تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     14-12-2019

طلبہ یونین بحالی‘دیر آید درست آید

ان دنوں کسی طلسماتی قوت نے ملک کے طول و ارض میں پھیلے نوجوان طلبہ کے دل و دماغ میں''سرفروشی کی تمنا‘‘پیدا کر کے انہیں اچانک اس قدر فعال بنا دیاہے کہ اب وہ'' بازوئے قاتل‘‘ کا زور آزمانے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ نوجوان نسل کے دل و دماغ میں کُلبلانے والے زندہ تغیرات کی حدت سماج پہ مسلط اس ذہنی جمود کو توڑ ڈالے گی‘جس سے نجات کی آرزوئیں دل میں بسائے فیض احمد فیض‘حبیب جالب‘احمد فراز اورغنی خان جیسے عبقری شعرا کے علاوہ اصغر خان اورمعراج محمد خان جیسے شورید سر رہنما اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
بظاہراس صحت مند تحریک کی شروعات حال ہی میں لاہور کے الحمرا ہال میں منعقد ہونے والے فیض امن میلہ کے موقعہ پر بائیں بازور کے چند طلبہ وطالبات نے بسمل عظیم آبادی کے مقبول شعرسے کی‘ تاہم سوشل میڈیا کی تیز لہروں نے راتوں رات انہیں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا کے زندگی کے مجموعی تصور کو درخشندہ بنا دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے چہار سُو طلبہ یونین بحالی کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی‘ بلکہ سندھ گورنمنٹ نے تو اس مطالبہ کو پذیرائی دے کر طلبہ یونین سے پابندی اُٹھا لی۔بلاشبہ ان لوگوں کو آغازِ شباب کے وہ سنہرے ایام یاد ہوں گے جو ساٹھ‘ستّراور اسی کی دہائی کے پہلے تین برسوں میں یونیورسٹیوں کے کیفے ٹیریا پہ بیٹھ کے سرمایہ داری نظام‘سوشل ازم اوراسلام کے تناظر میں اجتماعی زندگی کی حرکیات پہ بے تکان بحث کیا کرتے تھے۔لاریب ‘اُس وقت انہی رومانوی تصورات میں زندگی کی توانائیوں سے لبریز ان آشفتہ سر نوجوانوں کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی جن کی نوخیز جوانیاں کشمکشِ حیات میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کو بے قرار رہتی تھیں۔ہمارے عہدِ طالب علمی میں آخری بار 1982-83ء میںطلبہ یونین کے انتخابات کرائے گئے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے بظاہر مذہب اور کمیو نزم کے مابین جاری مبارزت کا میدانِ کارزار بنے ہوئے تھے۔سوشلسٹ نظریات سے مزین سیاست کی گونج ‘مزدوروں اور کسانوں کی طبقاتی جدلیات کی حدود سے نکل کر ان درس گاہوں تک آ پہنچی تھی جہاں کے نوعمر طلبہ ہر قسم کے طبقاتی‘مذہبی‘لسانی اور علاقائی تعصبات سے پاک ایسے پرسکون ماحول میں پروا ن چڑھ رہے تھے جہاںزندگی کی تفہیم عقلی تعلق سے کی جاتی تھی۔
سکولز‘کالجز اور یونیورسٹیز کے کلاس رومز میں امیرغریب‘پنجابی‘سندھی‘بلوچی‘پٹھان بلکہ ہندو اورمسلمان سب یکساں سطح پہ دیکھے جاتے تھے۔ان درسگاہوں میں برتری کا پیمانہ حسب نسب اور سرمایہ نہیں بلکہ علم اور صلاحیت کی تیز تر نمو ہوا کرتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری مذہبی و سیاسی اشرافیہ کی سہل انگاری نے اپنی سیاسی و نظریاتی جدوجہد کا وبال طلبہ تنظیموں کے سر منڈھ کر تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والے اس خوشگوار تمدن کو کرپٹ کر دیا جو سوسائٹی اور تعلیمی نظام کو ریگولیٹ کرنے کا فطری میکنزم تھا۔دوسری جانب آمریتیں بھی طلبہ کی فعالیت اور بڑھتے ہوئے سیاسی شعورکو اس جمود(status quo)کے لیے خطرہ تصور کرنے لگیں‘جو ان کے دوامِ اقتدار کی ضمانت بنا ہوا تھا؛ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے سیاسی پارٹیوںکی سرگرمیاں محدود کرنے کے بعد 1983ء میں طلبہ یونین پر بھی پابندی عائد کر کے ایک صحت مند معاشرتی سرگرمی اور اس علمی بہاؤ کی رو گردانی کرنے میں مفاد ڈھونڈ لیا‘ جو سماج کے ذہنی ارتقا کا ابتدائی محرک تھا۔
تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی جائز سیاسی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے والی سٹوڈنٹ یونینز پہ پابندی کے بعد طلبہ کا انحصار سیاسی جماعتوں پہ بڑھتا گیا۔مختلف مذہبی اورسیاسی جماعتوں کے زیر اثر کام کرنے والی طلبہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے زروِبازوکا سہارا لے لیا‘یہی وہ مرحلہ تھا جب نوجوان کے جذبات و خیالات کی گاڑی پٹری سے اُتر گئی۔پنجاب یونیورسٹی اسلامی جمعیت طلبہ کی قوت کا مظہر بن گئی‘پشاور یونیورسٹی میں پختون اورپیپلزسٹوڈنٹ فیڈریشن کے الائنس کو برتری حاصل رہی‘بلوچستان میں پختون اور بلوچ قوم پرستوں کے حامی طلبہ نے سرخ پھریرے لہرا دیئے اور کراچی یونیورسٹی‘جہاں پہلے جمعیت چھائی ہوئی تھی‘ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ فیڈریشن کے تصرف میں آ گئی ۔ یوں طلبہ کے اس رجحان سے‘ مرکز گریز جماعتوں کو توانائی ملنے لگی۔علیٰ ہذالقیاس‘دائیں اور بائیں بازو کی ان طلبہ تنظیموں کو اپنی بقا اور مالی وسائل کے حصول کی خاطر ناجائز ذرائع پہ انحصار اورتعلیمی اداروں میں بالادستی قائم کرنے کے لیے آتشیںاسلحے کے استعمال کا سہار لینا پڑا۔اسی جدلیات نے درسگاہوںمیں ذہنی آزادیوں کا دائرہ محدود اور فکری نمو کے لیے مجموعی فضا کو ناموافق بنا دیا۔اسی کی وجہ سے ایک طرف نوجوانوں میں تشدد کا رجحان بڑھا تو ودسری جانب مقدس درسگاہوںکا ماحول مالی بدعنوانی‘منشیات کے استعمال اور اخلاقی بے راہروی کے زہر سے آلودہ ہونے کے علاوہ تعلیم وتعلّم کے لیے درکار سازگار ماحول اور استاد وشاگرد کے باہمی احترام پہ مبنی تعلق سے بیگانہ ہوتا گیا۔یہ وہ قباحتیں تھیں جومحض تعلیمی اداروں تک محدود نہ رہیںبلکہ فارغ التحصیل طلبہ بھی انہی رویوں کو دل و دماغ میں سنبھالے ہمارے سماجی ماحول‘سیاسی نظام اورسرکاری دفاتر کا حصہ بنتے رہے۔یوں پچھلے چھتیس برسوں کے دوران انہی پراگندہ خیال نوجوانوں کی افسردہ نسل نے معاشرے کی عنان سنبھال کر اجتماعی حیات کے پورے نظام کوبگاڑ دیا۔
اگر عالمی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمارے اربابِ اختیار‘تاجروں‘کسانوں‘مزدوروں کی انجمنوں اورطلبہ یونینز کو معطل نہ کرتے تو آج ہمارے سماج کو زندگی کے ہرشعبے کو بہترین افرادی قوت اور ریاست کو باشعور شہری میسر آتے۔ہما رے فکری و سیاسی ارتقا کا عمل وقت اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا‘ لیکن افسوس کے ایک آزمودہ قانونی عمل کے ذریعے پیداواری عمل میں حصہ لینے والے کسانوں اور مزدوروں کے علاوہ ہمارے ریاستی نظام کو تازہ خون فراہم کرنے والے طلبہ کو بھی ذہنی پسماندگی‘خود غرضی اور نفرتوں کی دلدل میں دھکیل کر خسارے کا سودا کیا گیا‘جس کی تلافی تو ممکن نہیں‘ البتہ اب بھی اگر طلبہ یونین اور مزدور تنظیموں کو ریگولیٹ کر لیا جائے تو ان کی بدولت نہ صرف ریاست کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوگا بلکہ ہمیں معاشرتی اکائیوں کو مربوط رکھنے والے کردار بھی مل سکتے ہیں۔
اگر قانون کے مطابق طلبہ کوسیاسی مینڈیٹ میسر ہوتا تو ہمارا تعلیمی نظام یوں بانجھ نہ ہوتا‘ بلکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زرخیز ذہنوں کی افزائش کے ذریعے ایسا توازن قائم ہوتا جس میں اساتذہ طلبہ کے سچے خیرخواہ اور طلبہ بغیر کسی غرض اور جبر کے اُستادکے فرمانبردار ہوتے۔چیک اینڈ بیلنس کا یہ دوطرفہ نظام درسگاہوں کو مالی اور ذہنی بدعنوانی سے بچاتا۔ بہرحال ساڑھے تین دہائیوںکے تلخ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی سے بہتری نہیں آئی بلکہ تعلیمی نظام کا توازن بگڑ گیا‘جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو مالی بے قاعدگیوں اور اخلاقی زوال نے گھیر لیا۔احتساب کے اداروں نے یونیورسٹیوں میں مالی کرپشن کے الزامات کے تحت کئی وائس چانسلرز کو گرفتار کیا۔پشاور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے اساتذہ کی طرف سے جنسی ہراسانی کے خلاف مظاہرے کئے اوربلوچستان یونیورسٹی میں ٹیچرز کی طرف سے طالبات کو ہراساں کرنے کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنائی دینے لگی۔قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں منشیات فروشی بھی سٹوڈنٹ یونین پہ پابندی کے مضمرات کا شاخسانہ تھی۔اب تو سمسٹر سسٹم کے تحت پرچہ بنانے‘امتحان لینے اور مارکنگ کرنے کا پورا عمل ٹیچرز کے حوالے کرکے طلبہ کو استادکے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔افسوس‘ ہماری مصیبت زدہ نسل علم کی اس ارض مقدس کو تاریک بنا بیٹھی‘جہاں آدمیت پروان چڑھتی تھی‘حالانکہ تعلیم ہی انسانیت کی ذہنی‘اخلاقی‘سائنسی اور فنی میراث کو اگلی نسلوں تک پہنچانے وسیلہ بنتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved