تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-05-2013

’’تجھے تولا گیا اور تُو کم نکلا‘‘

افسوس کہ ہم نوشتۂ دیوار نہیں پڑھتے ۔افسوس کہ ہم غور نہیں کرتے۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ آدمی خواہشا ت کے گرداب میں ڈوبتا ہے ۔ من مانی کا پاگل پن آخر کار اس کی دانش سلب کر لیتاہے ؛حتیٰ کہ رسوائی اور موت کا سیاہ ہاتھ دستک دیتاہے ۔ ؎ بے بسی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں کسی عامی کے طرزِ عمل پر غضب ناک ہو کر جلال ِ شاہی کے ساتھ سلیمان بن عبدالملک نے مہرِ سلطانی طلب کی تو ان کے بھائی عمر بن عبدالعزیز نے کہا: کیا آپ نے قرآن طلب کیا ہے ؟ خشونت سے اس نے خیر خواہ کو دیکھا تو اُجلے آدمی نے یہ کہا: عم زاد! اللہ کی دنیا تمہارے دستر خوان سے بہت بڑی ہے ۔ سبھی تولے جاتے ہیں ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: اس دنیا سے کوئی اٹھے گا نہیں ، جب تک اس کاظاہر و باطن واشگاف نہ ہو جائے ۔ اکثر کے باطن مختلف یا متضاد ہوتے ہیں۔ جو دعویٰ کرتے اور گمان میں مبتلا ہوتے ہیں ‘ نہیں جانتے کہ آدمی کا کوئی ذاتی وصف ہوتاہے اور نہ کارنامہ ۔ ہنر خالق نے بخشے ہیں اور وہی ہے ، جو آدمی کی حدود کا تعین کرتا ہے ۔ کتاب میں لکھا ہے ’’لکل امت اجل‘‘ ہرگروہ کے لیے موت کا وقت مقرر ہے ۔ تین ہزار برس ہوتے ہیں ، جب تاریخِ انسانی کے سفاک ترین حکمرانوںمیں سے ایک ، بخت نصر نے ایک خواب دیکھا۔ وہ آدمی ، جس نے بلادِشام کو برباد کر دیاتھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے معتوب اور موحد قبائل نے خراسان اور کشیرکی دشوار گزار وادیوں میں پناہ لی ۔ خراسان کو 2700 برس کے بعد افغانستان اور کشیر کو وادیٔ کشمیر کا روپ دھارنا تھا۔ خوابوں کی تعبیر بتانے والے بلائے گئے ، کاہن اور ستارہ شناس بھی۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا : تھوڑے سے سچ میں وہ بہت سا جھوٹ ملادیتے ہیں ۔ تعبیرِ رویا کے سوا، ان میں سے اکثر علوم تشنہ ہیں اور سائنسی بنیاد نہیں رکھتے ۔ نیا ’’علم الاسماء ‘‘ہے ، اکیسویں صدی کے درویش نے جس کی عمارت محکم قرآنی اصولوں پر اٹھائی ہے ۔ شہنشاہ کی شرط یہ تھی کہ تعبیر ہی نہیں ، اسے خواب بھی بتایا جائے۔ ایک کے بعد دوسرا آیا اور قتل ہوا۔نوبت حضرت دانیالؑ تک پہنچی ،جو زنداں میں پڑے تھے ۔ دور تک دیکھنے کی صلاحیت جنہیں عطا ہوئی تھی۔ مکاشفہء دانیال میںیاجوج ماجوج کے خروج، دجّال اور قربِ قیامت کی نشانیاں موجود ہیں ۔ انہی سے جبرئیل امین ؑ نے کہا تھا : جب آخر وقت آئے گا تو سعید روحوں کے درمیان سویا پڑا ہوگا۔ دانیالؑ پریشان ہوئے تو پروردگار نے تسلّی دی ۔پھرپیغمبرانہ بے نیازی اور اطمینان کے ساتھ وہ دربار میں دیکھے گئے ۔ حکمران سے کہا : دیوار پہ تونے لکھا ہوا دیکھا ہے ’’منّی منی تقیل‘‘ تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا۔ عمران خان اور نواز شریف ابھی تل رہے ہیں ۔ بیتے ہوئے مہ و سال میں انہوںنے کس قدر اجالا کیا اور کس قدر تاریکی پھیلائی، ہم سب جانتے ہیں۔ موٹر وے اور ایٹمی دھماکے۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے چراغ روشن ہیں اور معمار کا زعم بھی کہ خلقِ خداہر حال میں اس کی تائید کرے گی۔ پرویز الٰہی شہباز شریف سے زیادہ باصلاحیت تھے اور پائیدار بھی؛ اگرچہ سیاسی بنیاد ان کی کمزور تھی۔ برف کتنی ہی پختہ ہو ، لوہا اور لکڑی بن نہیں سکتی۔ بار بار لکھا کہ مسلم لیگ کا ووٹر ایک ہی ہے ۔ چوہدری صاحب کا ایک پہلو لیکن بہت ہی بہتر رہا۔ دیہاتی پنجابیوں کی طرح ’’اللہ کے فضل سے ‘‘ ان کا تکیہ کلام ہے ۔ عمران خان ’’انشا ء اللہ‘‘ کہنا اکثر بھول جاتے ہیں ۔مردم شناس وہ ہرگز نہیں اور سیاست کی حد تک معاملہ فہم بھی نہیں ۔نواز شریف تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، جو پیغمبر بھی نہیں کر تے تھے ۔ کیا محض یہ سادگی کی انتہا ہے ؟ کیا وہ جانتے نہیں کہ دعویٰ باطل ہوتاہے ؟ کپتان کا ذہن سیاسی نہیں اور مشیر اس کے ہمیشہ ناقص رہے ۔ عقل کی اقسام ہیں، دانشِ فکری ، انتظامی اور سیاسی ۔ وہ انتظامی آدمی ہیں۔ سحر انگیز شخصیت اور جی جان سے کام کرنے والے ۔ زعم سے وہ نجات پائیں تو سرخرو ہوں گے ۔ میدان سب سے زیادہ انہی کے لیے ہموار ہے ۔ممکن ہے کہ قاف لیگ ہی نہیں ، اے این پی اور ایم کیو ایم کے بے شمار پسماندگان بھی بالآخر ان سے آن ملیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کوئی چیلنج نہیں بلکہ خان خود ہے اور اس کی بے مہار پارٹی ، جسے اب دھونے اور استری کرنے کی ضرورت ہے۔ زرداری ٹولہ تاریخ کا رزق ہونے والا ہے۔ رضا ربّانی ایسے جذباتی لوگوں کی چیخ پکار بے نتیجہ رہے گی ۔ تین عشرے لاشوں کو ووٹ ملتے رہے مگر تابہ کے ؟ سرخ پوشوں کا قافلہ برباد ہوا ۔ پٹھان قبائل مسلم برصغیر کا بہت قیمتی اثاثہ ہیں، اس متنوّع اور عظیم عمارت کے ستون۔تعصب پر استوار پشتون قوم پرستی پہ کب تک سیاست ممکن تھی ؟ خود ترحمی اور مظلومیت کی دہائی ، وہ بھی امریکہ کے سائے میں ؟ جماعتِ اسلامی کے لیے مہلت باقی ہے ۔ خدمتِ خلق میں اس کی خدمات تاریخی ہیں ۔ اس کا فلسفہ ناقص ہے اور سیاسی طور پر کسی کو خوش نہ آیا۔ مخلص کارکنوں کی فوجِ ظفر موج کی توانائی رائگاں رہے گی، اگر حکمتِ عملی کی اساس نہ بدلے ۔ جلیل القدر فارسی شاعر نے کہا تھا۔ ؎ کشتگانِ خنجر تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر است منشائے ایزدی کے سامنے جن کی روحیں سجدہ ریز ہوئیں ، وہ ہمیشہ باقی رہیں گے ۔ مذہبی گروہ تقلید اور شدّت کے سبب خود تنقیدی سے گریزاں رہتے ہیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا ۔ ؎ صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب میری کوشش ناکام رہی وگرنہ سرحد، کراچی اور لاہور میں عمران منوّر اتحاد طوفان ہو جاتا۔ ’’اللہ کو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘۔ رحمتہ اللعالمینؐ کا فرمان یہ ہے: جہاں سے ’’اے کاش‘‘ شروع ہوتاہے، وہیںسے شیطنت کا آغاز بھی۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی ، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے ۔ غلطیوں سے نہیں ، ـغلطیوں پر بضد ہونے سے بربادی آتی ہے۔ ’’جو ہلاک ہوا، وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ رہا، وہ دلیل سے زندہ رہاـ‘‘۔ ایم کیو ایم کی عمر پوری ہو گئی ۔دیوتا نہیں، آدمی علیل ہوجاتے ہیں اور الطاف حسین آدمی ہیں ۔ایک ہاتھ میں کمان تھی ، وہ ہاتھ شل ہے ۔ سیاست ایک مقامی چیز ہوتی ہے ۔ اس کے اندر رہنا ، سیکھنا ، جینا اور بڑھنا ہوتاہے۔ ہزاروں میل کی دوری سے رزم گاہ کی ظفر مندی ممکن ہوتی تو سیزر روم میں ، خالد بن ولیدؓ مدینہ منوّرہ اور جنرل پیٹریاس واشنگٹن میں سویا کرتے ۔صحرائوں اور برف زاروں کے ستم نہ سہتے۔ مہاجر قوم پرستی بھٹو اور ایّوب ادوار کے مظالم کا ردّعمل تھی اور ردعمل پر استوار عمارت پائیدار نہیں ہوتی ۔ درمیانے طبقے کی پارٹی ، نہایت منظم اور محنتی لوگ۔ فنا یا بقاکا سوال ان کے سامنے رہتا اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ خوف زدہ وہ بروئے کار رہتے ۔آخر کارمستقل معاشی ، سماجی، ثقافتی اور تاریخی عوامل ہی فیصلہ کن ہو تے ہیں ۔ ایم کیو ایم نے تعصب اور دہشت کا ہتھیار استعمال کیااور بے رحمی سے کیا۔ خوف زدہ شہر ، خوف زدہ قوم،خوف زدہ وفاق؛حتیٰ کہ ان کے اپنے ووٹر بھی۔ خوف کی زنجیر فولاد کی لگتی مگر برف کی ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی اورتحریکِ انصاف کے کارکن ڈٹے رہے تونئے الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ بہتر ہے کہ ایم کیو ایم خودمان جائے وگر نہ میاںمحمد نواز شریف کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ برطانیہ کو انتباہ کر دیا جائے اور یہ انتباہ پاکستانی میڈیا اور عوام کریں ۔ ایم کیو ایم ہار گئی ہے ۔ نہیں مانے گی تو وقت کا قاضی اپنا حکم نافذ کرے گا۔ جناب الطاف حسین کے لیے پیغام یہ ہے۔ ؎ بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے افسوس کہ ہم نوشتۂ دیوار نہیں پڑھتے ۔افسوس کہ ہم غور نہیں کرتے۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ آدمی خواہشا ت کے گرداب میں ڈوبتا ہے ۔ من مانی کا پاگل پن آخر کار اس کی دانش سلب کر لیتاہے ؛حتیٰ کہ رسوائی اور موت کا سیاہ ہاتھ دستک دیتاہے ۔ ؎ بے بسی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved