ملاقاتوں کی میم سے شروع ہوئی تو مکالموں، مذاکروں، مباحثوں سے ہوتی ہوئی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی بارہویں عالمی اردو کانفرنس مشاعروں پر ختم ہوئی۔ درمیان میں بہت سے پڑاؤ آئے۔ چار دن دوستوں کے ساتھ مسلسل ہم نشینی کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو میاں محمد بخش کا مصرعہ بہت یاد آیا
لے او یار محمد بخشا میلے چار دناں دے
دو آرزو میں اور دو انتظار میں کٹ جانے والے چار دن اس بار ایک ہی لہر میں کٹے۔ آرٹس کونسل کے با کمال اور غیر معمولی فعال صدر برادرم احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں کا حق ہے کہ انہیں اس حسنِ انتظام کے ساتھ ساتھ موضوعاتی تنوع پر بھی مبارک دی جائے۔ یہ بات الگ باعثِ تحسین ہے کہ وہ ادب، شاعری، فنون لطیفہ اور زبان و بیان سے دل چسپی رکھنے والے بہت لوگوں کو آرٹس کونسل کھینچ لانے میں بہت کامیاب رہے۔ یہ بات اس لیے بھی بہت قابل ستائش ہے کہ انہی دنوں میں کراچی ایکسپو کا کتاب میلہ سجا ہوا تھا اور علم و ادب اور کتاب سے وابستہ لوگ دونوں سالانہ تقریبات میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ لیکن اردو کانفرنس میں یہ صورت حال بہت سے سیشنز میں رہی کہ کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ لوگ راستوں میں بیٹھے ہوئے اور پہلوؤں میں جہاں جگہ تھی، کھڑے ہوئے تھے۔ اور یہ تو ہال کے اندر کی صورت حال تھی۔ آرٹس کونسل کے لان میں جسے اب پختہ ہو جانے کے بعد صحن کہنا چاہیے، بڑی سکرین لگا کر ہال کے اندر کی تقریب دکھانے کا انتظام تھا؛ چنانچہ بے شمار لوگ وہاں تقریب میں شریک تھے۔ یہ جوش و خروش اور بڑھ جاتا تھا جب عوامی دل چسپی کا کوئی موضوع یا شخصیت موجود ہوتی تھی۔
میں پہلے بھی کئی بار کانفرنسز کے اس سلسلے میں شریک ہوا ہوں لیکن اس بار جو خصوصیات اسے پچھلی کانفرنسز سے ممتاز کرتی تھیں وہ اس کا تنوع، زیادہ اور اہم شخصیات کی شمولیت اور بہتر انتظامات ہیں۔ کانفرنس سے بہت پہلے منتظمین کی بھاگ دوڑ ، کام، مشاورت اور رابطے شروع ہو جاتے ہیں، لیکن کانفرنس کے دنوں میں تو تمام مندوبین اور شرکاء نے برادرم احمد شاہ، ندیم ظفر اور دیگر میزبانوں کو مسلسل متحرک اور فعال دیکھا۔ معلوم نہیں وہ سوتے کب تھے اور آرام کے لیے کون سا وقت نکالتے تھے۔ اس ٹیم میں جو میزبان مہمانوں کی قیام گاہ اور آمد و رفت کے ذمے دار تھے، وہ نہایت مستعدی اور خندہ پیشانی سے تمام مہمانوں کی خدمت کرتے رہے اور کسی مرحلے پر ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی گئی۔
کانفرنس کے بیشتر سیشنز بہت بھرپور رہے۔ افتتاحی سیشن میں غیر معمولی ہجوم تھا۔ کلیدی خطبے بہت اہم اور عمدہ تھے؛ تاہم میرے خیال میں اس سیشن کی نظامت اتنی معیاری نہیں تھی۔ سندھ کے وزیر ثقافت سردار احمد شاہ صاحب کی گفتگو اور مشاعرے میں شاعری بہت مؤثر تھی۔ وہ خود صاحب نظر ہیں اور ان کی وزارت نے اس کانفرنس میں بھرپور تعاون بھی کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب مراد علی شاہ بک فیئر کے افتتاح کے بعد کانفرنس کے افتتاح کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کانفرنس کے موضوع کے ساتھ ساتھ وفاق کی طرف سے سندھ حکومت کو فنڈز جاری نہ کرنے کا ذکر کیا اور اپنی حکومت کی عمومی کارکردگی بھی بیان کی۔ شاید اس جگہ اس کی ضرورت نہیں تھی؛ چنانچہ انہیں کچھ سامعین کی طرف سے بعض چبھتے ہوئے سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بعد کے کچھ سیشنز‘ جو خالص فنی تحقیقی مباحث پر مشتمل تھے، میں بھی حاضرین کی دل چسپی اور تعداد متاثر کن تھی اور پیش کیے جانے والے مقالوں اور کی جانے والے گفتگو کا معیار بھی عمدہ تھا۔ ایک کالم میں سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں‘ لیکن خالص علمی ادبی موضوعات پر جناب شمیم حنفی، تحسین فراقی، افتخار عارف، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، رضا علی عابدی، امجد اسلام امجد اور دیگر اہل قلم کی گفتگو اور خیالات متاثر کن تھے۔ کشمیر کی اندوہناک صورت حال پر سیشن وقت کا تقاضا تھا اور اس کے ادراک پر منتظمین قابل مبارک ہیں۔ پنجابی ادب کے سیشن میں محمد حنیف کے تخلیقی اور شگفتہ جملوں سے ہال گونجتا رہا‘ جبکہ عاصمہ شیرازی نے بہت اچھی نظامت کی۔ علاقائی ثقافت اور مجموعی پاکستانی ثقافت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے سیشن میں بر صغیر سے باہر اردو کے نئے مراکز کے نمائندوں نے بہت اچھی گفتگو کی۔ یو کے، یورپی ممالک، امریکہ، آسٹریلیا میں اردو کی صورت حال پر معلومات افزا اظہارِ خیال کیا گیا۔
نامور شخصیات کے ساتھ علیحدہ نشستوں میں محترمہ کشور ناہید کے ساتھ مکالمہ عمدہ سیشن تھا۔ نعیم بخاری سامعین اور ناظرین کی توجہ کھینچ لینے اور پر لطف گفتگو کی شہرت رکھتے ہیں اور انہوں نے مزے کے واقعات سنائے؛ تاہم اکثر لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ نشست میں وہ جابجا اوور ہوتے رہے۔ منو بھائی کے ہکلانے کی نقل اتارنے کی ضرورت نہیں تھی اور احمد فراز صاحب کو ترکھان شاعر کہنا زیادتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ فراز صاحب کا عہد جدید کی شاعری میں اہم مقام ہے۔ جناب انور مقصود کو سننے بہت لوگ آئے تھے اور اسی لیے اس کا انتظام اوپن ایئر میں کیا گیا تھا۔ انور مقصود کے کریڈٹ پر بے شمار شگفتہ تحریریں اور بے مثال جملے ہیں‘ اس لیے انہیں کسی ایک محفل سے جانچنا غلط ہو گا؛ تاہم یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ان کی یہ تحریر جان دار نہیں تھی اور پوری تحریر میں شاید ہی کوئی جملہ یا کوئی بات محفل کے اختتام پر لوگوں کے ساتھ گئی ہو۔ عالمی مشاعرہ بھرپور تھا اور بہت عمدہ شعراء موجود تھے۔ حاضرین کی داد و تحسین بھی آخر تک اس تصویر میں رنگ بھرتی رہی۔ 40 سے زیادہ شعرا، شاعرات کا مشاعرہ ساڑھے تین چار گھنٹے میں مکمل کرنا مشکل کام تھا؛ تاہم تاثر یہ بھی تھا کہ ناظمین مشاعرہ کی طرف سے مہمان شعرا کی نسبت کراچی کے شعرا کو زیادہ وقت دیا گیا۔
ایک قدم آگے بڑھا کر آرٹس کونسل نے اس بار ساری زندگی علوم و فنون کے لیے وقف کر دینے والوں کے لیے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز کا بھی اعلان کیا جس کے ساتھ نقد رقم بھی شامل ہے۔ اس بار یہ ایوارڈز جناب اسد محمد خان، جناب افتخار عارف اور جناب امر جلیل کو دئیے گئے اور یہ نام یقینا میرٹ پر حق دار ہیں۔
میرے خیال میں برادرم احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے بہت سی کامیابیوں کے ساتھ، بہت سی مشکلات پر قابو پا لینے کے بعد ایک بڑا چیلنج پورا کیا ہے۔ میرٹ کا چیلنج۔ شعر و ادب، صوت و صدا، نغمہ و آہنگ ہر شعبے میں میرٹ کی پاس داری قائم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اور یہ مشکل اس وقت سوا ہو جاتی ہے جب سیاسی مصلحتیں بھی آڑے آتی ہوں اور چند کلماتِ خیر کی صورت میں اس کا صلہ ملنا بھی متوقع نہ ہو۔ لیکن جو مقام اور موقع انہیں ملا انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے میرٹ کی اس بلند عمارت کی بنیادیں اٹھا ئیں جو اینٹ پتھر سے نہیں بنا کرتیں مگر جو کسی ادارے کی اصل پہچان ہوتی ہیں۔ اس طرح کا ایک چیلنج میرے خیال میں یہ ہے کہ کسی بھی طرح کی گروہی، مسلکی، نظریاتی اور دائیں بائیں بازو کی تفریق کے بغیر خالصتاً علوم و فنون کے لیے کام کیا جائے۔ میلہ بھرا دیکھ کر بہت سے اور ہر قسم کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔ اور پکی پکائی دیگ پر چوکڑی مار کر بیٹھ جانا بھی کوئی ان ہونی نہیں ہے۔ یہ بد قسمتی ہو گی اگر احمد شاہ اور ساتھیوں کی تعمیر کردہ اس مثبت عمارت پر کوئی مخصوص نظریاتی، سیاسی یا گروہی چھاپ لگ جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ برادرم احمد شاہ اور ان کے ساتھی بہت دانش مندی سے اس سلسلے کو لے کر چلتے رہے ہیں اور ان سے یہی توقع ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ کراچی آرٹس کونسل کی تاریخ کو قبل از اور بعد از احمد شاہ کے ادوار میں تقسیم کر لینا چاہیے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ کراچی آرٹس کونسل نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر زبان، ہر ثقافت، ہر صوبے اور ہر قومیت کی ترجمان ہے۔ قطرے سے گہر ہونے تک کا یہ عمل سب نے دیکھا ہے۔ بہت کامیاب کانفرنس کی مبارک اپنی جگہ لیکن اصل مبارک کی بات یہ ہے کہ کراچی آرٹس کونسل اب آرٹس کونسل آف پاکستان ہے۔