تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     13-12-2019

قائد اعظم کیوں ہنسے؟… اقبال کیوں روئے؟

اسے اتفاق کہہ لیں یا حُسنِ انتظام۔ یہ کام ایک ہی وقت میں بھارت میں ہوا اور پاکستان میں بھی۔ ہاں البتہ دونوں ملکوں میں کردار مختلف تھے۔ اُدھر مودی، امیت شاہ اور ڈوول تھے۔ اِدھر امن کی بھاشا والوں کا نواز شریف بیانیے والوں سے ملاپ ہوا۔ ایسے جیسے ''تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘۔ بھارت میں قانون سازی ہوئی اور پاکستان میں نئے عمرانی میثاق اور بیانیے کی حیلہ سازی۔ 
نظریات کا ''پرساد‘‘ بھارت نے تیار کیا‘ جسے تقسیم کرنے کے لئے اپنے ہاں اقلیت سے بھی چھوٹی اقلیت کو سیاسی سواری کے لئے ''رینٹ اے بیانیہ‘‘ دستیاب ہو گیا۔ بھلا ہو اس ڈاکٹر کا جس کی ڈائری میں برطانیہ، امریکہ کے ہر ''شاہی طبیب‘‘ کا فون نمبر موجود تھا۔ ساتھ پلیٹ لیٹس کائونٹ والا 'میراتھان‘ نیوز بُلیٹن بھی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ مے فیئر کے محلات سے باہر نکل کر ہر روز نئے ہیٹ ، لانگ کوٹ، برانڈڈ شوز ، کرسمس سوٹ‘ کروڑوں روپے کی گھڑیوں اور گاڑیوں میں آتا جاتا ہے۔ اپنے اقتدار والی کمائی کے وارثوں کی 4 نسلوں سمیت۔
اب چلئے، مودی کے مہا بھارت میں۔ جہاں اکھنڈ ہندو ریاست کے اپر ہائوس نے سوموار کو Citizenship bill پاس کیا۔ بِل کو لوئر ہائوس پہلے ہی پاس کر چکا تھا۔ راجیہ سبھا میں 105 ووٹ بِل کے خلاف پڑے‘ جنہیں 20 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ 125 ووٹوں نے شکست دے ڈالی۔ اس بِل کی معلوم شقوں سے بھارت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسرائیل جیسی مذہبی ریاست بن گیا‘ جہاں شہریت جیسا بنیادی حق بھی مذہب سے وابستہ کر کے سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمانوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ 
ہندتوا زدہ گیم چینجر قانون ہے کیا، آئیے اس کا مرحلہ وار جائزہ لیں۔ 
پہلا مرحلہ: سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کے مطابق، مودی نے اپنا pet پروجیکٹ مکمل کر لیا‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ بی جے پی حکومت نیشنل پاپولیشن رجسٹر مرتب کرے گی۔ اس NRC میں سٹیزن شپ Registration and Issue of National Identity Cards رولز 2003 میں ترمیم کر کے ہوم منسٹری 31 جولائی 2019 کے گزٹ نوٹیفکیشن کے تحت نافذ کرے گی۔ 
دوسرا مرحلہ: مرحلہ ثانی فوری طور پر شروع ہو گا۔ ٹاسک فورس پاپولیشن رجسٹر تیار کرے گی۔ رجسٹر کی تیاری کے لئے پورے بھارت میں ہائوس ٹو ہائوس مردم شماری ہو گی۔ (ماسوائے آسام کے)۔ آبادی شماریات کے نتیجے میں ہر شخص کی بابت لوکل رجسٹر تیار ہو گا‘ جو اس علاقے میں رہائش رکھتا ہے۔ یہ ساری ایکسرسائز یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک مکمل ہو جائے گی۔ 
تیسرا مرحلہ: ہندوئوںکی بڑھتی ہوئی اکثریت دکھانے کے لئے اور مسلم آبادی کو مزید اقلیت بنا کر شماریات کی بھیڑ میں گُم کرنے کے لئے 5 سالہ منصوبہ بنا ہے‘ جسے 5 years, Rigorous NRC process کا نام دیا گیا ہے۔
چوتھا مرحلہ: مسلم شہریوں کو انڈیا کی شناخت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اب ہر شہری سے ذلت آمیز سوال ہو گا کہ اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرو۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لا تعداد لوگوں نے شہریت چھن جانے کے ڈر سے پہلے ہی خود کشی کر لی۔ 
پانچواں مرحلہ: سٹیزن شپ رولز 2003 کے تحت NRC کا نفاذ ہے۔ اب کسی کی بھی شہریت پر کوئی دوسرا شہری اعتراض اٹھا سکتا ہے۔ رجسٹریشن اتھارٹی کو اختیار مل گیا کہ وہ کسی کو بھی بلائے اور پوچھے کہ تمھاری شہریت کیا ہے اور کہاں ہے؟ اسے ثابت کرو۔ 
فرض کریں عدنان سمیع جیسا لَے کار‘ جسے سوشل میڈیا پیار سے میجر عدنان کہہ کر پکارتا ہے اور جو بھارت میں پیدا نہیں ہوا۔ کل کو کوئی اُس کی سٹیزن شپ پر سوال اُٹھاتا ہے تو اسے بھارت سے دھکے دے کر نکالا جا سکے گا۔ مسلم شناخت والے ہیروز سلمان خان، شاہ رخ خان ، عامر خان ، عمران ہاشمی، نواز الدین صدیقی اور نصیر الدین شاہ بھی بھارتی شہریت سے محروم کر کے ملک بدر کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں قدیم کانگریسی ملا اور ان کی اولادیں بھی بھارتی شہریت سے محروم ہو سکتی ہیں۔ وہ کانگریسی مولوی جن کی پاکستان اور قائد اعظم کے خلاف اور اکھنڈ بھارت کے حق میں مسلسل ہرزہ سرائی سے تنگ آ کر حضرتِ اقبال نے 19ویں صدی کے تیسرے عشرے میں پیش گوئی کی تھی۔
ہے ہند میں ملّا کو جو سجدے کی اجازت
ناداں! یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
چھٹا مرحلہ: سٹیزن شپ بِل 2019 کے تحت بھارت نے 3 ملکوں میں اقلیتوں کی جسمانی نقب زنی کا راستہ بھی کھول لیا۔ یہ قانون بر صغیر کے 3 مسلم ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان کی نام نہاد ستائی ہوئی persecuted مذہبی اقلیتوں کو 6 سال میں فاسٹ ٹریک پر شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس عجیب و غریب قانون میں یہ شرط بھی لگائی گئی ہے کہ شہریت صرف غیر مسلموں کو ملے گی۔
7واں مرحلہ: اس متنازعہ قانون کے مطابق اگر کوئی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی یا بدھسٹ کسی قسم کی امیگریشن یا ٹریولنگ ڈاکیومنٹس کے بغیر بھی انڈیا میں داخل ہو جاتا ہے‘ تو اس کا سواگت ہو گا۔ نہ ایف آئی آر ہو گی، نہ پراسی کیوشن۔ اُسے بندی خانے میں بھی نہیںڈالا جائے گا۔ اس کی واپس اپنے ملک Externment کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسا شخص بھارتی شہریت کے لئے اپلائی کرنے سے پہلے ہی سیاسی پناہ حاصل کر لے گا۔ 
8واں مرحلہ: بھارت کے اندر ''گُھس بیٹھیے ‘‘ کی تلاش کا ہے۔ اس قانون میں infiltrators سے مُراد ہے محمڈن در انداز ۔ اب بھارتی ایجنسیوں کو اجازت ہو گئی ہے کہ وہ بھارت کے اندر ڈھونڈ ڈھونڈ کر گھس بیٹھیوں کو شناخت کریں۔ پھر انہیں بھارت کی شہریت سے محروم کر کے بھارتی سر زمین سے بے دخل (expel) کر دیا جائے۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار بھارت کی شہریت مذہب سے جوڑ دی گئی ہے۔ یہ ہندوستان کے سیکولر آئین کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔ جس نے بغیر امتیاز سب بھارتیوں سے مذہبی برابری کا وعدہ کیا تھا۔
9واں مرحلہ: اس قانون کے نیچے ''بھارتی سنتان‘‘ کا تصور اُجاگرکرنا ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا بھر کے ہندو بھارت کی طرف ہجرت کریں۔ جیسے 1940 کے عشرے میں ساری دنیا سے صہیونیوں نے اسرائیل کی طرف ہجرت کی تھی۔ 
10واں مرحلہ: بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کو مرحلہ وار کم کر کے دکھانا ہے۔ چند عشرے پہلے بھارت میں مسلم آبادی32 کروڑ، پھر 30، پھر 28، پھر25 اور اب 20 کروڑ گنی جا رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم کثیر العیال ہوتے ہیں۔ عجب مذاق ہے کہ انڈیا میں محمڈن کہلانے والے کاغذی طور پر چھوٹی سی اقلیت دکھائے جا رہے ہیں۔ جس کا اگلا مرحلہ انتہائی خوف ناک ہے۔
NRC کو عدالتی تائید مل گئی۔ اس عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر مشرقی ریاست آسام میں کارروائی بھی ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک سرد رات 19 لاکھ بھارتی شہریوں کی آنکھ لگ گئی۔ صبح جاگے تو بغیر کسی نوٹس یا اپیل کے ان کے نام شہریت کی رجسٹری سے غائب ہو چکے تھے۔ وہ در انداز ثابت ہو گئے تھے۔ حالانکہ ان میں سے اکثریت ہندوئوں کی تھی۔ نچلی جاتی کے ہندو۔
قائد اعظم ؒ بھارت میں دو قومی نظریے کی تازہ لہر دیکھ کر ہنس رہے ہیں‘ اور حضرتِ اقبال ؒعلم سے مالا مال لاہوری نوجوانوں کو دیکھ کر اپنے ہی اس شعر پہ رو دئیے:
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved