جمہوریت کی حفاظت کیلئے ہر حد تک جائیں گے: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائیں گے‘‘ جبکہ یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ چار پیسے بھی کمانے نہیں دیتی اور سیاستدانوں کو فاقہ کشی پر مجبور کر رہی ہے‘ میں پوچھتا ہوں کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے ملکی خزانے کا کیا تعلق ہے‘ کیونکہ یہ سب تو بالا بالا ہی ہو جاتا ہے‘ اور ملکی خزانے کو اس کی ہوا تک نہیں لگتی‘ اس لیے ہم اصلی جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے رکھیں گے‘ جب تک وہ مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتی اور ان معززین کو کھل کھیلنے کا موقعہ نہیں دیتی اور ہم جب برسر اقتدار آئے تو مخالفین کو جیل میں بند کر دیں گے‘ جنہیں کسی شریف آدمی کی عزت کا بھی خیال نہیں اور انتقامی کارروائیاں کرنے میں لگی ہوئے ہیں اور خون پسینے کی کمائی سے بنائے ہوئے اثاثوں کو ضبط کرتے پھرتے ہیں‘ جبکہ ان حالات میں جمہوریت کی حفاظت کرنا ہم پر فرض ہے اور ہم اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتے اور سارا کام فرض سمجھ کر ہی کرتے ہیں‘ جو ہماری حکومت سے برداشت ہی نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔
ایک ماہ انتظار کریں‘ ایک ماہ میں آئین اور
جمہوریت کے مطابق تبدیلی آئے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ایک ماہ انتظار کریں‘ ایک ماہ میں آئین اور جمہوریت کے مطابق تبدیلی آئے گی‘‘ کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک نیا اور پکّا وعدہ کر لیا ہے اور اگر وہ پورا نہ ہوا تو ان سے مزید ایک ماہ کا وعدہ لیں گے‘ کیونکہ وہ اس کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور میں نے اُن کا ٹوٹا ہوا سر خود دیکھا ہے اور اسے جڑوانے کا مشورہ بھی دیا ہے‘ جس کیلئے کم از کم چار سال کا عرصہ درکار ہوگا اور یوں ان کا وعدہ بھی پورا ہوگا؛ اگرچہ میں نے استعفے کا مطالبہ چھوڑ کر مہنگائی وغیرہ پر تقریریں کرنا شروع کر دی ہیں‘ تا کہ دونوں بڑی جماعتوں کو نظر آتا رہے کہ میں اس کام میں مصروف ہوں‘ جس کے لیے انہوں نے بھرپور مالی تعاون کیا تھا؛ چنانچہ اب‘ انہوں نے تھک ہار کر اس کا حساب مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے اور راضی برضا ہو کر رہ گئے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس ساری مشق میں مجھے وہ معتبری ہی بچے گی‘ جو اس دوران مجھے حاصل ہو گئی ہے اور چندے کا کچھ حصہ جو میں بچانے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہو گیا ہوں۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
انجام کچھ بھی ہو‘ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''انجام کچھ بھی ہو‘ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘ کیونکہ جب دونوں کا انجام ہی ایک جیسا ہونا ہے ‘تو ساتھ نہ چھوڑنے میں کیا ہرج ہے؟ اگرچہ اس ساتھ کا مجھے کوئی فائدہ پہنچنا ہے‘ نہ نواز شریف کو‘ جبکہ وعدہ معاف گواہوں نے میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور لگتا ہے کہ کچھ عرصے بعد میں یکجا ہونے کا موقعہ مل جائے گا‘ یعنی ع
خوب گزرے گی جو مل جائیں گے دیوانے دو
اور رفتہ رفتہ دیگر زعماء بھی باری باری ہم سے آ ملیں گے اور ماشاء اللہ اس قدر دیوانے جمع ہو جائیں گے کہ جیل ایک باقاعدہ لیگ کا منظر پیش کرنے لگے گی اور سب مل کر گایا کریں گے:؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل
آپ اگلے روز‘ روزنامہ ''دنیا‘‘ سے گفتگو کر رہے تھے۔
سبق سیکھ لیا ہے‘ اب آپ مجھے مختلف پائیں گے: فیاض الحسن چوہان
وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''سبق سیکھ لیا ہے‘ اب آپ مجھے مختلف پائیں گے‘‘ کیونکہ اتنا زد و کوب ہونے سے بھی اگر آپ سبق نہیں سیکھتے تو آپ کی ہمت کی داد دینی چاہیے‘ اور میں شاید سبق نہ بھی سیکھتا‘ لیکن کم بختوں نے جب میرے بال نوچے تو گویا میرے بھولے سبق بھی یاد آ گئے۔ غلطی میری اپنی ہی تھی کہ کوئی سکیورٹی گارڈز وغیرہ ساتھ لے کر نہیں گیا‘ تاہم‘ اگر ساتھ لے جاتا تو زد و کوب ہوئے بغیر یہ سبق کہاں سے سیکھتا ‘جو ایک ایسی چیز ہے کہ عمر بھر کام آتی ہے‘ اس لیے میں کابینہ کے دوسرے معزز ارکان سے بھی کہتا ہوں کہ جب کبھی موقعہ ملے‘ وہ ایسے کسی غضبناک ہجوم میں سکیورٹی گارڈز وغیرہ کے بغیر جائیں اور میری طرح سبق کی دولت سے مالا مال ہو کر آئیں ‘جس کا کوئی بدل نہیں‘ کیونکہ یہ سبق آپ کو کتابوں سے حاصل نہیں ہوگا اور دھلائی جس قدر زیادہ ہوگی‘ سبق کا رنگ اتنا ہی گہرا چڑھے گا؛ البتہ ہڈی پسلی تڑوانے سے حتی الامکان گریز کرنا ہوگا‘ جو کہ سبق کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف ہوگا اور سبق سیکھنے کا سارا مزہ کرکرا ہو کر رہ جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی ایک نظم پیش خدمت ہے:
پھینک دے تیشہ اپنا
کوہ کُن!/ پھینک یہ تیشہ اپنا/ سر کو ٹکرا کے بہت دیکھ لیا/ پتھروں سے/ کبھی آنسو نہیں ٹپکا کرتے/ اک جنوں سے/ کبھی نہریں نہیں نکلا کرتیں/ تیرے ہاتھوں میں سکت/ دل میں وہ وحشت نہ رہی/ بیٹھ چشمے کے کنارے پہ/ بہا دے آنسو/ بھر لے آنکھوں میں یہ سبزہ/ یہ مہکتا منظر/ آ--- ادھر لوٹ زمینوں کی طرف/ اپنی بستی کو پلٹ/ اپنے مکینوں کی طرف/ اپنے پھولوں کی طرف دیکھ/ انہیں ہاتھ لگا/ اٹھ کے بڑھ اپنوں کی جانب/ جو تری راہ میں تھے/ اور غیروں پہ نظر کر اپنی--- /یہ جو رونق ہے‘ لپکتی ہے/ لپٹتی ہے‘ ہر اک دامن سے/ کوئی دن‘ اس سے نمٹ/ اس کے اندر سے گزر/ خاک اوڑھے ہوئے/ ٹوٹے ہوئے خوابوں سے لدی آنکھوں سے/ اور---یک رنگ شب و روز میں ٹھہری دنیا/ جتنی بھی ادنیٰ ہے‘ معمولی ہے/ چھوڑ تکرار/ گوارہ کر لے/ جو بھی موجود ہے/ اب ‘اس کا نظارہ کر لے/ اپنی بے سُود محبت سے/ کنارہ کر لے---!
آج کا مطلع
یہ ترے راستوں سے گزرنا تو ہے
شعر کہنا تجھے یاد کرنا تو ہے