تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     11-12-2019

اتنی مایوسی کیوں؟

سیاسی ٹاکرے دیکھنے سے جی بھر چکا۔ کبھی کبھار خاکسار بھی ان میں شرکت کی غلطی کرتا رہا ہے، لیکن اب اندازِ گفتگو اور لب و لہجہ دل کو بوجھل کر دیتا ہے۔ کئی بار غیر ملکی دوستوں سے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شکایت کی کہ آپ پاکستان کے بارے میں جو کچھ لکھتے، بولتے اور سوچتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ وہ چھپنے والے مضامین، برقی ذرائع ابلاغ پر گفتگو اور پاکستانی دورے کے دوران چیدہ چیدہ دانشوروں اور صحافیوں سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ تو وہی کچھ لکھ رہے ہیں جو پاکستانی خود کہتے ہیں۔ اُن میں کچھ پاکستانی سیاست اور معاشرت پر گہری نظر رکھنے والے بھی ہیں۔ عرصۂ دراز سے صرف اور صرف وطن عزیز کا مطالعہ کرنے کے بعد الٹا ہم سے شکایت بھرا سوال کرتے ہیں کہ پاکستانی دانشوروں کا رویہ اتنا منفی کیوں ہے؟ تنقید تو ہم بھی کرتے ہیں، اور ایسا کرنا ہمارے پیشے کا بنیادی حصہ ہے، مگر پاکستانی دوست تو اپنی ریاست کے وجود سے ہی متنفر لگتے ہیں۔ ان تیز سوالوں کا جواب بن نہیں پاتا۔ ہمارے ''دانشورانہ‘‘ رویوں‘ سوچ کے زاویوں اور سیاسی تعصبات کو بیرونی دنیا کے ماہرین خوب سمجھتے ہیں۔ 
چند دن پہلے کسی سیاسی ٹاکرے میں مدعو تھا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی حصہ لیتا ہوں، کیونکہ لاہور کی سڑکوں پہ رش، آلودگی اور شور شرابے سے گزرتے ہوئے کسی ٹی وی سٹیشن پہنچنا اپنے بس کی بات نہیں۔ سچ پوچھیں تو بارہا ارادہ کرتا ہوں کہ کسی سیاسی شو میں حصہ نہ لیا جائے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کچھ اینکر حضرات اُن امور کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں جنہیں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ہر سیاسی نمائندے نے اپنے سیاسی قائدین کا دفاع کرنا ہے۔ سیاسی قدوقامت سچ کی قربانی سے بنتا ہے۔ خوشامد ہی خوشامد۔ حکومتی صف بندی میں شریک احباب حکومت کے ہر فیصلے، پالیسی اور اقدامات کا جواز پیش کرنا مقدس فریضہ خیال کرتے ہیں۔ سچائی، حقائق، بامعنی گفتگو کا اس کوچے میں کوئی گزر نہیں۔ تنائو، کشیدگی اور بدمزگی سے ہی شو میں مزہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات غیر مہذب زبان، تلخی اور ہاتھ تک اٹھانے کی نوبت آجاتی ہے۔ 
جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے، وہ ہمارے معاشرے میں سیاسی تنائو اور تقسیم کا عکس ہے۔ ہمارے دانشور اس کے ذمہ دار ہیں۔ کشیدگی کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن زہریلی اور نفرت انگیز گفتگو معاشرتی بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ تلخ لہجہ تنائو کی حدت بڑھاتا ہے‘ لیکن اس خرابی کا خیال کون کرے؟ ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف تقریباً نصف صدی سے جو زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ نہ جمہوری مزاج رکھتی ہے، نہ برداشت، نہ بردباری۔ بس نفرت ہی نفرت ہے۔ اکھاڑ پچھاڑ، نعرے بازی سے سیاسی فضا کی کثافت مزید گہری ہوتی رہتی ہے۔ اس ماحول میں جمہوری مزاج کا کیا گزر؟ اس کی اساس تو احترام، رواداری، امن اور آشتی اور با اصول سیاسی مسابقت ہے۔ مخاصمت آمیز سیاسی ٹکرائو میڈیا پر ہو یا جلسے جلسوں میں، جاگیردارانہ معاشرے کا عکس ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، پھر کبھی سہی۔ جمہوریت صرف ایک نظامِ حکومت، ایک عالمگیر اصول ہی نہیں بلکہ یہ موجودہ دور کے سماجی نظام کے رویوں کا اثر بھی قبول کرتی ہے۔ کئی بار استفسار کیا کہ آخر سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھا کر نفرت کا مقابلہ کرانے کا کیا جواز ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ لوگ پسند کرتے ہیں۔ کیا لوگ واقعی ٹکرائو دیکھنا چاہتے ہیں، یا اُنہیں اس کا عادی بنا دیا گیا ہے؟ کیا تلخ لہجہ ہی اُن کی سماعت میں رس گھولتا ہے؟ کیا عوام پر پسندیدگی کی تہمت ایسے شوز کی روایت برقرار رکھنے کا محض بہانہ تو نہیں؟ جو بھی ہو، ان کی وجہ سے ملک میں ہر سطح پر سیاسی تقسیم کی لکیر بہت گہری ہوتی جا رہی ہے۔ 
ہمارے قومی اور ذاتی رویوں میں مایوسی کی جھلک ملتی ہے۔ دو دہائیوں سے جو سعی کی ہے، اس کا پھل ہمارا دشمن کھائے گا۔ ہم نے ان کے ذریعے پاکستان کے بارے میں زہر پھیلانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اس کا اثر بہت دور تک جا چکا۔ کل کلاس میں ایک طالب علم نے سوال اٹھا دیا کہ پاکستان کا کیا مستقبل ہے؟ جواب دیا: روشن، بالکل روشن۔ جامعہ کے اندر یا باہر میرا جواب یہی ہوتا ہے۔ یہ بے بنیاد رجائیت پسندی نہیں، اور نہ ہی محض خوش فہمی کا ابال ہے۔ خاکسار پورے خلوصِ نیت اور پوری دیانت داری سے سمجھتا ہے کہ ہم اپنی قومی زندگی میں بہت کٹھن مراحل سے گزرے ہیں۔ بحران ہی بحران، دشمن ہمارے اندر زیادہ تھے۔ اب بھی ہیں۔ قوم کو اگر جاہل اور ان پڑھ رکھا جائے تو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ، گو مسائل اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں، ہماری طرح اضطراب کا شکار نہیں ہو جاتا۔ وہاں سیاسی اختلافات نفرت اور دشمنی میں تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ نفرت اب ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ کئی طوفانوں کا اس معاشرے اور قوم نے مقابلہ کیا؛ ہر بار سرخ رو ہوئے ہیں۔ جس گرداب میں گرے، یا گرائے گئے، اس کا مقصد ایک ہی تھا کہ کرپشن، توانائی کے بحران اور ناقص منصوبہ بندی سے پاکستان کی معیشت کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ یہ اپنے پائوں پر کھڑا ہی نہ ہونے پائے۔ جاننے والے تو سب جانتے تھے کہ وہ چہرے مہرے کون ہیں؟ کیسے حکمران؟ کیسی حکومت؟ کس نے ملک کو لوٹا اور کیسے لوٹا؟ یہ کھیل ہنوز جاری ہے۔ خیر اب بہت کچھ قوم کے سامنے آ چکا ہے، اور بہت کچھ مزید آنے والا ہے۔ 
آج اگر ملک کسی کنارے نہیں لگا تو بھی کم از کم منزل کی سمت بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ لندن سے کچھ اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ قوم کو یرغمال بنانے والے کہیں اور پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ چند روز قبل کی خبر تو مزید حیران کن ہے۔ کچھ کو لوٹنے کا ہنر آتا ہے، دھاندلی، ہیر پھیر اور نوسر بازی۔ اُنہوں نے کیا کچھ نہیں سیکھ رکھا۔ اس کام کے لیے جماعتیں بنا رکھی ہیں، گروہ کی صورت کام کرتے ہیں۔ اب مظلوموں کی آہ ہی ہو گی کہ دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے۔ میرا خیال تھا کہ ہمارے سیاسی ٹاکروں کا موضوع ایک دن یہی بے نقابی ہو گی۔ اس سے پہلے سب پردہ داری تھی، سکرین پر خوف کا راج تھا۔ شاید ابھی بھی حصے، ٹکرے بانٹے جاتے ہیں، مگر اب کھیل ہاتھ سے نکل چکا۔ 
لندن سے ایک انکوائری کے حوالے سے مک مکا کی خبر چل رہی تھی‘ تو ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی کہ موڈی مالیاتی ادارے نے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی منفی سے مستحکم قرار دے دی ہے۔ صرف دیکھنے کے لیے کہ کیا یہ موضوع بھی شام کے ٹاکروں میں زیرِ بحث آتا ہے یا نہیں، ٹی وی لگایا تو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستانی خوش ہو رہے ہیں، لیکن اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ ٹماٹر تو چار سو روپے بک رہے ہیں۔ سر پکڑ لیا۔ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ چالیس ارب پاکستانی روپے کے برابر غیر ملکی کرنسی کی پاکستان واپسی پر کون کیا بات کر رہا ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ کہیں بھی کوئی معمولی سا حوالہ تک نہ تھا۔ باتیں گھوم پھر کر معیشت کی بد حالی، افراطِ زر، اور یہ کہ غریب تو بس پس کر رہ گیا ہے‘ پر آ جاتی ہیں اور یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ تبدیلی کا کیا بنا؟ اسی انداز اور لہجے میں خاکسار سے کسی چینل نے سوال کیا کہ آخر اس نئی درجہ بندی سے عام لوگوں کو کیا فائدہ ملے گا تو جواباً عرض کیا کہ کیا آپ نے مکمل تفصیلی خبر پڑھی ہے، اور کیا آپ جانتے ہیں کہ کن عوامل کی بنا پر موڈی مالیاتی ادارہ ایسی درجہ بندی کرتا ہے؟ کہا کہ نہیں، میں نے تو بس ''سرخی‘‘ دیکھی ہے۔ 
دکھ کی بات ہے کہ یہ لوگ فہم و ادراک، یہاں تک کہ بنیادی مسائل کی سمجھ بوجھ سے بھی عاری ہیں۔ حکومتوں، اداروں، سیاسی جماعتوں اور پارلیمان تک کو نا اہل کہنے والے خود کتنے نا اہل ہو گئے ہیں‘ اور ان کی نا اہلی کی پکار بہت دور تک جاتی ہے‘ یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا ہو گا۔ اب تو ان کی جانبداری، جھکائو اور میلان چھپائے نہیں چھپتا۔ 
تو کیا سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو رائے سازی کے لیے بٹھایا گیا تھا، یا رائے بگاڑنے اور تعصبات گہرے کرنے کے لیے؟ مایوسی کا بیانیہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس کی جھلک پاکستان کے بارے میں عالمی میڈیا میں نمایاں ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ کسی اور منصوبہ بندی کا حصہ تو نہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved