اس دن مجھے احساس ہوا کہ کیسے بات سے بات نکلتی ہے اور پھر تصور کا جادو کیسے وقت اور سرحدوں کی طنابیں کھینچ لیتا ہے۔ میں ایک روز کے لیے کراچی آیا تھا۔ ارشد حسین اور راحیلہ بقائی کی دعوت پر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ایک تقریب میں مجھے پاکستان کے تعلیمی منظر نامے پر بولنے کی دعوت دی گئی تھی۔ تقریب شام کو تھی اس لیے اس وقت تک میرے پاس فراغت تھی جو مجھے ایک عرصے بعد ملی تھی۔ میں ہوٹل کے آٹھویں منزل پر واقع کمرے میں تھا۔ کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھا۔ کراچی میں صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ تب میں ملیر کینٹ میں رہتا تھا اور ہر روز کریم آباد میں واقع انسٹی ٹیوٹ میں آتا تھا۔ کراچی کی شامیں مجھے کبھی نہیں بھولیں گی جن میں سمندر کی ہوائوں کا نم ہوتا تھا۔ یہ 90 کی دہائی کے وسط کا ذکر ہے۔ میرے پاس سفید رنگ کی سیکنڈ ہینڈ شیراڈ گاڑی ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں میرے ساتھ فاروق کنور بھی ہوتے تھے۔ کیا زمانہ تھا‘ اب نہ وہ زمانہ رہا نہ فاروق کنور‘ وہ ہمیشہ کا عجلت پسند خاک کا پردہ اوڑھ کر ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ میں اب بھی کراچی آئوں تو ان دنوں کی یادیں جگمگا اٹھتی ہیں۔ پھر کراچی شکیل عادل زادہ کا شہر بھی تو ہے۔ جب بھی کراچی آئوں تو ممکن ہی نہیں کہ شکیل عادل زادہ سے ملاقات نہ ہو۔ شکیل عادل سے میری ارادت کا سلسلہ بہت پرانا ہے‘ جب میں سب رنگ کے طلسم کا اسیر ہوا تھا۔ اردو میں اتنی خوب صورت اتنی منفرد نثر شاید ہی پڑھنے کو ملے۔ یہ نثر صرف لفظوں کی صناعی نہیں بلکہ ہر لفظ میں جذبے کی تپش محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے شکیل عادل زادہ کا سب رنگ میں چھپنے والا ذاتی صفحہ حیرت انگیز طور پر کہانیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتا تھا۔
کراچی میں تین سالہ قیام کے دوران خواہش کے باوجود میری شکیل عادل زادہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ پہلی ملاقات اچانک لاہور کے ایک ہوٹل میں ہوئی جہاں کچھ اور دوستوں کے ہمراہ ہم کھانے کی میز پر اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد فون پر کبھی کبھار بات ہو جاتی۔ میں جب بھی کراچی آؤں ان کے ہاں ضرور حاضری دیتا ہوں۔ کبھی ہم دو دریا کے کنارے لکڑی سے بنے ہوئے خوب صورت ریستورانوں کی قطاروں میں کسی ریستوران پر بیٹھ جاتے ہیں اور رات کی تاریکی میں سفید جھلمل کرتے پرندوں کی پرواز دیکھتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے مشترکہ دوست شکیل الرحمن کے ہاں نہاری پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ آج بہت عرصے بعد کراچی آیا ہوں۔ شکیل عادل زادہ سے رات فون پر بات ہوئی تھی۔ انہیں بتایا تھا‘ کراچی ایک کام سے آیا ہوں‘ ملاقات کی خواہش تھی لیکن وقت کم ہے اور میرے پاس گاڑی بھی نہیں۔ شکیل بھائی نے پوچھا: آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے اپنے ہوٹل کا بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میرا کمرہ ہوٹل کی آٹھویں منزل پر واقع ہے اور اس کی کھڑکی سے کراچی کی زندگی دھڑکتی نظر آتی ہے۔ اور اب ہوٹل کا وہی کمرہ۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ایک کرسی سے ٹیک لگا کر کے نیم دراز ہو جاتا ہوں۔ کھڑکی سے جھانکتی ہوئی سردیوں کی فرحت بخش دھوپ بھلی معلوم ہوتی ہے۔ میرے دائیں طرف چھوٹی سی میز پر بغیر دودھ اور چینی کے کافی کا کپ رکھا ہے۔ لیپ ٹاپ پر پرانے گیت چل رہے تھے۔ لتا کی آواز میں شیلندر کا گیت ''عجیب داستان ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم‘‘ شنکر جے کشن کی موسیقی نے اس گیت کو امر بنا دیا ہے۔ کہتے ہیں فلم فیئر ایوارڈ میں ہٹ میوزک کی کیٹگری میں شنکر جے کشن کے اس گیت نے مغلِ اعظم میں نوشاد کے میوزک کو پچھاڑ دیا تھا۔ اچانک مجھے یوں لگا‘ دروازے کی گھنٹی بجی ہے۔ گھنٹی دوبارہ بجی تو میں اٹھا‘ یہ سوچتے ہوئے کہ ہوٹل کا کوئی ملازم ہو گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو حیرت میری منتظر تھی‘ میرے سامنے شکیل عادل زادہ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ میں نے کہا: یہ آپ نے کیوں تکلیف کی؟ کہنے لگے: ارے بھائی ملنا تو تھا ناں‘ آج بڑے دنوں بعد میں بڑی گاڑی چلا کر آیا ہوں۔ کمرے میں لیپ ٹاپ پر وہی گیت چل رہا تھا ''عجیب داستاں ہے یہ‘ کہاں شروع کہاں ختم‘‘۔ گیت کے بول سن کر شکیل عادل زادہ کی ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور ان کی آنکھیں اور روشن ہو گئیں۔ میں نے کہا: کیا آپ کی بھی کوئی یاد اس گیت سے وابستہ ہے؟ کہنے لگے: ایک نہیں کئی یادیں‘ لیکن پہلے چائے منگوا لیں‘ پھر باتیں ہوں گی۔ کچھ ہی دیر میں چائے آ گئی۔ شکیل عادل زادہ بولے: یہ گیت کمال امروہوی کی فلم ''دل اپنا اور پریت پرائی‘‘ سے ہے‘ جو 1960ء میں ریلیز ہوئی تھی اور یہ وہ دن تھے جب میں کمال امروہوی کے گھر تھا۔ یہ انہیں دنوں کی بات ہے جب کمال امروہوی ''دل اپنا اور پریت پرائی‘‘ پر کام سمیٹ رہے تھے۔ اس فلم کے ہدایات کشور ساہو نے دی تھیں۔ فلم کے مرکزی اداکاروں میں راج کمار اور مینار کماری شامل تھے۔ کمال مروہوی ایک Perfectionist انسان تھے۔ فلم کے پرنٹ دیکھنے کے بعد انہیں کشور ساہو کی ہدایت کاری میں جھول نظر آئے تو ساری فلم کی پھر سے ایڈیٹنگ کی۔ یہ فلم باکس آفس پر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے اس فلم نے چالیس لاکھ کمائے تھے‘ جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ میں نے کہا: شکیل بھائی کمال امروہوی نے چند فلمیں بنائیں جو دوسروں سے مختلف اور اپنے زمانے کی کامیاب فلمیں تھیں‘ آپ تو کمال امروہوی سے ملے ہیں‘ ان کے گھر قیام کیا ہے‘ ان کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ شکیل عادل زادہ نے بتایا‘ ''محنت اور بہت محنت‘‘ کمال امروہوی نے کبھی معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہیں مطالعے کا بہت شوق تھا۔ دنیا جہاں کی کتابیں پڑھتے۔ جہاں نئی کتاب دیکھتے‘ اسے پڑھے بنا انہیں چین نہیں آتا تھا۔ دوسری بار میں 1982ء میں انڈیا گیا اور کمال امروہوی سے ملنے ممبئی بھی گیا۔ میرے پاس امروہہ کی تاریخ کے حوالے سے دو کتابیں تھیں۔ کتابیں دیکھ کر وہ مچل اٹھے۔ کہنے لگے: یہ کتابیں مجھے مل سکتی ہیں؟ میں نے کہا: ضرور۔ یہ تھا ان کی کتابوں سے محبت کا عالم۔ ان دنوں وہ ایک تاریخی فلم بنا رہے تھے ''رضیہ سلطان‘‘ جس میں مرکزی کردار دھرمیندر اور ہیما مالنی کا تھا۔ کمال امروہوی مجھے ایک ہال میں لے گئے‘ جس میں چالیس لوگ رضیہ سلطان کے ملبوسات تیار کر رہے تھے۔ اسی طرح فلم میں حبشی غلام یاقوت کے گھوڑے کے لیے ان کا اصرار تھا کہ اس کا رنگ کالا ہونا چاہیے۔ اس فلم کی موسیقی کے لیے انہوں نے موسیقار خیام کا انتخاب کیا۔ فلم کے گیت جاں نثار اختر اور ندا فاضلی نے لکھے تھے۔ اسی فلم کے لیے لتا نے ''اے دلِ ناداں‘‘ جیسا گیت گایا تھا۔ شکیل بھائی کہنے لگے: کمال امروہوی ایک شاعر، سکرین پلے رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کی۔ محل، پاکیزہ، رضیہ سلطان جیسی فلمیں بنائیں۔ مغلِ اعظم فلم کے لیے ڈائیلاگ لکھے۔ وہ دنیاوی پیمانوں کے مطابق ایک کامیاب ترین انسان تھے‘ لیکن کامیابی کے شور و غوغا سے شروع ہونے والا سفر ایک گمبھیر تنہائی پر ختم ہوتا ہے۔ مینا کماری سے قطع تعلق کے بعد ان کی زندگی کا جذباتی خلا کبھی پُر نہ ہو سکا۔
باتیں کرتے کرتے شکیل عادل زادہ اچانک چپ ہو گئے۔ ہوٹل کے کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی‘ مجھے کیا خبر تھی‘ میرے لیپ ٹاپ پر چلنے والا گیت ''عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم‘‘ ہمیں کہاں سے کہاں لے جائے گا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ کیسے بات سے بات نکلتی ہے اور پھر تصور کا جادو کیسے وقت اور سرحدوں کی طنابیں کھینچ لیتا ہے۔