فرض کریں آپ کو ایک بہت بڑا عہدہ دے دیا جائے‘ امریکہ کے صدر ‘ کوئی عظیم فٹ بالر یا بیٹس مین ‘ محمد علی جیسا باکسر یابڑی جنگیں جیتنے والاایک تاریخ ساز جنرل کا۔آپ کے ہاتھ سے اور آپ کے دستخط سے دنیا کے معاملات اوپر نیچے ہوا کریں یا یہ بھی چھوڑیں‘ فرض کریںکہ اگر آپ کو اڑنے کی صلاحیت دے دی جائے۔ آپ دنیا بھر میں اڑتے پھریں‘پھر ایک صبح آپ سو کر اٹھیںتو یہ سب کچھ چھن چکا ہو۔ آپ واپس ایک عام شخص بن چکے ہوں۔آپ جتنا مرضی زور لگالیں‘ آپ کے پائوںزمین سے بلند ہی نہ ہوں۔ پہلے آپ انتہائی تیز رفتار سے اڑتے ہوئے ‘جو کام چند سیکنڈز میںکر لیتے تھے۔ اب ‘دو ٹانگوں پہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ‘ وہی کام ایک ہفتے میں مکمل ہو۔ اس وقت آپ کی فرسٹریشن کا لیول کیا ہوگا؟ کیا آپ واپس عام آدمی والی زندگی میں آسانی سے ایڈجسٹ کر پائیںگے؟کبھی نہیں۔
انسان کے ساتھ یہی تو ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب سب معاملات انسان کے ہاتھ میںدے دئیے گئے تھے۔ اس کے احکامات نہیں‘بلکہ اس کے خیالات کے مطابق‘ چیزیں implement ہوا کرتی تھیں‘ پھر ایک حادثے کے بعد انسان سے یہ سب کچھ چھن گیا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک ایسے جسم میں قید تھا ‘ جس میںتھکن تھی‘ بول و براز کی بدبو تھی ‘ بے رحم موسم‘ جس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتے تھے۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے سانس پھول رہی تھی۔جسم پر لگنے والا ایک ذرا سا کٹ انسان کو اذیت میں مبتلا کر رہا تھا۔
انسان کے لا شعور سے وہ سب کچھ نکلا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے اس کے ہاتھ میں پیسے آئیں‘ وہ محلات تعمیر کرتا ہے اور سونے کے برتنوںمیںکھانا کھا کر اپنی اس انتہائی اذیت ناک محرومی کی تسکین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ بعد آپ دیکھیں گے کہ کھرب پتی لوگ لاکھوں ڈالر خرچ کر کے چاند کا دورہ کرنے جایا کریں گے۔
اپنی ان قوتوں سے محرومی کے بعد انسان نے کئی طرح کے ردعمل اختیار کیے۔ بعض لوگوں نے سائنسی بنیادوں پر سب چیزوںکا جائزہ لینا شروع کیا۔ سائنس کی مدد سے آپ ایک چیز کی تہہ تک اتر سکتے ہیں؛لہٰذا انسان نے ایک واحد زندہ سیل سے ڈائنا سار اور انسان تک کے بننے کے عمل کا مطالعہ کر لیا۔
کچھ لوگوں میں انتہائی شدید ردعمل پیدا ہو ا۔ وہ مذہب سے نفرت کرنے لگے‘ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمیں یہ زندگی enjoyکرنے کی لامحدودآزادی ہونی چاہیے۔ کوئی بھی ہماری زندگیوں میں مداخلت نہ کرے۔تمام ممنوعات سمیت زندگی سے لذت کشید کرنے کی ہماری کسی سرگرمی میں کسی کو دخل دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔امریکہ اور یورپ میںان لوگوں نے اپنی بات منوا بھی لی‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جسم کے ساتھ انسان زندگی کو کیسے انجوائے کرے؟ یہ جسم‘ یہ زندگی اس طرح ڈیزائن ہی نہیںکی گئی کہ اسے مستقل طورپر انجوائے کیا جا سکے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے پہلے عرض کیا ‘ یہ جسم بہت نرم و نازک ہے۔ بدبودار مادوں سے بھری ہوئی آنتیں‘جنہیں چند گھنٹوں بعد خالی کرنا پڑتا ہے۔ جلداورنرو ز کہیں سے ذرا سی بھی متاثر ہوں تو انسان تکلیف میں چلا جاتاہے۔ سانس کا راستہ ذرا سا بند ہو ‘ دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ دل کی قوت میںذرا سی کمی آجائے‘ انسان کے رگ و پے سے جان نکل جاتی ہے۔ ایک ہڈی ذرا سی تڑخ جائے ‘ انسان کسی قابل نہیں رہتا۔ نیورو فزیشنز اس بات کو بہتر سمجھتے ہیں کہ نروز کی صورت میں پورے انسانی جسم میںجیسے وائرنگ کی گئی ہے ‘ جن سے تکلیف کا احساس دماغ تک جاتاہے۔ ان کے ہوتے ہوئے انسان اس زندگی کو کتنا انجوائے کر سکتا ہے؟
اس کے علاوہ دو چیزیںبہت اہم ہیں‘ جن سے دنیا کے ہر امیراور غریب شخص کو یکساںواسطہ پڑتا ہے اور کسی انسان کا ذرہ برابر بھی ان پر اختیار نہیں۔یہ چیزیں ہیں؛stimulusاور دماغ میں خیالات کا نزول۔ stimulusوہ واقعات ہیں‘ جو انسان کی زندگی میںپیش آتے ہیں۔ ان واقعات پر انسان کا کوئی بھی کنٹرول نہیں۔اسے یوںسمجھیںکہ ایک امیر ترین شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے بیٹے کو زندگی میںکوئی تکلیف دہ چیز کبھی نہ دیکھنی پڑے ‘لیکن ایک دن جب وہ بچہ باہر جاتاہے تواس کے قریب ایک ایکسیڈنٹ ہوتاہے۔ بچے کی آنکھوں کے سامنے ایک شخص تڑپ تڑپ کرمر جاتاہے۔ یہ بچہ سکول جاتا ہے تو پہلے ہی دن اس کا جارح مزاج ہم جماعت اسے تھپڑمار دیتاہے اور اس کی چیزیںچھین لیتاہے۔ کیا آپ اپنی دولت کے بل پر اپنے بچے کے ہم جماعتوں کا انتخاب کر سکتے ہیں؟
یا اپنی ساری دولت کے باوجود ارب پتی باپ بیمار ہو جاتاہے یا ماں‘باپ کی لڑائی ہو جاتی ہے۔ دنیا میں ان گنت بچے ماں باپ کو لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ان کی زندگی پر اس کے نہ ختم ہونے والے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آپ کی ساری دولت کے باوجود آپ کا بچہ عقل میںآپ کے خاکروب کے بچے سے کمتر ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا حل ہے ؟
اس طرح سے یہ جتنے بھی stimulusہیں‘انسان کی زندگی میں پیش آنے والے جتنے بھی واقعات ہیں‘ ان پر انسان کا ذرا برابر بھی کنٹرول نہیں ے۔ ماں‘باپ میں سے ایک بچے کی کم عمری میںمر جائے ‘تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی زندگی پر اس کے المناک اثرات رونما نہ ہوں۔ دوسری طرف اس طرح کے حادثات کے نتیجے میںبچہ سخت جان بنتا ہے۔ سرکارﷺ کی حیاتِ مبارک دیکھ لیجیے۔
اسی طرح سے انسانی دماغ پہ خیالات کا نزول بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کے بس میں نہیں۔ یہ خیالات انسان کے اپنے پیدا کردہ نہیںہوتے ‘بلکہ یہ اس پر نازل ہو رہے ہوتے ہیں ۔
قرآن میںلکھا ہے : فالھمھا فجورھا وتقوھا ۔ پھر (اس نفس ) پر نازل کیا اس کا گناہ اور اس کی نیکی۔"Does a man think?"کے عنوان سے ہمارے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کا ایک یادگار لیکچر یوٹیوب پر موجود ہے۔ اسی طرح سے شیطان انسان کے کان میں بہت کچھ پھونکتا رہتاہے۔ حیوانی جبلتوں کا مجموعہ ''نفس ‘‘ اس کی دعوتوں اس طرح لپکتا ہے ‘ جیسے تیل آگ پکڑتا ہے یا جیسے ایک بھوکا کتا گوشت پہ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے آپ ذرا سوچیے کہ جو انسان اپنے دماغ پہ نازل ہونے والے ایک ذرا سے خیال کو روکنے پہ قادر نہیں‘ وہ اس زندگی کو بھلا کیا enjoyکرے گا؟بڑے امیر کبیر لوگ ڈپریشن میںمبتلا ہو جاتے ہیں ۔
آپ یہ بھی دیکھیںکہ لمحہ لمحہ انسان کی ترجیحات کیسے بدلتی رہتی ہیں؟۔ بچہ کھلونوں سے محبت کرتا ہے ‘ انہیں حاصل کرنے کے لیے روتا پیٹتا ہے۔ کچھ سال گزرتے ہیں ‘ یہ کھلونے اس کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں ۔ پھر چالیس پچاس سال وہ دولت کے لیے تڑپتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس سٹیج سے بھی انسان گزر جائے ‘ اس کی عقل مزید بڑی ہو جائے تو ایک دن آئے گا‘ جب یہ دولت اس کے لیے اسی طرحغیر اہم ہو جائے گی‘ جیسا کہ کھلونے۔
انتہائی نازک جسم‘ انتہائی بے یقینی سے وقوع پذیر ہونے والے stimulusاور دماغ پہ نازل ہونے والے خیالات۔ یہ سب وہ چیزیں ہیںکہ انسان ان کے ہوتے ہوئے اپنی یہ زندگی enjoyکر ہی نہیں سکتا۔ ہاں؛ البتہ ایک چیز ہے ‘ جس سے اسے سکون حاصل ہو سکتاہے اور وہ چیز ہے‘ خدا کی طرف رہنمائی کرنے والی عقل اور علم۔ جب انسان کو ایک چیز کا علم ہو جاتاہے‘ توپھر اس میںصبر آجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے‘ جیسے ایک سرجن ہاتھ میں اوزار اٹھائے کھڑا ہے کہ آپ کے جسم پر کٹ لگائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے آپ کو تکلیف سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود آپ خود چل کر آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہیں اور خود ہی سٹریچر پہ لیٹ جاتے ہیں۔
آپ کے اندر یہ غیر معمولی صبر اور سکون صرف اس علم کی وجہ سے ہی پیدا ہواہے کہ آخر کار اس عارضی تکلیف کا نتیجہ دیر پا راحت ہے۔اگر دولت سے انسان باقی رہنے والی راحت خرید سکتا‘ تو ہمارے حکمرانوںسے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک کے سب حکمران خاندان اتنے اضطراب کا شکار نہ ہوتے۔عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں حصولِ علم کے لیے اسی طرح کوشش کرنی چاہیے ‘ جیسا کہ وہ دولت کے لیے کرتا ہے اور اس کے لیے خصوصاًدعا گو رہنا چاہیے۔