لاہور سے سوا چھ ہزار کلو میٹر دور‘ لندن میں مسلم لیگ نون کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔ لاہور میں درجۂ حرارت سولہ اور لندن میں نو ہے!
اقبالؔ نے کہا تھا ؎
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
تاہم پارٹی لندن کی زمستانی ہوا میں اپنی شمشیریں تیز کر رہی ہے۔ ہر پارٹی کو تیاری کرنے کا‘ اجلاس منعقد کرنے کا اور مقابلہ کرنے کا حق ہے۔ مگر آپ کا کیا خیال ہے‘ پاکستان کی قسمت کے فیصلے لندن میں ہونے چاہئیں؟ اگر آپ کا جواب ''نہیں‘‘ میں ہے تو معاف کیجیے آپ غلط ہیں!
کابل کی ہوا اُس روز سرد تھی! کسی مہم سے تازہ تازہ لَوٹا ہوا کابل کا حکمران تھکا ہوا تھا‘ مگر مہمان ایسے تھے کہ ملنا ضروری تھا! یہ دو خاص مہمان تھے۔ کابل کے خربوزے چار سو پچانوے برس پہلے بھی شیریں تھے۔ اتنے شیریں کہ لب دوز! انار تب بھی بیج کے بغیر تھے۔ حد درجہ میٹھے اور بلخ کے انگور اور شفتالو!
اس کے بعد ان خاص مہمانوں کی ضیافت ہوئی۔ بھیڑ کے بِریاں پار چے!
ظہیر الدین بابر کے آبائی خطے کا اُزبک پلاؤ!
خوبصورت رنگین پیالوں میں شوربہ اور تِل‘ خشخاش اور کلونجی سے بھرے ہوئے نرم نان!
یہ خاص مہمان‘ ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے‘ ہندوستان سے باہر‘ کابل میں وارد ہوئے تھے! پنجاب سے طویل سفر طے کر کے دلاور خان لودھی اور عالم خان لودھی بابر کے پاس اس لیے آئے تھے کہ وہ ہندوستان آ کر‘ ابراہیم لودھی پر حملہ کرے! وہی ابراہیم لودھی جو دونوں کا رشتہ دار تھا۔ آنے والے تین سو اکتیس برسوں کے لیے ہندوستان کا فیصلہ ہندوستان کی حدود سے باہر‘ اُسی روز ہو گیا تھا۔ بابر نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔ حملہ آور ہوا۔ پشتونوں کی ہندوستانی سلطنت ملیا میٹ کر کے مغل ایمپائر کی بنیاد رکھی!
ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کچھ عرصہ بعد‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے‘ ایک بار پھر ہندوستان کی حدود کے باہر کیا! انیس برس بعد ہمایوں دریائے ہلمند پار کر کے ایران کے با دشاہ کے پاس بیٹھا ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ ایک بار پھر مغلوں نے ہندوستانی پشتونوں کی سُوری سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
ہمایوں اور شہباز شریف کے درمیان چار سو پچھتر سال کا عرصہ ہے۔ اس عرصہ میں وہی کچھ ہوتا رہا جو آج شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے اکابر کر رہے ہیں۔ پلاسی کی جنگ سے لے کر تقسیم ہند تک‘ پورے ایک سو نوّے سال‘ سارے فیصلے اُسی لندن میں ہوتے رہے جہاں آج مسلم لیگ نون پاکستان کی قسمت کے فیصلے کر رہی ہے! یہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں یا نہیں‘ اور بات ہے۔ مگر ہو تو رہے ہیں! یوں شہباز شریف انگریزوں سے مخاطب ہو کر وہ سب کچھ کہہ سکتے ہیں جو مسولینی نے اپنے حریفوں سے کہا تھا ؎
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار‘ تُو چھلنی میں چھاج
پاکستان بنا تو سیٹو اور سنٹو کے معاہدوں میں شمولیت کے فیصلے پاکستان میں تھوڑی ہی ہوئے۔ ''یُوٹُو‘‘ کا جاسوس طیارہ پشاور سے اُڑانے کا فیصلہ بھی پاکستان سے باہر ہی ہوا اور جب پشاور کے اردگرد نقشے پر سرخ دائرہ لگایا گیا تو یہ فیصلہ روس میں ہوا۔
کوئی مانے نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ ہماری باگیں ہمیشہ بیرونی ہاتھوں میں رہیں! افغان امور میں جنرل ضیاء الحق کے عہد میں مداخلت وسیع پیمانے پر ہوئی تو فیصلے سعودی عرب اور امریکہ میں ہوئے۔ ہماری سرحدوں کی لکیریں مدہم پڑ گئیں۔ منشیات اور اسلحہ پاکستان میں گھر گھر پہنچا۔ کراچی سے لے کر گلگت تک غیر ملکی پھیل گئے۔ جنہیں یہ عاجز معاشرہ آج بھی بھگت رہا ہے!
بے نظیر بھٹو اور صدر مشرف کے درمیان مذاکرات کہاں ہوئے؟ پاکستان سے باہر! یہ رائٹر نیوز ایجنسی تھی‘ جس نے یہ خبر دی تھی۔ جنرل مشرف کے تین قریبی رفقا پاکستان کی قسمت کے فیصلے لندن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھ کر کر رہے تھے۔ یہ 2007ء کی بات ہے!
اس سے پہلے 2000ء میں جب شریف خاندان پاکستان سے باہر روانہ ہوا تو یہ فیصلہ بھی باہر ہوا تھا۔ سعودی شاہی خاندان اور حریری‘ سارے غیر ملکی ہی تو تھے۔
2007ء میں شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز بھی بیرون ملک ہی سے پاکستان تشریف لائے‘ معاہدے کے کاغذات لہرا کر میاں برادران کو یاد دلایا کہ ابھی آپ نے پاکستان واپس نہیں آنا کیوں کہ ''جلاوطنی‘‘ دس برس کے لیے طے کی گئی تھی!
اب لندن سے ہٹ کر رُخ دبئی کی طرف کر لیجئے۔ 2008ء سے لے کر 2013 ء تک زرداری صاحب صدرِ مملکت رہے۔ اس عرصہ میں وہ کتنی بار دبئی گئے؟ اسے تو چھوڑ ہی دیجیے۔ عرصۂ صدارت کے بعد عملاً سندھ کے صوبے کا صدر مقام دبئی منتقل ہو گیا۔ کتنی بار پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ ارکان دبئی گئے؟ کوئی سر پھرا یہ تحقیق کرے تو نتائج حیران کن نکلیں گے اور روح فرسا! چیونٹیوں کی قطار جیسی ایک قطار تھی جو کراچی اور دبئی کے درمیان چلتی رہی۔ بلاول بھٹو‘ فریال تالپور‘ قائم علی شاہ اور دیگر زعما‘ بریف کیس اٹھائے دبئی سے واپس آ رہے ہوتے یا عازمِ سفر ہو رہے ہوتے۔ موجودہ وزیراعلیٰ سیّد مراد علی شاہ تب صوبے کے وزیر خزانہ تھے۔ کوئی جس عہدے پر بھی تھا‘ دبئی جا کر حاضری لگواتا تھا۔ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!
ہماری باگیں بیرون ملک ہی رہیں! آج بھی بیرون ملک ہی ہیں! پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ یا تحریک انصاف! پاکستانی خود مختار نہیں ہوئے! بھلا پوچھیے یہ فیصلہ کہاں ہوا کہ اٹھارہ برس آئی ایم ایف کی ملازمت کرنے والا شخص سٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر تعینات ہو گا؟ اگر آپ اس زعم میں ہیں کہ یہ فیصلہ شاہراہِ دستور پر ہوا یا کراچی یا لاہور میں‘ تو اپنی معلومات پر نظرثانی کیجیے۔ ابھی ہم اتنے آزاد نہیں ہوئے کہ ایسے فیصلے ملک میں ہونے لگیں۔ ہمیں تو کبھی امریکہ‘ کبھی چین‘ کبھی آئی ایم ایف‘ کبھی ورلڈ بینک‘ کبھی یو اے ای‘ کبھی سعودی عرب کبھی قطر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پہلے لندن ہمارے بخت کا مالک و مختار تھا۔ اب دوسرے دارالحکومت بھی ہمارے مقّدر کے فیصلے کرنے لگے ہیں! خدا وہ دن نہ دکھائے کہ کابل‘ موگادیشو‘ کولمبو یا کٹھمنڈو میں ہمارے فیصلے ہونے لگیں۔ اس لیے کہ ہم کوئی کام ادھورا تو چھوڑتے نہیں! آخری حد تک لے کر جاتے ہیں! اگر پاتال میں گر رہے ہیں تو پھر تحت الثریٰ تک گر سکتے ہیں!
یہ جو ہر چوک پر آپ گداگروں کے جُھنڈ کے جُھنڈ دیکھتے ہیں تو اس میں حیرت ہی کیا ہے! فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست!
ہم میں سے ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق بھیک مانگتا ہے! کوئی سابق صدر ہے تو کسی بادشاہ سے لاکھوں ڈالر لیتا ہے تاکہ لندن اور دبئی میں رہائش گاہیں خرید سکے! کوئی سابق وزیراعظم ہے تو کسی دوسری بادشاہت سے جہاز مانگ کر لندن کا سفر کرتا ہے! کوئی حکمران ہے تو کسی شہزادے کے طیارے میں بیٹھ کر نیو یارک جاتا ہے۔ یہ سب ہماری عزتِ نفس کی مثالیں ہیں! ہم میں سے ہر ایک کے ماتھے پر لکھا ہے ؎
اے طائر لا ہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی