تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2019

غنڈہ گردی

''دشمن بھی ہسپتال پہ حملہ نہیں کرتا ‘‘ یہ وہ فقرہ ہے ‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہ وکلا کے حملے اور مریضوں کی ہلاکتوں کے بعد جو زبان زدِ عام ہے۔ وکلا بار بار متشدد کیوں ہو جاتے ہیں ؟ پچھلے کئی سالوں میں درجنوں ایسے واقعات فیس بک پر اپ لوڈ ہو چکے ہیں ‘ جن میں وہ لوگوں کو بری طرح زدو کوب کرتے نظر آئے۔ یہ وڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں اورانہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وہ لوگوں کو ڈنڈوں سے مارتے ہیں‘ حتیٰ کہ شیشے کی بوتل مار کے سر پھاڑ دیتے ہیں ۔ خواتین وکلا اس معاملے میں ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ لوگ جو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اپنی تعلیم مکمل کر کے باہر نکلے‘ جو پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنتے ہیں ۔ جنہیں کسی بھی تنازعے میں پولیس سے لے کر عدالت تک کے سارے مراحل ازبر ہیں ‘وہ ذرا سے تنازعے پر وحشی کیوں ہو جاتے ہیں ؟ہتھیار کیوں اٹھا لیتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب پر آپ غور کریں تو زندگی کی بہت سی حقیقتیں آپ پہ کھلنا شروع ہو جائیں گی ۔ 
فرض کریں ‘آپ بازار میں کھڑے ہیں ۔ اچانک ایک شخص آتا ہے اور آپ کی کنپٹی پہ پستول رکھ کر موبائل چھین لیتاہے ۔ آپ نہ صرف یہ کہ اس سے ڈرتے نہیں بلکہ اچانک اس کا پستول والا ہاتھ پکڑ کر ہوا میں بلند کر دیتے ہیں ۔ آپ نہ صرف پستول چھین لیتے ہیں بلکہ اسے نیچے بھی گرا دیتے ہیں ۔ لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ آپ کوتحسین بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ تالیاں بجاتے ہیں ۔ واردات کی کوشش کرنے والے کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتاہے ۔ یہ وہ صورتِ حال ہے ‘جس میں آپ ایک ہیرو کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ آج کے بعد آپ ایک نارمل شخص نہیں رہے۔جب انسان دوسروں پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے ‘ اس کے دماغ میں ایسے کیمیکل ریلیزہوتے ہیں جو بہت لذت آمیز ہوتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر آپ کو اس بات کی عادت ہو جائے کہ محفل میں لوگ آپ کی بات پر قہقہہ لگائیں تو بھی آپ نارمل نہیں رہتے ۔ 
اب آپ جہاں بھی کوئی ہنگا مہ ہوتے دیکھیںگے‘ اس میں لامحالہ ہیرو بننے کی کوشش کریں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے ہنگامے میں ہیرو بننے پر جو کیمیکلز آپ کو لذت بخش کر گئے تھے‘ آپ کو دوبارہ ان کی طلب ہو رہی ہے ۔ جیسے ایک نشئی کو نشے کی طلب ہوتی ہے ۔ صرف اس شخص کو استثنیٰ حاصل ہے ‘ جسے ریاست ہنگامہ خیز صورتِ حال میں ہتھیار اٹھانے کا اختیا ر اور حکم دیتی ہے ۔ جو اپنی طاقت کو قانون کے دائرے میں استعمال کرتاہے اور اس کے اوپر احتساب کا ایک نظام کارفرما ہو ‘ جیسا کہ افواجِ پاکستان میں کارفرما ہے۔ اس کے علاوہ وہ شخص جو نفس کی باریکیوں کو سمجھتا ہے ‘ جوبہر صورت خدا تک پہنچنا چاہتا ہے ‘ وہ ضرورت پڑنے پر قوت و بہادری کے مظاہرے کے باوجود اپنے آپ کو اس لذت سے روک دیتاہے ۔ وہ اپنے دماغ کے اندر جنگ لڑتا ہے اور ان کیمیکلز کو ریلیز ہونے نہیں دیتا بلکہ ضرورت پڑے تو اپنی تحقیر کرتا ہے ۔ 
وکلا تحریک کے ہنگام جو لوگ ہیرو بن کے سامنے آئے تھے‘وہ نارمل نہیں رہے ۔ ہمیشہ وہ ہنگاموں کے متلاشی رہے۔ ہیرو بننے کے شوق سمیت ‘ کوئی بھی جبلت جب انسان کی نفسیات پہ غالب آجائے تو باقی سب چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں ۔ 
جس گروہ میں جذبات بھڑکانے والے غالب آجائیں ‘ وہاں عقل کی کوئی بھی بات بزدلی میں شمار ہوتی ہے ۔ آپ انڈین میڈیا اور انڈین سیاست میں یہ چیز بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے ۔ بہترین میزائل پروگرام رکھتا ہے ۔ جنگ سے گزری ہوئی وہ پیشہ ورانہ افواج رکھتا ہے ‘ جس نے اپنے سے چھ گنا بڑی طاقت کو سرحدوں پہ روکے رکھا۔ یہ فوج اس قدر پروفیشنل ہے کہ بھارت کے ہوتے ہوئے ‘مغربی سرحد پر دہشت گردی کے خلاف پوری جنگ لڑی گئی ۔ ملک میں خود کش حملوں پہ بھی قابو پالیا گیا۔ افغان اور بھارتی افواج کے برعکس پاک فوج میں کوئی بھگوڑا پیدا ہوا نہ کسی نے خودکشی کی۔ تاریخی طور پر مسلمان ہمیشہ بہتر جنگجو رہے ہیں‘ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے اقلیت ہونے کے باوجود برصغیر سمیت دنیا کے بہت سے ممالک پہ حکومت کی ۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ بھارتی میڈیا اور سیاست میں ان کا اظہار ناممکن ہے ۔ اوم پوری کے ساتھ وہاں جو کچھ کیا گیا‘ وہ ہمارے سامنے ہے ۔ ایک عام وکیل سے لے کر وکلا رہنما ئوں تک‘ اکثر لوگ اس ذہنی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں ‘ جہاں سمجھوتے اور عقل کی بات کرنے اور تہذیب یافتہ رویہ اپنانے والا شدید بزدل کہلاتا ہے ۔ 
وکلا ملک میں سب سے زیادہ منظم ہیں‘لیکن ڈاکٹرز میں بھی تنظیم پائی جاتی ہے۔انہوں نے وکلا کے سامنے submissiveہونے سے انکار کر دیا ۔ اسی کی سزا دینے وکلا حضرات پی آئی سی تشریف لائے تھے اور کئی جانوں کا نذرانہ لے کر گئے ۔ کئی جج حضرات خود وکلا سے خوفزدہ ہیں ۔ انہی وکلا میں سے ججوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہی میں جج حضرات کو واپس جانا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ججوں پر جسمانی حملے اور عدالتوں کی تالا بندی سمیت ہر قسم کی جارحیت وکلا میں نظر آتی ہے ۔ 
یہ بات بھی درست ہے کہ وکلا حضرات پولیس سے لے کر عدالت تک ‘ہر قسم کے تنازعے سے نمٹنے کے ماہر ہوتے ہیں ۔ یہ ان کا میدان ہے ‘ جس میں باہر سے آئے ہوئے کسی شخص کو وہ اسی طرح تنگ کر سکتے ہیں‘ جیسے ایک مگر مچھ پانی میں جو چاہے کر سکتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں بدمعاشی کا رجحان پیدا ہوا ۔ جہاں بھی بدمعاشی کی نفسیات پید اہوتی ہے ‘ وہ گروہ آہستہ آہستہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم اس کا ایک مظہر تھی ۔ آپ کو وہ بھی یاد ہوگا ‘ جو ایک طلبہ تنظیم والوں نے عمران خان کے ساتھ 15نومبر 2007ء کو کیا تھا۔ عباس اطہر مرحوم اور میرے والد ہارون الرشید سمیت جن لوگوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی مذمت کی‘ تنظیم والے ایک مافیا کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ 
تحریکِ انصاف میں گو جسمانی لڑائی اور ہتھیار استعمال کرنے کارجحان تو نہیں پایا جاتا لیکن انٹرنیٹ پہ رہتے ہوئے ایڈٹ شدہ تصاویر اور گالم گلوچ سمیت ہر قسم کا حربہ ایک معمول بن چکا ہے۔مخالف سے ملتی جلتی شکل والی خواتین کی کم کپڑوں میں تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل کر دی جاتی ہیں اور اس سیاستدان کو بے غیرت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ کئی گھٹیا کردار سامنے آئے ہیں ‘ جو مخالف خواتین کے گریبان کی گہرائی ناپتے پھرتے ہیں ۔ اگر میری بہن فوقیہ خان جیسے سلجھے ہوئے معتدل لوگ تحریکِ انصاف کی تنظیم پہ غالب نہ آئے تواندیشہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کا حال ایم کیو ایم والا نہ ہو جائے۔ 
جہاں تک وکلا کا تعلق ہے ‘ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تیزرفتاری سے وہ اُس تاریخی چھترول کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں ‘ ہر مافیا کو آخر کار لامحالہ جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔صورتِ حال اس قدر بگڑ چکی کہ اصلاح کی اب کوئی امید نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved