2013ء کے انتخابات نے کون کون سے ریکارڈ ہیں جو قائم نہیں کیے۔ہمارے تحریک طالبان والوں نے جمہوری عمل کو خون میں نہلانے کیلئے کونساتباہ کن حربہ ہے جو استعمال نہیں کیا۔ان سے نبرد آزما تین سابقہ لبرل حکمران جماعتوں کے ہاتھ توباندھے ہی گئے‘تین صوبوں میں انتخابی عمل کو بھی معطل کرکے رکھ دیاگیا۔لیکن عوام کی منشا کے آگے کون ٹھہرسکتاہے؟اورعوام کافیصلہ اورایسے بھرپور طریقے سے آیا بھی تو ایسا کہ سبھی دنگ سے رہ گئے ہیں ۔پنجاب میں سونامی کابہت چرچارہا اوروہ بھی میاں نوازشریف کے خلاف ۔لیکن تباہی اس نے صرف خیبرپختونخواہ میں جا کر کی اور وہ بھی پاکستان کی سب سے معتوب پارٹی کی جو طالبان کی بندوق کے نشانے پہ تھی۔سامنے سے سونامی اور ،مولانافضل الرحمن اورپیچھے سے طالبان کے بم باز،اے این پی کا قصہ تمام ہوا۔پنجاب میں بہت سی قوتوں کے مابین یہ طے تھا کہ میاں نوازشریف کے قد کوکیسے چھوٹا کیاجائے‘ سب کو منہ کی کھاناپڑی۔ پی پی پی والے تو اس پر بغلیں بجاتے میدان سے غائب ہوئے کہ سونامی اورشیر کی جنگ میں کچھ مال غنیمت انکے ہاتھ بھی لگ جائے گا ،لیکن جیالے تھے کہ میاں نوازشریف کے خلاف عمران خان کو آگے کرکے پرانے حساب چکانے پرمائل نظرآئے۔ پنجاب میں تومقابلہ فقط پچاس شہری و نیم شہری نشستوں پہ تھا جہاں درمیانے طبقوں کے غیرسیاسی حلقے پہلی بار میدان میں اتر کر انصاف کاجھنڈا بلندکرتے باہر نکل آئے اور یہ بھول کر کہ عدلیہ کی بحالی بالآخر میاں نوازشریف کے لانگ مارچ کی مرہون منت تھی۔یار لوگ یہ سمجھ بیٹھے کے سونامی کادائرہ دوردور تک پھیلاہوا ہے‘ اورشیرکوکہیں پناہ نہ ملے گی۔خیال یہ تھا کہ حکومتی بدنامی پنجاب میں بھی شاید ویسا رنگ دکھائے گی جیسے پیپلزپارٹی کے خلاف۔اورعمران خان کایہ نعرہ کہ سب باریاں لگاچکے اور اب تبدیلی کیلئے انہیں آزمایاجائے کافی اثرانگیز تھا۔عمران خان ایک رعائتی نشست سے قومی رہنما بن کرابھرے ہیںاور یہ اچھاشگون ہے۔ ان میں ابھی کافی دم خم ہے اور وہ اگلی اننگز بھی خوب کھیلیں گے ‘توغم کیسا؟ لوگ یہ بھول گئے کہ محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے بعدمیاں نوازشریف نے گزشتہ انتخابات میں بھی توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی اوروہ پنجاب میں اپنی حکومت بناپائے تھے۔تین دہائیوں کی سیاسی بھٹی سے نکل کر بینظیربھٹو کے بعد صرف ایک ہی لیڈربچاتھا‘ جس پر عوام بھرپور اعتمادکرسکتے تھے اوروہ ہیں میاں نوازشریف! جنہوں نے جمہوریت کوپٹری پہ رکھنے میں گزشتہ پانچ برس میں نہایت کلیدی کرداراداکیاتھا اور وہ ایک فہمیدہ اورسنجیدہ سیاستدان کے طورپرزیادہ عزت سے دیکھے جانے لگے تھے اورباوجودیکہ انہیں طعنہ زنوں نے دوستانہ حزب اختلاف کے طعنے دے دے کر جمہوری راہ سے ہٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاتھا‘ وہ اپنی ہٹ پرقائم رہے۔ انتخابی مہم میں بھی ان کاسارا زورمعاشی ایجنڈے اورخطے میں امن پر رہا اور وہ بے معنی نعرے بازی اور دشنام طرازی سے بازرہے۔ پنجاب کے عوام نے پھر سے انہیں ایسازبردست مینڈیٹ دیاہے کہ پنجاب کے بل پرآمرانہ مرضی مسلط کرنیوالوں پر سماجی زمین تنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ذرا رکیے‘ انتخابی نتائج کامنظرپنجاب سے باہر بھی بہت زبردست ہے‘ اورایساجوپاکستان کی تاریخی اکائیوں کی اپنی اپنی انفرادیت کو سموئے ہے۔اندرون سندھ سے پی پی پی اور شہروں سے متحدہ قومی موومنٹ کی بالادستی برقراررہی ہے۔ سونامی،نہ شیر وہاں کوئی رنگ نہ جماپایا۔یہ درست ہے کہ پی پی پی والوں نے اپنی تاریخی اور ترقی پسند ساکھ کو لٹانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی اور لوگوں نے ان کی فی الوقت چھٹی کرانے میں عافیت جانی۔ لیکن یہ کہنا کہ اب تحریک انصاف نے پی پی پی کی جگہ لے لی ہے‘ ایک اورفریب نظرہے ۔تحریک انصاف نے جو سیاسی ونظری خیال آرائی فرمائی ہے اس کے گرویدہ صرف درمیانے طبقوں کے پیشہ ور یانوکری پیشہ لوگ ہوئے ہیں اوروہ بھی انتخابی نعروں کے دلفریب اثرمیں یاپھرپختون خواہ کے ان علاقوں میں جہاں قبائلی غیرت کا سکہ چلتاہے یاپھروہ جو سابقہ حکومت سے نالاں۔ نچلے اور پسے ہوئے طبقوں تک نوازلیگ والے پوری طرح پہنچے ہیں نہ تحریک انصاف والے ،وہ ابھی بھی بھٹو ز کے خواب دیکھتے ہیں۔یہ پہلی انتخابی مہم تھی جس میں کوئی بھٹو تھانہ بھٹو کا وارث۔شہیدوں کویاد کرکے اورمستقبل میں انکے وارث کے امکانی اتار پر توانتخابی مہم نہیں چلائی جاسکتی تھی۔سندھ کے سوا سب جگہ پی پی پی چاروں شانے چت ہوگئی۔ الطاف بھائی کامیاں نوازشریف کوپنجابی لیڈر ہونے کا توصیفی طعنہ محض درفنطنی سے زیادہ نہیں۔وہ وفاقی سیاست کرتے ہیں اور انہوں نے سندھ ‘بلوچستان اور پختونخوا میں اپناپیغام پہنچانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اس پنجابی لیڈر کااگر چھوٹے صوبوں میں تاثر دیکھنا ہے تو جاکر سیاسی طور پر بلوچستان میں دیکھئے جہاں یہ پہلی تین جماعتوں میں شامل ہے اورکونسابلوچ اورپختون قوم پرست ہے جو ان پر اعتبارکرنے کو تیارنہیں۔بلوچوں نے جھگڑا پنجاب سے بنارکھاہے اورپنجابی لیڈر میں انہیں شکتی نظرآرہی ہے ۔ہے نہ یہ مدبرانہ جمہوری سیاست کاکمال!سندھی قوم پرست بھی انکی مالاجپتے ہیں۔اورپختون خواہ میں بھی نوازلیگ نے اپنی موجودگی کا اچھا خاصہ رنگ جمایاہے۔ یہ کیسی انہونی ہے کہ لاہور کا عمران خان اپنی فتح کے جھنڈے پختونخوا میں گاڑتاہے ۔غالباً اسلئے نہیں کہ اسکی ایک پختون شناخت بھی ہے‘ بلکہ اس لیے کہ پختون ایک ایسالیڈر چاہتے تھے جوانہیں جاری جنگ سے نکال سکے جوانکی تباہی کاباعث بن رہی ہے ۔اے این پی بہادری سے مارتو کھاتی رہی‘ لیکن دہشت گردی کے عفریت کوقابونہ کرسکی جس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔پختونوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ عمران خان طالبان کوبات چیت کے ذریعے امن و امان کی زندگی گزارنے پر قائل کرے گا۔ دیکھئے عمران خان کتنا کامیاب ہوتے ہیں ‘ہماری دعائیں انکے ساتھ ہیں ۔عمران خان ایک تیسری قوت بن کر ابھرے ہیں ‘انہوں نے متوسط طبقے کے بڑے حلقوں کو متحرک کیاہے جو سیاست پر فقط ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ وہ ایک قومی ہیروہیں اورایک اچھارول ماڈل بھی ۔بہترتھا کہ وہ سونامی جیسے بے معنی نعرے لگانے کی بجائے نوجوانوں کوکوئی آگے کی جانب دیکھنے والاجدیدوژن دیتے۔ عظمت، غیرت اور انصاف محض جذباتی نعرے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ جنون بھی۔بھٹو کے پاپولزم اورانکے پاپولزم میں بنیادی فرق ہے۔بھٹو کے پاس سماجی تبدیلی کاپیغام تھا جو آج بھی غریب طبقوں کے دلوں میں موجزن ہے۔عمران خان کے پیغام میں کیاپیغام ہے؟اگرتبدیلی تھا تو وہ تبدیلی کیاہے؟چہروں کی تبدیلی یاکچھ اور۔انہیں اس پہ کچھ اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ رہے پیپلزپارٹی والے تو انکے ساتھ عوام نے ٹھیک کیا ہے وہ اپنے سوشل ڈیموکریٹک راستے اور بی بی بینظیر کی سوچ سے ہٹ گئے۔ کواچلا ہنس کی چال ‘اپنی بھی بھول گیا۔یہی اس انتخاب میں پی پی پی کے ساتھ ہواہے۔پی پی پی کیلئے ابھی بہت گنجائش ہے۔ یہ بہت بڑی پارٹی ہے‘ لیکن اب اسکے پاس کونسی کاز ہے؟زرداری صاحب کایہ خیال تھا کہ وہ حلقے کی سیاست کے چوہدریوں کو ملا کر پارٹی کو تگڑا کرینگے۔ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ نوجوان بلاول کو بھی انہوں نے غلط وقت پر سیاست میں اتارا۔اسے گیلانی حکومت کے گناہوں کابوجھ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اوروہ کنارہ کش رہا۔المیہ یہ ہوا کہ صدرزرداری پرپابندی کے بعد کوئی بھی دودھ پینے والا مجنوں میدان میں نہ اترا جوپارٹی کی قیادت کرتا۔اورزرداری صاحب پیپلزپارٹی کے روشن دماغ والے چہروں کو آگے لانے سے کتراتے رہے۔ پیپلزپارٹی کوپھرمٹی سے اٹھناہے اوریہ پھراٹھ سکتی ہے۔ اگر زرداری صاحب پرانی جاگیردارانہ سیاست کی طلسم سازی کے سحر سے باہرنکل آئیں اور پیپلزپارٹی کوپھرسے عوامی، جمہوری، سیکولر اورترقی پسند جماعت بنانے کیلئے اسکی جمہوری بنیادوں پر ازسرنو تشکیل کریں تو پیپلز پارٹی کا مستقبل ہے‘ ورنہ اللہ حافظ! انتخابی نتائج سے مستقبل کا سیاسی منظر یکسربدل گیا ہے۔ جوپیچھے رہ گئے ہیں ان میں اتنی سیاسی بلوغت نہیں کہ جمہوری رواداری کامظاہرہ کریں۔پنجاب میں تحریک انصاف نے کم ووٹ نہیں لیے اوریہی کیاکم تھا جو وہ کارکنوں کو چار چھ نشستوں پرمبینہ دھاندلی کے خلاف اکسارہے ہیں؟کسے پتہ نہیں ہے کہ روایتی دھاندلی کی قوتیں کس کیلئے دعاگو تھیں؟سب کو عوام کے مینڈیٹ اورعوام کی عدالت کے آخری فیصلے کے سامنے سرنگوں کرناچاہیے۔ میاں نوازشریف نے کمال فراخدلی کامظاہرہ کیاہے‘ وہ عمران خان کی تیمارداری اورانہیں پختونخوا میں کامیابی پر مبارک دینے خود شوکت خانم ہسپتال پہنچے اوریہ یقین دلانے کیلئے کہ تحریک انصاف پختونخوا میں حکومت بنانے کاجمہوری حق استعمال کرے اوروہ انکے ساتھ مل کرملک کو دہشت گردی اورمسائل کے بھنور سے نکالیں۔ جولوگ انتخابات کو مشکوک بنانے کاگندا کھیل کھیل رہے ہیں وہ جمہوریت کے دوست نہیں اورچاہتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت مقتدر نہ ہو!کس کاکھیل کھیل رہے ہیں یہ رنگ میں بھنگ ڈالنے والے حضرات! پاکستان کے جمہوریت کی جانب عبور کاایک راونڈ مکمل ہوا،جمہوریت کے استحکام کیلئے ایسے کئی رائونڈز درکار ہونگے۔ ذراصبر کیجئے اور جمہوریت کو جمنے دیجئے اسے اکھاڑنے والے تاک لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ اب نہیں آسکے تو اگلی بار سہی!جمہوریت میں باریاں تولگتی ہی رہتی ہیں اورکرکٹ میں بھی! (کالم نویس جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی این جی او سیفما کے سیکرٹری جنرل اور سائوتھ ایشیا جرنل کے مدیر ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved