تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-05-2013

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

انتخابات بارے ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوگیا: طاہر القادری ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ’’انتخابات بارے میرا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوگیا‘‘ ماسوائے اس کے کہ ہم دھرنے دیں گے اور انتخابات نہیں ہونے دیں گے چنانچہ اس 50فیصد کامیابی پر ہم اپنے آپ کو مبارکباد کا مستحق سمجھتے ہیں جو دھرنے دے کر ہمیں حاصل ہوئی ہے اور اگر اسی طرح ہر مسئلے پر ہمیں 50فیصد کامیابی حاصل ہوتی رہی تو رفتہ رفتہ 100فیصد کامیابی کی نوبت بھی آجائے گی کیونکہ قطرہ قطرہ اکٹھا ہو کر ہی دریا بنتا ہے۔ لہٰذا فی الحال ان قطروں کو ہی غنیمت سمجھنا چاہیے جیسا کہ اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی بارش کے قطروں سے کامیابی کا آغاز ہوا تھا اور میں چونکہ کنٹینر میں تھا اس لیے ان قطروں کا نظارہ نہ کرسکا اور کڑکڑاتی سردی سے مظاہرین ہی لطف اندوز ہوتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات سے قبل پاکستان عوامی تحریک نے عوام کو بھرپور رہنمائی دی اس لیے ہمارا ضمیر مطمئن ہے‘‘ اگرچہ اس رہنمائی کا الٹا ہی اثر ہوا اور میری تاکید کے باوجود لوگوں نے گھروں سے باہر نکل نکل کر ووٹ ڈالے لیکن اس میں بھی رہنمائی کا نہیں بلکہ بیوقوف عوام کا قصور ہے جو عقل کی کوئی بات سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہیں اس لیے آئندہ ہم اپنی ساری عقل اس طرح ضائع کرنے کی بجائے اپنے پاس ہی سنبھال کر رکھیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور سے اس کامیابی پر ایک بیان جاری کررہے تھے۔ ہر صوبے میں الگ الگ حکومت بننا خطرناک ہوگا: منظور وٹو پیپلزپارٹی کے رہنما جن کی رہنمائی سے پارٹی کا یہ حشر ہوا ہے‘ نے کہا ہے کہ ’’ہر صوبے میں الگ الگ حکومت بننا خطرناک ہوگا‘‘ اس لیے بہتر ہوتا کہ ہر صوبے میں ہمیں خدمت کا موقع دیا جائے تاکہ ہم اپنی بے مثال کارگزاری کا دوبارہ مظاہرہ کرسکتے کیونکہ اتنی بھاگ دوڑ کے باجود ابھی بہت سے کام کرنے سے رہ گئے تھے جن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام نے پارٹی نظریے کو ووٹ دیئے‘‘ جس کا بھرپور نظارہ وہ میرے علاوہ گیلانی خاندان اور دیگران کی کارگزاریوں کی صورت میں دیکھ چکے تھے اور ایک بار پھر دیکھنا چاہتے تھے اور ہم بھی اس کے لیے پوری طرح تیار تھے کیونکہ اس ضمن میں خاطر خواہ تجربہ بھی حاصل کر چکے تھے لیکن فلکِ کج رفتار کو ایسا منظور نہ تھا جس پر ہم اب تک حیران ہورہے ہیں کہ آخر ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا کیونکہ بگاڑنے کے لیے ہمارے لیے ایک کھلا میدان پہلے ہی موجود تھا۔ انہوں کہا کہ ’’عہدہ چھوڑا ہے‘ پارٹی نہیں‘‘ کیونکہ پارٹی میں اگر ذرا سی بھی عقل ہوئی تو وہ میرے جیسوں کو خود ہی چھوڑ دے گی اور جس کے آثار نظر بھی آرہے ہیں اور اب ہمارے جیسے دیگر مخلص اور بے لوث لوگوں کو موقع ملنا چاہیے جو کسی لالچ اور طمع کے بغیر محض توکل کی بنا پر زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ ہماری شکست کی ذمہ دار عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے: رضا ربانی پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ ’’ہماری شکست کی ذمہ دار عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے‘‘ حالانکہ اسے اتنا تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اس کے لیے ہماری پارٹی کے اوصاف حمیدہ ہی کافی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا‘‘ حالانکہ وہ تھا ہی اتنا برائے نام کہ اسے چرا کر کسی نے کیا کرنا تھا اور یہ گناہ بے لذت مفت میں چوری کا الزام اپنے سر لینے والی بات ہی تھی ورنہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سمیت پوری دنیا ہمارے کارہائے نمایاں سے اچھی طرح واقف تھی جس کا اندازہ مختلف وزرائے کرام کی بے پناہ مصروفیات ہی سے اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسلم لیگ ن کے پاس دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح پلان نہیں‘‘ اگرچہ ہمارے پاس ایسے کئی پلان موجود تھے لیکن دیگر مفید کاموں میں اس قدر مصروف ہونے کے باعث ان پر عمل نہیں کرسکے کیونکہ ایک وقت میں بہرحال ایک ہی کام ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے‘‘ کیونکہ بیٹھنے کے لیے سر دست کوئی اور مناسب جگہ نظر بھی نہیں آرہی۔ انہوںنے کہا کہ ’’تحفظات کے باوجود ہم نے نتائج تسلیم کیے‘‘ حالانکہ اگر تسلیم نہ بھی کرتے تو اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا لیکن ہماری اصول پسندی اور امانت داری کا تقاضا تھا کہ یہ نتائج طوعاً و کرہاً تسلیم کر لیے جائیں۔ آ پ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ پیپلز پارٹی کو انتظامیہ اور الیکشن کمشن نے مل کر ہرایا: لطیف کھوسہ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ’’پیپلزپارٹی کو انتظامیہ اور الیکشن کمشن نے مل کر ہرایا‘‘ حالانکہ وہ پہلے ہی ہاری ہوئی تھی اس لیے مچھر کو مارنے کے لیے توپ کی ضرورت نہیں تھی اور ہم اس فضول خرچی کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ ہم کفایت شعار لوگ ہیں اور اپنے پانچ سالہ دور میں اس کا ثبوت بھی فراہم کر چکے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں عبرت حاصل کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے، اس لیے ہم اس روایت پر عمل کرتے ہوئے حالیہ شرمناک شکست سے کوئی عبرت وغیرہ حاصل کرنے کا کوئی خاص ارادہ نہیں رکھتے۔ کیونکہ حاصل کرنے کے لیے اور بہت سی چیزیں تھیں جو ہم نے تگ و دو کرکے حاصل کرلیں۔ جلنے والوں کا منہ کالا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بدترین دھاندلی کی گئی‘‘ حالانکہ اگر دھاندلی نہ بھی کی جاتی تو نتیجہ یہی نکلنا تھا کیونکہ ہماری کارگزاری سے لوگ اس قدر خوش تھے کہ اس خوشی میں ہمیں ووٹ دینا ہی بھول گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نتائج بدلے گئے‘ پھر بھی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں‘‘ کیونکہ نتائج‘ نتائج ہی ہوتے ہیں وہ بدلے گئے ہوں یا نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ نہلے پہ دہلا مسلم نواز لیگ کی قیادت بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اس بات پر غور کررہی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے سندھ میں اویس مظفر ٹپیّ کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تو وہ ممتاز علی بھٹو کو گورنر مقرر کریں گے تاکہ موصوف کو من مانیوں سے باز رکھا جاسکے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن میں بیٹھنے اور پوری تاب و توانائی سے یہ کردار ادا کرنے کا فیصلہ اور اعلان کردیا ہے لیکن نواز لیگ بھی ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسی سلسلے میں ایک قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ نواز لیگ آئندہ صدر مملکت کے عہدے کے لیے ممتاز بھٹو کو نامزد کرے گی۔ ویسے بھی‘ صدر کا کسی دوسرے صوبے سے ہونا ضروری ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ پیپلزپارٹی کے نہلے پہ دہلا کے مترادف ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک ٹھوس اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اپنے احیا کی سعی کرے اور اس عبرت انگیز شکست کا داغ دھونے کی کوشش کرے اور پورے خلوص نیت سے پارٹی کے اندر بھی ایسی کارروائیاں کرے جو ضروری ہوں اور اپنی شکست کے اسباب کا معروضی تجزیہ کرکے اصلاحِ احوال کی طرف قدم بڑھائے ورنہ اس کی داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘ کہ مضبوط سیاسی پارٹیوں کے بغیر جمہوریت چل بھی نہیں سکتی۔ آج کا مطلع اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف تو دیکھیں گے ہم کیا تمہاری طرف

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved