تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-12-2019

’’عالمی دارالحکومت‘‘

''بھارت کو خواتین سے زیادتی کے عالمی دارالحکومت کا سا درجہ مل گیا ہے۔‘‘ یہ الفاظ بھارت سے خار کھانے والے کسی پاکستانی سیاست دان کے نہیں‘ بلکہ بھارت میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی کے ہیں۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ آج دنیا بھر میں لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اہلِ بھارت اپنی بہنوں‘ بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔ 
بچیوں اور خواتین کو زیادتی کے بعد انتہائی سفاک انداز سے قتل کرنے کے پے در پے واقعات نے پورے بھارت کو ہلاکر رکھ دیا ہے اورملک بھر میں شدید احتجاج کی لہر اٹھی ہے۔ کل تک صرف خواتین اپنے تحفظ کے لیے گھر سے باہر آتی تھیں۔ اب مرد بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اتر پردیش کے علاقے اُناؤ میں کئی ماہ تک زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی نے جب چھٹکارا ملنے پر قانونی کارروائی کی ٹھانی تو اُسے عدالت جانے سے روکتے ہوئے راستے ہی میں آگ لگادی گئی۔ یہ واقعہ جمعرات 5 دسمبر کا ہے۔ جمعہ اور ہفتے کی درمیان شب اس لڑکی نے دہلی کے صفدر گنج اسپتال میں دم توڑ دیا۔ لڑکی کو آگ لگانے کے جرم میں جن 5 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے‘ اُن میں سے 2 لڑکی کی طرف سے آٹھ ماہ قبل درج کرائی جانے والی ایف آئی آرز میں بھی نامزد ہیں۔ 
لڑکی کی ہلاکت نے ملک بھر میں لوگوں کو شدید احتجاج پر مجبور کردیا۔ لکھنؤ میں اتر پردیش اسمبلی کے باہر سابق وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے دھرنا دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
دہلی‘ حیدر آباد دکن‘ ممبئی اور دوسرے بہت سے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پانچوں ملزموں کو اُسی طرح موت کے گھاٹ اتارا جائے‘ جس طور 26 نومبر کو حیدر آباد دکن کے نواح میں جواں سال لیڈی ڈاکٹر کو زیادتی کے بعد زندہ جلانے والوں کو مارا گیا ہے۔ پولیس تفتیش کے سلسلے میں چاروں ملزموں کو جمعرات اور جمعہ کے درمیانی شب جائے وقوع پر لے گئی‘ جہاں مبینہ مقابلے میں چاروں کو ہلاک کردیا گیا۔ اس مقابلے کو سراہا جارہا ہے۔ اناؤ کیس والی لڑکی کے والد نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اُس کی بیٹی کے چاروں مجرموں کو بھی مقابلے میں ہلاک کردیا جائے۔ 
یہ کیس اس قدر سنگین ہے کہ اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بھی ہل کر رہ گئی ہے۔ لڑکی کے اہل خانہ کو پُرسہ دینے کے لیے جانے والے دو ریاستی وزراء اور پارلیمنٹ کے مقامی بی جے رکن ساکشی مہاراج کو عوام کے بھرپور اشتعال کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرکے تینوں کو بچالیا۔ لوگوں کے غیر معمولی اشتعال کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حال ہی میں زیادتی کے ایک بڑے کیس میں اتر پردیش سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایم ایل اے (ریاستی اسمبلی کا رکن) بھی ملوث نکلا ‘مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان سے اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ 
یہ تمام معاملات اس قدر اشتعال انگیز ہیں کہ بھارت کے صدرِ مملکت رام ناتھ کووند بھی جذبات پر قابو نہ پاسکے اور پھٹ پڑے۔ 6 دسمبر کو راجستھان کے شہر ماؤنٹ آبو میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رام ناتھ کووند نے کہا ''بچوں سے زیادتی اور پھر انہیں قتل کرنے والے کسی بھی سطح پر رحم کے مستحق نہیں۔ انہیں رحم کی اپیل کا حق نہیں دیا جانا چاہیے۔ زیادتی و قتل کے واقعات نے پوری قوم کا ضمیر جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ 
حیدر آباد دکن کے انکاؤنٹر کو ملک بھر میں سراہا جارہا ہے۔ اس انکاؤنٹر میں مارے جانے والے ایک ملزم کے والد نے بھی پولیس ایکشن کو غلط قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ''بیٹے کی موت کا غم نہیں‘ مگر اب اس نوعیت کے کیسز میں تمام ملزمان کو ایسے ہی انجام سے دوچار کیا جانا چاہیے۔‘‘ 
پولیس ایکشن کو ملک بھر میں سراہے جانے پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس شرد اروند بوبڈے سے رہا نہ گیا اور اُنہوں نے جودھپور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کو انتقام کا رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے تیزی سے مقدمہ چلاکر کچھ ہی دنوں میں فیصلہ سُنانے کے مطالبے کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سنگین نوعیت کے کیسز میں ایسا کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے۔ 
بھارت میں بچیوں اور خواتین سے زیادتی کے رجحان کا خطرناک حد تک پنپ جانا افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ بھارتی معاشرے میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے‘ جو اس رجحان کو تقویت بہم پہنچانے کا ذریعہ بنا ہے۔ معاشرتی اور معاشی عوامل نے اخلاقی اقدار کا تصور مسخ کردیا ہے۔ جسم ہی نہیں روح تک کو دبوچ لینے والے افلاس نے بڑے شہروں اور قصبوں میں جسم فروشی کو فروغ دیا ہے‘ جس کے نتیجے میں عادی عیاشوں کے ساتھ ساتھ اب اس دھندے سے بہت سے نوجوان محض شوقیہ طور پر بھی ''مستفید‘‘ ہو رہے ہیں۔ 
ہندو کلچر میں پردے کے رجحان کا بہت کم سطح پر پایا جانا بھی ایک اہم عامل ہے۔ محرم و نامحرم کا فرق ہندو معاشرے میں بہت حد تک نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مرد و زن کا اختلاط اِس قدر ہے کہ معمولی نوعیت کے پند و نصائح سے اصلاح کی راہ ہموار کرنا انتہائی محال ہے۔ 
بھارت بھر میں عمومی و خصوصی لباس کی ساخت پر غور کیے بغیر بے راہ روی کا گراف بلند ہونے کی وجوہ اچھی طرح نہیں سمجھی جاسکتیں۔ سکول ہی نہیں‘ کالج کی لڑکیوں میں بھی سکرٹ پہننے کا رجحان عام ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گھاگھرا چولی کا بھی ہے۔ ساری (ساڑھی) کے بارے میں تو سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خاصا revealing قسم کا پہناوا ہے۔ فی زمانہ لڑکیوں میں جینز اور ٹی شرٹ بھی بہت مقبول ہے اور دوپٹے کے چلن کو تو کب کی الوداع کہی جاچکی ہے۔ اس نوعیت کے عمومی پہناوے لڑکیوں کے ذہن میں یہ تصور پنپنے ہی نہیں دیتے کہ شرم و حیا کے تقاضوں کے تحت اُنہیں جسم کی نمائش سے حتی الامکان اجتناب برتنا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پورا معاشرہ اپنے عمومی چلن سے لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ٹھونستا ہے کہ جسم تو ہوتا ہی نمائش کے لیے ہے! 
رہی سہی کسر فیشن اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے پوری کردی ہے۔ حکومت انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ذریعے مکمل اباحیت کو فروغ دینے کی کوششوں کی رتی بھر بھی مخالفت نہیں کرتی اور حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ذریعے اباحیت کے فروغ کو یوں بھی ترجیحات میں بلند مقام پر رکھتی ہے کہ قوم اس چکر میں پڑکر بنیادی مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا بھی بھول جاتی ہے اور حکومت کے لیے دردِ سر بننے سے گریز کرتی ہے۔ لڑکیوں میں بلا ضرورت گھر سے تنہا نکلنے کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ لڑکیوں کے گروپ سنیما ہال‘ ریسٹورنٹ اور پارک میں دکھائی دیتے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے بے راہ روی پنپتی ہے۔ انٹرنیٹ نے معاملے کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بے راہ روی کی طرف لے جانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو رہی ہیں۔ 
بھارتی معاشرے میں فحاشی اور عریانی شرم ناک حد تک ہے۔ بھارتی حکومت اگر زیادتی کے واقعات روکنا چاہتی ہے تو محض سخت سزائیں دینا کافی نہیں‘ بلکہ معاشرے کو درست کرنے کی کوشش بھی لازم ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved