تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     16-12-2019

پاکستان اور روس کی قربت

پاکستان اور روس کی دوستی ‘ خطے میں نیا سورج ابھرنے والی بات قرار دی جارہی ہے ۔ دونوں ممالک دوستی کی طویل تاریخ نہیں رکھتے‘ لیکن چند برسوں سے دونوں ممالک مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔گزشتہ سال روس نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت پر عائد پابندی ختم کی تھی اور پاکستان نے روسی جنگی طیارے اور دوسرا سازو سامان خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔پاکستان اور روس کے مابین دوسری مشترکہ فوجی مشقیں 12 اکتوبر تک جاری رہیں۔ یکم اکتوبر کو شروع ہونے والی ان مشقوں سے دونوں ملکوںکے مابین فوجی تعاون کو توسیع ملی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ نے گزشتہ برس رشین فیڈریشن کا دورہ کیا اور پاک‘روس فوجی تعاون کی بنیاد رکھی تھی۔ ان فوجی مشقوں کیلئے 47 پاکستانی فوجی ماسکو گئے ۔ یہ مشقیں روس کے جنوبی علاقے میں واقع ٹریننگ رینج میں ہوئیں ‘جنہیں ''فرینڈشپ 2019ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حوالے سے 25جولائی کو رشین فیڈریشن کی وزارت ِدفاع کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایک رسمی بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں میں پہلی مشترکہ فوجی مشقیں 2016ء میں ہوئی تھیں۔گزشتہ برس رشین فیڈریشن کے دورہ کے دوران کریملن پیلس میں رشین ہم منصب سے کئی ملاقاتیں کیں اور فوجی تعاون بڑھانے پر مذاکرات ہوئے تھے۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا کہ پاک فوج کے جوانوں نے روس میں فوجی تربیت حاصل کی‘یعنی مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستانی فوج کے اہلکار روس کے عسکری اداروں میں تربیت حاصل کر سکیں گے۔ ماسکو اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی گرمجوشی ابھی ابتدائی نوعیت کی ہے اور چین اس خلیج کو پر کرنے کی کوششوں میں ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان توانائی اور دفاعی شعبوں میں تعاون کے روشن امکانات موجود ہیں ‘جو دونوں ملکوں کے دہائیوں سے مردہ تعلقات میں جان ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ تاریخی طور پر روس کا حلیف پاکستان کا ہمسایہ ملک اور روایتی حریف بھارت ‘ روس اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش کا شکار ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں روس اور انڈیا کے درمیان قریبی تعلقات کا اہم عنصر روس سے اپنے دفاعی شراکت دار کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت تھی۔دہلی میں قائم ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ افغانستان اور پاکستان کے امور کے ماہر ششانت سرین نے کہاتھا کہ اگر سیاسی سطح پر روس‘ پاکستان کی کھل کر حمایت کرنا شروع دیتا ہے تو اس سے انڈیا کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گی۔
روس سے تعاون کے دروازے کا کھلنا پاکستان کے لیے خطے میں سفارتی سطح پر نئی زندگی ملنے کے مترادف ہے۔ مغربی ممالک سے پاکستان کے سفارتی تعلقات پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔وسط ایشیائی ریاست کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میںرواں سال جون کے وسط میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے آنے والی خبروں اور خصوصاً تصاویر نے پاکستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیاتھا۔اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر ولادی میر پوٹن کے درمیان غیر رسمی ملاقات کو نا صرف پاکستانی میڈیا نے خوب کوریج دی‘ بلکہ عالمی سطح پر شہ سرخیوں میں رہی‘ اسے پاکستان اور روس کے درمیان فاصلوں کی کمی کی جانب اہم قدم قرار دیا جانے لگا تھا۔اس دوران یہ سوال بھی اٹھا کہ اسلام آباد اور ماسکو کے قریب آنے کے کتنے امکانات ہیں اور کیا حالیہ دنوں میں ایسا کچھ ہوا ہے یا نہیں؟ اور ایسا ہونے یا نہ ہونے کی کیا وجوہ ہیں؟
تاریخی طور پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھنے میں آئے۔ کبھی دونوں ملک اتنے قریب آئے کہ روس نے پاکستان کے صنعتی شہر کراچی میں سٹیل مل قائم کرنے میں بھر پور مالی اور تکنیکی مددفراہم کی‘ جبکہ دوسری طرف افغانستان جنگ کے دوران اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان دوریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں‘مگر اچانک نئی تبدیلی نے خطے میں نئی بحث چھیڑ کے رکھ دی ہے۔حالیہ دنوں میںپاکستان اور روس کے درمیان اسلام آباد میں منعقد ہونے والے معاشی‘ سائنسی اور تکنیکی تعاون سے متعلق اجلاس کے موقع پر مہمان وفد نے پاکستان سٹیل ملز کی بحالی میں تعاون کی جو پیشکش کی ہے‘ جوہمارے لئے اہم‘ پُرکشش اور خوش آئند ہو سکتی ہے۔ اس کی تعمیر میں سوویت یونین کا مالی‘ تکنیکی اور سائنسی تعاون کار فرما تھا اور منصوبے کی تکمیل پر مل کے سٹاف کو سوویت یونین ہی میں ٹریننگ دی گئی تھی‘ جس کی تعمیر کا کام 1973ء میں شروع ہوا اور 1985ء میں تکمیل کے بعد اس نے 1.1ملین ٹن سٹیل کی پیداوار دینا شروع کر دی تھی‘ لیکن سیاسی مداخلت سے یہ زیادہ دیر اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی۔
2006ء میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا‘ جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ نجکاری روک دی‘ لیکن اس دوران مل مسلسل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011ء میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنیوں کی لسٹ سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا اور 2012ء میں یوکرائن نے اس کی بحالی کی پیشکش کی ‘لیکن مسلسل عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پیداوار نہ ہونے سے حکومت سٹیل مصنوعات کی درآمد پر اب تک اربوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر چکی ہے؛ حالانکہ اس وقت ملک کو اس جیسی ایک نہیں کئی ملوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان سٹیل قومی اثاثہ ہے‘ جو 2008ء تک معیشت کو اربوں روپے کا منافع دیتی رہی‘ آج اسے فی گھنٹہ 30 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے اور ملازمین کو کئی کئی ماہ بعد سرکاری خزانے سے تنخواہیں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ 1777ایکڑ قیمتی اراضی پر قائم اس ادارے کو منافع بخش خطوط پر استوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے ۔حالیہ ملاقاتوں کے پیش نظر یہ امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے اس بڑے منصوبے کی دیکھ بھال سمیت روسی کمپنیاں کراچی سے لاہور تک گیس کی پائپ لائن بچھائیں گی ‘جبکہ دونوں ممالک دفاعی شعبے میں بھی تعاون بڑھائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved