تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-12-2019

سرخیاں‘متن‘ محمد اظہار ؔالحق‘ درستی اور ابرارؔ احمد کی نظم

معیشت میں بہتری کا دعویٰ مذاق کے سوا کچھ نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''معیشت میں بہتری کا دعویٰ مذاق کے سوا کچھ نہیں‘‘ جسے سن کر میں اتنا ہنسا ہوں کہ اپنی ساری ناکامیاں بھول گیا اور گریہ و زاری کے عالم میں یہ مذاق میرے لیے ایک ہنسی کا گول گپّا ہی ثابت ہوا‘ جس کی مجھے سخت ضرورت بھی تھی اور امید ہے کہ حکومت اس طرح کا مذاق آئندہ بھی جاری رکھے گی‘ کیونکہ رنج و الم کے عالم میں یہ بہار کے ایک جھونکے کی طرح تھا ‘جبکہ حسن تو یہ ہے کہ میں اسی کے مزے اڑاتا رہوں اور اس کارِ فضول پر دو حرف بھیج دوں‘ جس کو میں نے خواہ مخواہ طول دے رکھا ہے اور مسلسل میری جگ ہنسائی کا موجب بن رہا ہے‘ جبکہ عمران خان نے تو قیامت تک استعفیٰ نہیں دینا اور میں یونہی سڑکوں پر خوار ہوتا رہوں گا‘ لیکن واپسی کا کوئی با عزت راستہ بھی تو نہیں مل رہا اور ایسا لگتا ہے کہ میرے سارے راستے بند ہو گئے ہیں‘ ماسوائے واپسی کے راستے کے اور وہ بھی کافی دشوار دکھائی دے رہا ہے۔ آپ اگلے روز سکھر میں جمعیت علمائے اسلام کے چند مرکزی رہنمائوں سے فون پر گفتگو کر رہے تھے۔
شہزاد اکبر بتائیں‘ خزانے میں کہاں کرپشن کی: سلمان شہباز
میاں شہباز شریف کے مفرور صاحبزادے سلمان شہباز نے کہا ہے کہ ''شہزاد اکبر بتائیں‘ خزانے میں کہاں کرپشن کی‘‘ جبکہ کمیشن اور کک بیکس کے پیسے کا خزانے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے‘ جو صرف دو پا رٹیوں میں لین دین کا مسئلہ ہے ‘جس سے خزانے پر ایک دھیلے کی بھی آنچ نہیں آئی اور یہ وہی دھیلا ہے‘ جس کی کرپشن کے حوالے سے والد صاحب آئے روز قسمیں کھایا کرتے ہیں اور شہزاد اکبر کے سوالات کا جواب‘ وہ اس لیے نہیں دے رہے کہ سارے سوالات ہی جھوٹے ہیں‘ اس لیے وہ ان کا جواب کیا دیں اور اسی وجہ سے انہوں نے برطانوی صحافی ڈیوڈ روز کی باتوں کا بھی جواب نہیں دیا تھا‘کیونکہ وہ پیسے‘ اگر سیلاب زدگان کے لیے تھے تو ہم سے زیادہ سیلاب زدہ اور کون ہو سکتا ہے ‘کیونکہ والد صاحب لمبے بوٹ پہن کر جو سیلاب کا دورہ کیا کرتے تھے تو خود بھی سیلاب زدہ ہو کر واپس آئے تھے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمیں دہشت گردی کی طرح کشمیر پر 
بھی ایکشن پلان بنانا ہوگا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ہمیں دہشت گردی کی طرح کشمیر پر بھی ایکشن پلان بنانا ہوگا‘‘ جس کے لیے خاکسار کی خدمات ہر وقت حاضر ہیں ‘کیونکہ میں نے بھی اپنی بندوق کو تیل شیل دے لیا ہے اور ایک دو ہوائی فائر بھی کر کے دیکھے ہیں ‘جس سے میرا کندھا تو دکھنے لگ گیا ہے‘ لیکن آزادیٔ کشمیر کے لیے یہ کوئی معمولی قربانی نہیں ہے‘ اس لیے حکومت کو پہلی فرصت میں بھارت پر حملہ کر کے کشمیر کو آزاد کرانا چاہیے‘ کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں اور اس سے اگر ایٹمی جنگ بھی چھڑ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ‘کیونکہ اس سے کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑے گا ‘کیونکہ دوسرے ممالک میں پاکستان سے باہر بھی مسلمان کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور یہ کمی بقیہ مسلمان بہت جلد پوری کر لیں گے ‘ کیونکہ کثرتِ آبادی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ''کشمیر یکجہتی مارچ‘‘ سے خطاب کر رہے تھے۔
خوش آمدید محمد اظہار الحق!
آپ ایک صاحب ِطرز شاعر ہونے کے علاوہ ایک روشن دماغ اورزیرک تجزیہ کار بھی ہیں۔ ان کی آمد سے روزنامہ'' دنیا‘‘ کا ادارتی صفحہ مزید ثروت مند ہو جائے گا۔ ہم کھلے بازوئوں سے اُن کا استقبال کرتے ہیں ؎
زغارتِ چمنت بر بہار منت ہاست 
کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ تر ماند 
درستی
ہمارے دوست اور صاحب ِطرز شاعر سعود عثمانی نے اپنے کالم میں کل ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے؎
جو دیا ہٹ گیا منظر سے وہ کب یاد آیا
یاد آیا اس محفل میں ابھی تھے ہم بھی
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ''اس‘‘ کے بجائے ''اسی‘‘ ہو سکتا ہے ‘جو ٹائپ ہی کی غلطی ہے۔
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی نظم:
بیان ممکن نہیں ہے
جو سر میں بھُر گئے ہیں / انگلیوں سرسراتے/ آنکھ میں کانٹے اگاتے ہیں/ انہیں لفظوں سے لِکھ دیکھو/ بیاں ممکن نہیں ہے/ اس کا/ جو تم جھیلتے ہو/ تمہاری ہی طرح کے لوگ/ بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں/ راستوں پر/ بے حیائی سے/ بہت تذلیل کرتے ہیں/ کوئی ملبوس ہو/ کوئی قرینہ/ اُدھڑ جاتا ہے‘ آخر کو/ کناروں پر ہے‘ خاموشی/ چھدی تاریکیاں ہیں/ کیا کرن کوئی تمہاری ہے؟/ کوئی آنسو‘ کوئی تارا/ تمہیں رستے دکھائے گا؟ / کوئی سورج/ تمہارے نام پر چمکے گا‘ آخر کو؟/ حقیقت تھی ‘سوالِ اولیں/ اور بس/ اور اس کے بعد میں کیا ہے/ فقط خفت ہے ‘ ننگی بے حیائی ہے/ ڈھٹائی ہے!
آج کا مقطع
آنکھوں میں سرخیوں کا سفر رک گیا‘ ظفرؔ
دیکھا تو ہم اسیر تھے نیلے گلاب کے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved