بنامِ دین تو کبھی بنامِ وطن ... لوٹ مار اورمار دھاڑ کی داستان اتنی طویل اور المناک ہے کہ جہاں یہ لوٹ مار اور مار دھاڑ کرنے والوں نے اقتصادی ڈھانچہ تباہ وبرباد کیا وہاں معاشرتی اور اخلاقی قدریں بھی ہلا کر رکھ دیں۔ کسٹم ڈیوٹیز سے لے کر ملکی وسائل اور خزانہ پر بے دریغ ہاتھ صاف کرنے تک ‘قرض اُتارو ملک سنوارو جیسے ڈھونگ سے لے کر منی لانڈرنگ اور بوگس اکائونٹس و جائیدادوں تک‘ سبھی وارداتیں اتنی ہوشربا ہیں کہ عقل انسانی یہ بات تسلیم ہی نہیں کر پاتی کہ اوسط درجے کے کارخانے دار اس ملک و قوم کے وسائل اور خزانے کو اس طرح بھنبوڑ کر رکھ دیں گے۔ الامان و الحفیظ۔ ان کی لوٹ مار کی داستانیں اس قدر چونکا دینے والی ہیں کہ بے اختیار یہ گمان ہوتا ہے‘ یہ سب کچھ کر گزرنے والے صنعت کار نہیں بلکہ لوٹ مار کے سائنس دان ہیں۔ نت نئے فارمولوں سے لے کر بڑی سے بڑی واردات تک‘ ڈالرز اور ایس آر اوز کی میجک گیم کے ذریعے راتوں رات کسی کو خاک میں ملا دیا تو کسی کو زردار کر دیا۔
ان ہوسِ زر کے ماروں نے تو زلزلہ زدگان کی امداد پر کنبہ پروری سے بھی گریز نہ کیا۔ انہوں نے زکوٰۃ، خیرات اور چیریٹی کے نام پر آنے والی امداد پر ہاتھ صاف کر کے دنیا بھر میں پاکستانی قوم کو جس ندامت سے دوچار کیا ہے‘ اس کا شمار اور گمان ہی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود بے حسی کا عالم یہ کہ انگلیاں نچا نچا کر بڑھکیں مارتے ہیں کہ کوئی دھیلے کی کرپشن بھی ثابت کر کے دکھائے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل میں جب یہ سٹوری شائع ہوئی کہ زلزلہ زدگان کی امدادی رقم بھی ہڑپ کر لی گئی تو وہ کس قدر تلملائے پھرتے تھے۔ شہباز شریف المعروف خادم اعلیٰ نے اس سٹوری کو مسترد کرتے ہوئے من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کریں گے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ڈیوڈ روز ہر روز اپنی ڈاک/ ای میلز انتہائی بے چینی سے چیک کرتا ہے کہ کہیں کوئی قانونی نوٹس خادم اعلیٰ نے تو نہیں بھجوایا کہ عدالت میں آئو اور الزام ثابت کرو۔ پر کتھوں؟ قانونی چارہ جائی اور ہتکِ عزت کا دعویٰ صرف وہی کرتے ہیں اپنی بہتر ساکھ قائم رکھنا جن کی ترجیحات میں شامل ہو۔ یہاں تو اتنا کچھ اکٹھا کر لیا گیا ہے کہ اس چیز کے رکھنے کو شاید جگہ ہی نہیں بچی۔ پھر ہرجانے کا دعویٰ کرنے کے لیے دامن اور ہاتھ کا صاف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب ہاتھ کی صفائی نصب العین ہو تو دامن کیسے صاف رہ سکتے ہیں۔ خیر اب تو خادم اعلیٰ کو زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنا پڑے گی کہ وہ خود برطانیہ میں موجود ہیں۔ ڈیوڈ روز بھی اُسی دھرتی کا باشندہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالتیں بھی اُسی ملک کی ہیں۔ یہ سب کچھ یکجا ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ پہلے تو خادم اعلیٰ برادر بزرگ کی تیمار داری میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں شاید وقت ہی نہیں ملا کہ وہ مذکورہ صحافی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرتے۔ پہلے تو بڑے بھائی کے پلیٹ لٹس ہی کہیں ٹکنے کا نام نہیں لے رہے تھے‘ صبح کے گرے پلیٹ لٹس شام کو کہیں جا کر چڑھتے تھے تو رات کو گرے صبح مستحکم ہوتے تھے۔ بیرون ملک جاتے ہی پلیٹ لٹس کی وہ ٹکٹکی بھی نہیں رہی جو اِن کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے لگا رکھی تھی۔ کس باقاعدگی سے نواز شریف کے پلیٹ لٹس کے اتار چڑھائو کے بارے میں عوام اور میڈیا کو بتایا جاتا تھا۔ بیرون ملک پہنچتے ہی بیماری کے حوالے سے معلومات اور پلیٹ لٹس کا اتار چڑھاؤ بھی اس طرح صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے گویا قومی راز ہو۔ قومی راز نہ سہی سیاسی راز تو ضرور ہے۔
خادم اعلیٰ کے لیے اب وہاں ایسی کیا مصروفیت ہے جو اِن کی عزت سے بڑھ کر ہو اور وہ اس ڈیوڈ روز کو ایک قانونی نوٹس دینے کا وقت بھی نہیں نکال پا رہے جس نے انہیں ندامت سے دوچار کر دیا۔ کہاں گیا وہ ہتک عزت کا دعویٰ؟ کہاں گئیں وہ بڑھکیں؟ ابھی تک وہ اس صحافی کو عدالت کے کٹہرے میں کیوں نہیں لا سکے جس کے دعوے وہ انگلیاں نچا نچا کر کیا کرتے تھے؟ ایسے میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ خادم اعلیٰ کی ناگزیر مصروفیات اور بھائی کی بیماری کا کچھ خیال کرے اور برطانوی اخبار پر ہرجانے کا دعویٰ کر ڈالے‘ کہ اسے یہ جرأت کس طرح ہوئی کہ وہ خادم اعلیٰ پر جھوٹا الزام لگائے اور تہمت باندھے اور اس دعوے کے نتیجے میں ملنے والی ہرجانے کی رقم شہباز شریف کی طرف سے تحفتاً قومی خزانہ میں جمع کروا دے۔
برادر محترم حسن نثار نے تو شہباز شریف کو ایک بڑی پیش کش بھی کر ڈالی ہے کہ وہ ڈیلی میل پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا حوصلہ کریں‘ تمام اخراجات کی مطلوبہ رقم آئندہ اپنے ٹی وی پروگرام میں ساتھ لے کر آئیں گے۔ ''سچے سوِترے‘‘ شہباز شریف اگر دعویٰ جیت گئے تو یقینا انہیں کروڑوں پائونڈ ہرجانے کی صورت میں ملیں گے۔ ایسی صورت میں وہ مجھے میری وہی رقم لوٹا دیں۔ اگر وہ مقدمہ ہار گئے تو ان کی کوئی بھی جائیدار فروخت کرکے مجھے میری رقم واپس کر دی جائے۔ شہباز شریف صاحب کے لیے اس سے بڑی آفر اور کیا ہو سکتی ہے کہ مقدمہ کے اخراجات حسن نثار برداشت کریں گے اور مقدمہ جیتنے کی صورت میں صرف وہی رقم واپس لیں گے جو قانونی چارہ جوئی پر خرچ ہو گی۔ باقی کے کروڑوں پائونڈ شہباز شریف کی جیب میں ہی جائیں گے‘ یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی... موجاں ای موجاں۔ شہباز شریف کی طرف سے تاحال اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا‘ ممکن ہے وہ ڈیوڈ روز کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
آخر میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ایک اہم ترین اقدام کی تعریف کا قرض چکانا بھی واجب ہے جس کے تحت انہوں نے تھیلیسیمیا کے 30 ہزار مریضوں کے لیے صحت انصاف کارڈ کے اجرا کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی طرف سے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے اس یکجہتی اور احساس پر خلدِ بریں سے منو بھائی ایک مکتوب پیش خدمت ہے:
آصف عفان! جیتے رہو! تمہاری ساری سرگرمیوں سے باخبر ہوں۔ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کو خون کی بروقت اور باآسانی دستیابی کے لیے اہم اداروں سے مفاہمت کی یادداشت کا سلسلہ قابل تعریف ہے۔ اسے مزید تیز کرو۔ حسن نثار کے کالموں اور ٹاک شوز میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لیے جو محبت اور ایثار دیکھ رہا ہوں وہ میرے لیے انتہائی باعث اطمینان ہے۔ وزیر اعلیٰ نے تھیلیسیمیا کے مریضوں کو ہیلتھ کارڈ جاری کرکے ان کی مشکلات اور تکالیف میں بجا طور پر کمی کی ہے۔ میری طرف سے ان کا شکریہ ضرور ادا کرنا اور کہنا کہ اس موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی دعائوں کا انمول خزانہ ان کے لیے یقینا قیمتی تحفہ ہے۔ لاہور پولیس کی جانب سے تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کو مستقل خون کی فراہمی کی مفاہمتی یادداشت، ریڈ کارپٹ استقبالیہ اور گارڈ آف آنر ان بچوں کے لیے لائف لائن سے کم نہیں ہیں۔ لاہور پولیس کے نئے سربراہ ذوالفقار حمید سے کہنا کہ سابق سی سی پی او بی اے ناصر کا یہ انسان دوست اقدام یقینا قابل تقلید ہے۔ اسی طرح نئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر شعیب دستگیر سے بھی کہنا کہ آپ کے پیشرو کیپٹن عارف نواز نے بھی مفاہمتی یادداشت کا وعدہ کیا تھا اور اس پر کافی کارروائی مکمل ہو کر ایڈیشنل آئی جی انعام غنی کے پاس پہنچ چکی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آپ نہ صرف یہ وعدہ پورا کرکے دکھائیں گے بلکہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کے لیے لائف لائن بنیں گے۔ مجھے آپ سے یہ امید اس لیے بھی ہے کہ آپ ڈاکٹر بھی ہیں اور دستگیر بھی۔ اسلام آباد پولیس کے آئی جی عامر ذوالفقار نے بھی ہمیشہ مدد کی ہے۔ موٹر وے پولیس کے بعد اب اسلام آباد پولیس بھی ان معصوم بچوں کی شریک غم اور ہمدرد بنا ڈالی ہے۔ پاکستان رینجرز کے نئے ڈی جی پنجاب میجر جنرل عامر مغل بھی انتہائی دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں‘ ان سے بھی ایک ایم او یو کرو کہ وہ بھی تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کو بروقت خون کی فراہمی میں ضرور حصہ ڈالیں۔ خالد عباس ڈار، یاسین خان اور علی رئوف نے بھی خوب محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ سائوتھ افریقہ سے محمود بٹ جس ایثار اور لگن کا اظہار کر رہے ہیں وہ بھی قابل قدر ہے‘‘۔ دعاگو... منّو بھائی!