تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-12-2019

پیاز‘ ٹماٹر اور بالا دستی

بات اگر اشتہاری زبان میں کی جائے‘ تو کہا جائے گا کہ خواب تو اچھے ہوتے ہیں‘ مگر نہیں صاحب‘ ہر خواب اچھا نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ جو خواب اچھا نہ ہو‘ وہ ڈراؤنا ہی ہو‘ کبھی کبھی اچھا خاصا اچھا خواب بھی اپنی اصل میں خاصا ڈراؤنا ہوتا ہے۔ بالا دستی کے خواب کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ 
اگر کچھ درکار ہو تو انسان میں بھی کچھ ہونا چاہیے۔ محض خواہش کرلینے یا خواب دیکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لیاقت علی عاصم مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ؎ 
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے 
دردِ دل ہے کہ نہیں‘ زخمِ جگر ہے کہ نہیں 
اب‘ آپ ہی بتائیے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر بالا دستی کا خواب دیکھنا کہاں تک درست اور منطقی ہے ‘جبکہ ''فوڈ سکیورٹی‘‘ کا معاملہ اعصاب شکن ثابت ہو رہا ہو؟ کسی بھی ریاست کے لیے سب سے بڑھ کر اندرونی معاملات ہوتے ہیں۔ اگر ‘گھر کے اندر خرابی ہو تو محلے یا علاقے میں توقیر کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ 
چین علاقائی بالا دستی کی منزل سے آگے بڑھ کر اب‘ عالمی سطح پر بالا دستی اور قیادت تک کی منزل تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ بے تابی سمجھ میں آتی ہے۔ چین نے جب تک اندرونی مسائل حل نہیں کرلیے تب تک بیرونی کامیابی کا خواب دیکھنے سے گریز کیا۔ اب‘ چین کے پاس کوئی بھی خواب دیکھنے اور اُسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کرنے کا جواز ہے۔ 
ایک تماشا اور بھی ہے‘ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہم ہیں کہ ہنستے ہنستے بے دم ہوئے جاتے ہیں۔ یہ تماشا ہے‘ علاقائی بالا دستی کا بھارتی خواب۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز زمینی حقائق سے نظریں چُراتے ہوئے بلندیوں کی طرف دیکھنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بھی حرکت کا نتیجہ ناکامی اور پژمردگی کی صورت میں برآمد ہوا کرتا ہے اور بھارت کے معاملے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ 
خطے کی سلامتی کے حوالے سے پریشان رہنے والے بھارتی پالیسی میکرز چین اور پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں‘ مگر اب تک اپنے ملک کیلئے فوڈ سکیورٹی یقینی نہیں بناسکے۔ چاند پر قدم رکھنے کی خواہش ہے اور اب تک ملک کے 75 کروڑ سے زائد باشندوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ گھروں کے اندر ٹوائلٹ کی سہولت کے فقدان کی یہ کیفیت ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف عوام کو متوجہ کرنے کے لیے فلموں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے! پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے ‘جو بہت سے معاملات میں شدید پسماندگی کا شکار ہیں۔ بھارت جیسے بڑے رقبے اور بڑی آبادی والے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا معیشت اور علوم و فنون کے حوالے سے پیچھے رہ جانا سمجھ میں آتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھی پاکستان قدرے غیر مستحکم رہا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر پاکستان کو بیرون ملک کوئی بڑا معاشی یا پروفیشنل کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں۔ بھارت نے کئی عشروں کی جان گُسل محنت کے بعد نالج ورکرز کی فوج تیار کی ہے‘ جو دنیا بھر کے چھوٹے بڑے اداروں میں یا نجی طور پر پروفیشنل خدمات فراہم کرکے ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کا حصول یقینی بنا رہے ہیں۔ 
یہ سب تو ٹھیک ہے ‘مگر بھارت کہاں کھڑا ہے؟ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی دامن اور ہاتھ دونوں خالی ہیں۔ اور اِن دونوں سے بڑھ کر ذہن کا خالی پن ہے۔ ملک میں متوسط طبقے کے دائرے میں آنے والوں کی تعداد دس بارہ کروڑ سے زائد نہیں ہے۔ آج بھی 90 کروڑ سے زائد بھارتی باشندے شدید افلاس کی زد میں ہیں۔ چمک دمک تو بہت دکھائی دے رہی ہے ‘مگر حقیقت ہے کہ اندھیروں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ 
علاقائی سطح پر تمام چھوٹی ریاستوں کو دبوچ کر رکھنے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دینے والے بھارتی پالیسی میکرز اب تک اس امر کو یقینی نہیں بناسکے کہ ملک بھر میں کھانے پینے کی عمومی سی اشیاء کی رسد بخوبی جاری رہے۔ کبھی سبزیاں تگنی کا ناچ نچاتی ہیں اور کبھی پھل قیامت ڈھانے پر تل جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک ٹماٹر کی قلت دماغ کی لَسّی بنانے پر بضد تھی۔ آج کل پیاز کا بحران روایتی آنسوؤں کو ایک طرف ہٹاکر خون کے آنسو رُلانے پر تُلا ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں پیاز کا نرخ 100 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔ دیگر سبزیوں اور پھلوں کا بھی یہی حال ہے۔ 
بڑی معیشتوں کو نالج ورکرز کی شکل میں معیاری افرادی قوت فراہم کرنے والا بھارت اِس قدر پریشان ہے کہ ترکی‘ مصر اور ہالینڈ سے پیاز درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ مصر سے پیاز کی ایک بڑی کھیپ چل پڑی ہے ‘جو دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ممبئی پہنچے گی ‘جہاں سے اُسے دہلی کے نزدیک سونی پت کی منڈی میں پہنچایا جائے گا۔ 
دہلی کے وزیر برائے فوڈ اینڈ سول سپلائیز عمران حسین نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے پیاز پر زرِ اعانت دے‘ تاکہ منڈیوں میں پیاز 15 روپے فی کلو کے نرخ سے فروخت کی جاسکے۔ مرکزی حکومت نے دہلی کے لیے پیاز کے نرخ 60 روپے فی کلو مقرر کیے ہیں اور حقیقی نرخ 100 روپے فی کلو تک ہے۔ 
پیاز کا بحران اتنی شدت اختیار کرگیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دستِ راست سمجھے جانے والے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو بھی متوجہ ہونا پڑا ہے۔ خوراک اور صارفین سے متعلق امور کے مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بتایا ہے کہ ملک بھر میں پیاز کی رسد پر نظر رکھنے کے لیے ایک وزارتی پینل تشکیل دیا گیا ہے‘ جو وزیر داخلہ امیت شاہ کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ 
یہ تو ہوا پیاز کا معاملہ۔ اب‘ آئیے علاقائی و عالمی عزائم کی طرف۔ چین سے معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ سرحدی تنازعات برقرار ہیں۔ چین پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہے اس لیے اُس کے پسپا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چین سے ملنے والے دردِ سر سے شاید نئی دہلی کے اعلٰی دماغوں کا پیٹ نہیں بھرا۔ کسر پوری کرنے کے لیے امریکا کے خلاف بھی تجارتی محاذ کھول لیا گیا ہے۔ اب‘ ماہرین اور مبصرین مودی سرکار کو مشورہ دے رہے ہیں کہ امریکا سے تجارتی تنازعات کو طُول نہ دے اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دے۔ 
مودی سرکار چاہتی ہے کہ 2024ء تک بھارتی معیشت کا ٹرن اوور 5 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جائے۔ مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے معیشت کی سالانہ شرحِ نمو 12 فیصد ہونا لازم ہے‘ جبکہ اس وقت شرحِ نمو محض 4 فیصد تک ہے۔ بے روزگاری کئی عشروں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ خواہش بڑا بننے کی ہے اور حد یہ ہے کہ فوڈ سکیورٹی یقینی بنانے میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی۔ چاند پر قدم رکھنے اور اُس سے بھی آگے بستیاں بسانے کی آرزو ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اب تک 60 کروڑ سے زائد افراد کو فراہمی و نکاسیٔ آب کا معقول نظام بھی نہیں دے پائے۔ دیہی علاقوں کا تو خیر ذکر ہی کیا‘ دس بڑے اور درجنوں چھوٹے شہروں میں کروڑوں افراد آج بھی فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا بھی ہے کہ زندگی فٹ پاتھ سے شروع ہوکر فٹ پاتھ ہی پر ختم ہو جاتی ہے۔ 
اس پر بھی اونچا اڑنے کی خواہش؟ ایسے میں کہنا ہی پڑتا ہے۔ ع 
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved