تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     08-12-2019

ماورائے سرحد عدم برداشت

عدم برداشت کاکوئی مذہب نہیں ہوتا‘یہ ایک ذہنی رویہ اور طرز ِعمل ہے‘ جو تمام ممالک اور معاشروں میں مختلف درجوں پر پایا جاتا ہے ۔ یہ ایسی غیر انسانی صفت ہے ‘جسے کوئی بھی آسانی سے اختیار کرسکتا ہے۔ عدم برداشت کو انتہا پسند ذہنیت کا ایک حصہ فرض کیا جاتا ہے ۔ اس انتہا پسندی کو عمومی طور پر مذہب سے منسوب کیا جاتا ہے اور ا س سے مراد مذہبی بنیاد پرستی لی جاتی ہے ۔ یہ تمام مفروضے بے بنیاد ہیں ‘کیونکہ کوئی مذہب بھی عدم برداشت کا پرچار نہیں کرتا ۔ بعض اوقات کسی مذہب کے مبلغین عدم برداشت او ر انتہا پسندی کی ترویج کرتے ہیں‘ لیکن ایسے مبلغین ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتہا پسندی صرف اسلام سے ہی منسوب کیوں کی جاتی ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے روح میں جھانکنے اور سماجی رویوں کو بھا نپنے کی ضرورت ہے ‘جس دوران مغربی معاشرے ‘ خاص طور پر ٹرمپ اور فرانسیسی صدر کے بیانات میں اسلامی بنیاد پرستی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اسلاموفوبیا کا تدارک کرنے کے لیے عدم برداشت کی وضاحت کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ایسا کرنا مسلم قیادت کا فرض ہوچکا ہے ۔ فوبیا ایک نفسیاتی خرابی ہے۔لغات میں اس کی وضاحت کسی مخصوص چیز‘ طبقے‘ صورت ِحال یا افراد سے بے بنیاد اور ناقابل بیان خوف کے طور پر کی گئی ہے ۔ اس سے متاثر افراد خوف کی وجہ کا تعین کرنے یااس کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں‘ لیکن یہ خوف اپنی جگہ پر موجود ضرور ہوتا ہے ۔ 
مقدس مسلم شخصیات یا مقدس کتب کی توہین کی جسارت مغربی بنیاد پرستی کا کھلا ثبوت ہے ‘ لیکن اسے بنیاد پرستی نہیں کہا جاتا۔ دوسری طرف کسی بھی پر تشدد واقعے میں کسی مسلمان کے ملوث ہونے کا شک بھی پڑ جائے ‘تو اُسے اسلامی انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ایک اسلام مخالف گروہ کے لیڈر لارز تھورسن کا ہے‘ جس نے گزشتہ دنوں ناروے میں قرآن سوزی کی مذموم جسارت کی‘ جبکہ ایک اور دائیں بازوکے گروپ لیڈر آرن تومیر نے اپنی تنظیم کے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران قرآن ِ پاک کے دو نسخوں کو (نعو ذ باللہ) کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینکنے کی کوشش کی۔ یہ مغربی یا مسیحی انتہا پسندی کا کھلا ثبوت ہے‘ لیکن کوئی بھی اسے یہ نام نہیں دیتا۔ 
اب تک اسلاموفوبیا کو ایک حقیقت سمجھ کرتسلیم کیا جانے لگا ہے ‘ اسے اسلام اور مسلمانوں سے خوف‘ نفرت‘ دشمنی اور عناد کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ‘جس کے نتیجے میں سماجی‘ سیاسی اور شہری زندگی میں مسلمانوں سے تعصب اور امتیازی سلوک روا رکھا جائے ۔ اس سلوک پر مسلمانوں کا موقف یہ نہیں کہ بنیاد پرستی موجود نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ مغرب کسی انفرادی واقعے کو اجاگر کرکے اسلام سے منسوب ا ور تمام مسلمانوں کو دنیا میں ہونے والے تشدد کا ذمہ دار قرار دے دیتا ہے ۔دوسری طرف جب کوئی غیر مسلم پر تشدد کارروائی کرتا ہے تو اسے دیوانگی اور نفسیاتی بیماری کا نام دے کر ایک فرد کی ذات تک محدود کردیا جاتا ہے ۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس سلسلے میںکیے جانے والے زیادہ تر مطالعے اس تعصب کو ثابت کرتے ہیں۔ باون فیصد امریکی اور اڑتالیس فیصد کینیڈین شہریوں کا کہنا ہے کہ مغرب اسلامی معاشروں کا احترام نہیں کرتا۔ اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ میں لیے جانے والے ایسے جائزے بھی کم و بیش یہی نتائج دیتے ہیں۔ سنٹر فار امریکن پراگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘غلط معلومات پھیلانے والے ماہرین کا ایک نیٹ ورک امریکہ میں اسلاموفوبیاکی ترویج کرتا ہے۔ 
اسلامو فوبیا مغرب کے مرکزی دھارے کے میڈیا کا پوری شعوری کوشش سے پھیلایا گیا بیانیہ ہے ۔تصویروں اور خاکوں کے ذریعے وہ مسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ مسخ شدہ امیج ہر ذہن میں سرایت کرجائے ۔ اس سے پیدا ہونے والا منفی تاثر ذہن میں مستقل جگہ بنالیتاہے ۔ مثال کے طور پر ٹائمز میگزین نے ایک تصویر شائع کی‘ جس میں بندوق بردار مسلمان فوجی نماز ادا کررہے تھے ۔ تصویرکے نیچے یہ الفاظ تھے ''بنیاد پرستوں کی جنگ میں ہتھیار اور عبادت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ ایسی نیم سچائی جان بوجھ کر حقیقت پر پردہ ڈالتی ہے ‘ کیونکہ یہ نہیںبتایا گیا کہ یہ فوجی افغانستان میں جنگ کے دوران نماز ادا کررہے تھے ۔ 
اس طرح مغربی میڈیا عالمی سروسز کے ذریعے خوف اور نفرت کی فضا قائم کرتا ہے:۔
1۔ مناظر پر مبنی سیاست: ڈا ڑ ھی والے افراد اور حجاب میں خواتین کومنفی کردار بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اخبارات اور سوشل میڈیامسلح ڈ ا ڑ ھی والے افراد دکھاتے ہیں ‘جن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوتے ہیں۔ یہ تصویر کسی فرد کی ہوگی‘ لیکن اس سے 1.6 بلین مسلمان آبادی مراد لی جاتی ہے ۔ امریکی سکولوں اور جامعات میں آئے روز جدید اسلحے سے فائرنگ کرکے درجنوں طلبا کو ہلاک کردینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ رواں ماہ اب تک ایسی فائرنگ کے دو واقعات پیش آچکے ہیں۔
2۔ نیم پختہ اور مبہم اعدادوشمار : پاکستان میں ہونے والے تشدد اور انتہاپسندی کی وجوہ کی تحقیق کے لیے ہر امریکی تھنک ٹینک ایشیائی اور مغربی سکالرز کی خدمات حاصل کرے گا۔ ہوسکتاہے کہ اُن کے پیش کردہ اعدادوشمار درست ہوں۔پانچ سال کے اعدادوشمار کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں پرتشدد واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی‘ جبکہ اسی عرصے کے دوران امریکہ میں آتشیں اسلحے نے پچاس ہزار سے زا ئد افراد کی جان لے لی ۔ زیادہ تر جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران انڈیا میں پاکستان کی نسبت مذہبی انتہا پسندی کہیں تیزی سے بڑھی ‘لیکن دونوں ممالک کا تاثر اس کے برعکس ہے ۔ 
3۔ مختلف معیار: آزادی ٔاظہار کے حق کا غلط استعمال ہورہا ہے ۔ مقدس شخصیات کی توہین کو آزادی اظہار سمجھا جاتا ہے‘ جبکہ مرضی کا لباس پہننا یا سر ڈھانپناکسی بھی شہری کا حق تسلیم نہیں کیا جاتاہے۔ فرانس میں نقاب کی پابندی نے مغرب کے دُہرے معیار کی قلعی کھول دی۔ اس پر مسلمانوں ممالک کی طرف رد ِعمل ظاہر کیا جاتا ہے ‘ جس کے بعض اوقات ناروا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ 
مسلمانوں‘ خاص طور پر پاکستان کے تاثر کو بہتر بنانے اور اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات درکار ہیں:۔
1۔ متقابل بیانیہ: جو چیز دکھائی دیتی ہے‘ اُس پر یقین کیا جاتا ہے ۔ مغرب نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ جو وہ دکھائیں‘ اُسے دیکھا جائے ۔ اس کے لیے وہ عالمی میڈیا پر اپنے اثر و روسوخ کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیاکا مشترکہ ٹی وی چینل ایک اچھا آغاز ہے ‘ تاہم مہدی حسن الجزیرہ اور دیگر اہم مسلمان صحافیوں جو مغرب میں سنے جاتے ہیں‘ کے ذریعے مغربی میڈیا تک رسائی بھی ضروری ہے ۔ 
2۔ مکمل سچ سامنے لائیں: قطر فائونڈیشن اور دیگر اسلامی فائونڈیشنز کی دنیا میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تحقیقات کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
3۔ مغرب میں غیر روایتی سفارت کار تلاش کرنا: لوگ پاکستان جیسی جگہوں پر آنا اور پھر یہ بتانا پسند کرتے ہیں کہ اس سے پہلے اُن کا میڈیا پر پاکستان کو دیکھ کر کیا تاثر تھا۔ پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا کی مشترکہ میڈیا کاوش کیلئے ضروری ہے کہ وہ مغربی رول ماڈلز کو تلاش کریں جو خواتین‘ اسلام اور اسلامی دنیا کا نرم امیج پیش کرسکیں۔ یہ غیر روایتی سفارت کار مغربی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیانیہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ 
اگرچہ سوشل میڈیا نے عام شہریوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقعہ فراہم کردیا ہے ‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ من گھڑت خبروں اور پراپیگنڈے کی بھی بھرمار ہوگئی ہے ؛ چنانچہ مسلمان معاشروں کے بارے میں پیش کیے گئے تاثرانگیز مناظر میں ممکن ہے کہ جزوی سچائی ہو‘ لیکن وہ تصویر مکمل نہیں ہوتی‘ اور نہ ہی وہ پورے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے؛ چنانچہ ترکی‘ ملائیشیا اور پاکستان جیسے ممالک پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved