے سربراہ تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے آ کر مقدمہ واپس لے لیا، گویا اسیروں کو سرکاری طور پر محب وطن تسلیم کر لیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ پر بغاوت کا الزام لگا کر پوری پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو‘ جو قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے رہنما تھے، اسلام آباد لا کر ان پر مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بھی ان پر یہ الزام لگ چکا تھا، اور مرحوم جسٹس ایس اے رحمن کے زیر قیادت خصوصی ٹریبونل مقدمے کی سماعت کر رہا تھا کہ ہجوم حملہ آور ہو گیا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک بپھر گئی تو یہ مقدمہ واپس لے کر شیخ مجیب الرحمن کو اپوزیشن رہنمائوں سے مذاکرات میں شریک کرنے کے لیے راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔ گویا غدار ٹھہرانے والے ہی نے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کے ساتھ مشرقی پاکستان بھی ڈوب گیا، تو نئے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے برسر اقتدار آ کر شیخ مجیب الرحمن کو پورے اعزاز کے ساتھ رہا کر کے براستہ لندن بنگلہ دیش پہنچا دیا... اُدھر تم اِدھر ہم...
پاکستان کی تاریخ بغاوت کے مقدموں سے بھری پڑی ہے، چند ایک کا ذکر ''فی البدیہہ‘‘ ہو گیا۔ یہ زیادہ تر اہلِ سیاست ہی کے حصے میں آتے رہے۔ دستور کو سبوتاژ کر کے حکومت سنبھالنے والوں پر نہ کوئی مقدمہ چلا، نہ سزا دی گئی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا مارشل لاء بخیر و خوبی زندہ رہا، فیڈرل کورٹ نے اسے ''کامیاب انقلاب‘‘ کہہ کر قانون سازی کا سرچشمہ قرار دے ڈالا۔ یحییٰ خان کو عدالتی توثیق ملی نہ کسی پارلیمنٹ نے انہیں ناقابلِ مواخذہ سمجھا، اس کے باوجود وہ مقدمے سے بچے رہے۔ 1973ء کا دستور ان کی معزولی کے بعد بنایا گیا، اس میں پہلی بار دستور کو سبوتاژ کرنے اور اس کی معاونت کرنے کو انتہائی غداری قرار دے کر اس کی سزا موت مقرر کی گئی تھی۔ اس سے پہلے قانونی حکومت کے خلاف بغاوت تعزیراتِ پاکستان کے تحت تو جرم تھا، لیکن دستوری طور پر ایسا پہلی بار کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں بہت کچھ ایسا ہوا کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء پورے طمطراق کے ساتھ وارد ہو گیا، اور اس کا فلک شگاف نعروں سے خیر مقدم کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے بھی سندِ جواز عطا کر دی، برسوں بعد منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے بھی اس پر ٹھپہ لگا دیا۔
طویل وقفے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو اس لیے ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا کہ وہ ان کو ملازمت سے برطرف کرنے کی گستاخی کا ارتکاب کر بیٹھے تھے۔ پرویز مشرف کے خلاف سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے مزاحمت کی، چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی سمیت ان کو نکال باہر کیا گیا۔ نئی سپریم کورٹ بنا کر اپنے حق میں فتویٰ حاصل کر لیا۔ تین سال بعد انتخابات کرائے اور اسمبلی سے بھی اپنا ''جرم‘‘ معاف کرا لیا۔ یہاں تک سب حسبِ معمول تھا، 2007ء میں انہیں اپنا صدارتی منصب ایک بار پھر خطرے میں نظر آیا کہ وردی پوش صدر کے طور پر انتخاب میں حصہ لینے کا حق چیلنج ہو گیا تھا، تو انہوں نے ایک بار پھر مکہ لہرا کر عدلیہ پر حملہ کر دیا۔ یہ اقدام انہیں مہنگا پڑا، اور نواز شریف کو کئی سال بعد ان پر مقدمہ قائم کرنا مہنگا پڑ گیا، اور اب وہ مقدمات میں لدے پھندے لندن میں بیماری کا علاج کرا رہے ہیں، جبکہ جنرل پرویز مشرف دبئی میں کراہ رہے ہیں۔ ان کے حلقہ بگوش وزیر داخلہ ہیں، وزیر قانون ہیں، وزیر ریلوے ہیں، وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں، ان میں انہیں برملا اپنا ہیرو قرار دینے والے بھی ہیں، لیکن مقدمہ ہے کہ سمٹنے میں نہیں آ رہا۔ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کی پوری کوشش ہے کہ معاملے کو مختلف نکتوں میں الجھا کر ڈسٹ بن میں ڈال دیں، جرأت رندانہ کا مظاہرہ ان سے ہو نہیں پا رہا۔ میدان میں آ کر مقدمہ واپس لینے کا اعلان کرنے کا حوصلہ وہ کہاں سے لائیں؟ جسٹس سردار رضا کی ریٹائرمنٹ کی خبر سن کر تاریخ کے صفحات نگاہوں کے سامنے پھرنے لگے۔ ایک ریٹائرڈ جج کے اطمینان اور ایک ریٹائرڈ جنرل کی بے سکونی پر قلم مچل اُٹھا۔ یہ خیال بھی آیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اگر اپنے جرم کا اعتراف کر کے اپنے آپ کو پارلیمینٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، تو شاید ان کے دوست ان کے لیے کچھ کر سکیں، اور مخالف بھی نرم پڑ جائیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)