تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     16-12-2019

سندھ تو یونہی رواں رہے گا!

تدریس خزاں کی مدت کیلئے گزشتہ ہفتے اختتام پذیر ہوئی تو جامعہ سے فوراً رخصت ہوا کہ چند دن خاموشی سے دریائے سندھ کے قریب اپنے آبائی علاقے میں گزارے جائیں۔ ساری دنیا میں تدریس کے شعبے میں روایت یہی ہے کہ چند ہفتوں کا وقفہ طلبہ اور اساتذہ کو ملتا ہے۔ تازہ دم ہو جائیں تو تب ہی لگن سے ریاضت ممکن ہو سکتی ہے۔ سنجیدگی‘ خلوص اور ذوق استاد کی زندگی کو مرتب‘ منظم کرتے اور بالیدگی بخشتے ہیں۔ ذہن اور جسم کو سکون نصیب نہ ہو تو کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور فطری حلاوت سے بھی انسان اپنے شعبے میں محروم رہ جاتا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں خزاں اور بہار کے سمیسٹرز کے درمیان کم از کم چھ ہفتے کی مہلت اساتذہ کو ملتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکاری جامعات اتنی منظم نہیں‘ اس لئے وہاں یہ وقفہ کم ہی رہتا ہے۔ خاکسار کی جامعہ کم از کم تین سال کا تدریسی پروگرام پہلے ہی طے کر لیتی ہے اور ابھی تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کلاسیں وقت پر نہ لگ سکیں۔ اس لئے اپنے‘ خاندان‘ دوستوں اور احباب کے لئے سال میں تین مرتبہ طویل اور مختصر دورانیے کا وقفہ میسر آ جاتا ہے۔ تعلیمی دنیا کا یہ ہمہ گیر اصول ہے۔ ہاں موسم گرما میں جو تین ماہ ملتے ہیں وہ گھر میں بیٹھ کر کرسیاں توڑنے کیلئے نہیں بلکہ تحقیق و تالیف کیلئے ہوتے ہیں؛ البتہ یہ تحقیق کی نوعیت پر منحصر ہے کہ کوئی دستاویزات پر سے آرکائیوز میں اتارتا ہے تو کوئی دنیا کے بڑے کتب خانوں یا پھر معاشرے کے اندر زیر مطالعہ گروہوں کے ساتھ رہ کر مشاہدہ کرتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علم کا تعلق نہ تو صرف کتابوں سے ہے‘ نہ ہی اعلیٰ جامعات سے سندیں حاصل کرنے سے‘ بلکہ علم کے سفر پر نکلنے والوں کیلئے سب کچھ سامنے ہوتا ہے جونہی وہ گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالتے ہیں۔
کتابی علم سے بندے کا بہت پرانا رشتہ ہے‘ اس کے باوجود تجربہ یہ ہے کہ اگر سماج کی حقیقتوں سے اس کا تعلق نہ رہے تو ایسا علم ذہن اور روح میں جگہ نہیں بنا پاتا ہے‘ یہ بے اثر رہتا اور حقیقتاً عمل کے سانچے میں بھی نہیں ڈھل پاتا۔ ہر علم کا معروضی حوالہ ہوتا ہے‘ جس کے بغیر وہ علمیت کے اعلیٰ درجے سے محروم رہتا ہے۔ جدید علوم ہوں یا قدیمی‘ کم از کم سماجی علوم کے شعبوں میں مکانی حوالہ جات یا تاریخی دستاویزات کا سہارا نہ ملے تو علم‘ علم نہیں رہتا بلکہ ایک عام رائے بن جاتا ہے۔ تدریس میں وقفوں کا مقصد جہاں خود کو کچھ آرام کی سہولت فراہم کرنا ہے‘ وہاں دوبارہ سماج میں وقت گزار کر زمینی شواہد اور حوالے جمع کرنابھی ہے۔ اس عمل کو علمی اور فکری تازگی کیلئے انتہائی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں اپنی جگہ درست ہیں‘ مگر آبائی علاقے کی محبت اور روایتی لگائو شہر کی روشنیوں اور مادی چمک نے مدہم نہیں کیا۔ دریائے سندھ کی لہروں کی فطری روانی‘ اتار چڑھائو اور خاموشی‘ جو کبھی اندھی ڈولفن مچھلی کے فضا میں بلند ہونے اور پھر پانی کی سطح پر گرنے سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے ٹوٹتی ہے‘ سرشاری والی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ خاکسار ہی نہیں‘ کئی اور دوست بھی دور دراز کے علاقوں سے‘ سندھ کی روانی اور رعنائی سے مدتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ پہاڑ‘ دریا‘ صحرا‘ کھیت‘ موسموں کا تغیر اور آثار کہنہ والی تہذیبیں ملک کے ہر کونے میں دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کو بہت ہیں۔ کوئی بدذوق ہی خلیج کی ریاستوں کے برجوں کی زیارت اور بیکار اشیا کی خریدوفروخت کی ہوس میں وقت اور پیسہ برباد کر سکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس موسم میں ان ریاستوں کے حکمران شہزادے‘ سندھ کے مشرقی اور مغربی صحرائوں میں خیمہ زن ہو کر ہر سال وقت گزارتے ہیں۔ عربوں میں اگرچہ اپنے قریب پڑے فطرت کے خزانوں کی وہ اہمیت نہیں رہی‘ جو ان کے آبائو اجداد میں تھی۔ کیسے انہوں نے بیدردی سے اپنے خوبصورت صحرائوں کو جدید شہروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے صحرا اور دریا شہروں کی آلودہ زندگی سے ابھی تک پاک ہیں۔
دریائے سندھ ایک نہیں کئی قدیمی تہذیبوں کا امانت دار ہے۔ اس کی موجوں کی روانی میں تہذیبوں کے دھاروں کے قصے پنہاں ہیں۔ اس خاکسار کی شعور کی آنکھ کھلی تو خود کو دریا کے کنارے پایا۔ بھاگر کا سرکاری سکول‘ جہاں پہلی جماعت میں داخلہ لیا تھا‘ موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے کر چند دنوں میں نہیں بلکہ چند ساعتوں میں میری آنکھوں کے سامنے اپنے اندر سمو لیا تھا بلکہ یہ چھوٹا سا گائوں سارے کا سارا۔ سکول کو جن دو درختوں کے سائے میں منتقل کیا گیا وہ زیادہ دور نہ تھے۔ اگلے چند ہفتوں میں اس جگہ کا بھی نام و نشان نہ رہا۔ چند ماہ میں دوسری مرتبہ سکول موجودہ جگہ پر قائم ہوا۔ سکول کیا تھا‘ دو اساتذہ‘ چالیس کے قریب طالبعلم‘ ایک درخت کا سایہ اور زمین پر بیٹھنے کیلئے پٹ سن کے چند ٹاٹ۔ خاک نشینی میں سیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ کیا اساتذہ تھے۔ محبت‘ شفقت اور فرض شناسی کا پیکر۔گرمیوں میں‘ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے دریا بپھر جاتا تو قریب بھی نہ پھٹکتے تھے۔ سردیوں میں پانی اترتا تو اس میں کود پڑتے اور جہاں کہیں تالاب بصورت پانی جمع ہوتا‘ کپڑوں کا جال بنا کر مچھلیاں بھی پکڑتے۔ بہت وقت گزر گیا۔ میرے بچپن کے دوست نہ رہے‘ تلاش کرتاہوں مگر وہ کہیں نہیں‘ بس یادیں ہیں۔ سندھ کے پانیوں سے خاکسار کو پہلی محبت نصیب ہوئی۔ آج تک قائم ہے اور آخری سانسوں تک رہے گی۔ بہت سے ملکوں میں شوق آوارگی پورا کرنے گیا۔ امریکہ میں مختلف اوقات میں دس سال پانچ مختلف جامعات میں رہا مگر سندھ کی روانی اور اس کی یادیں دامن پکڑ کر واپس لے آتی رہیں۔ دنیا میں یہ جگہ اپنے طور پر فطرت کی عکاس اور دلکش ہے۔ موازنہ کبھی کیا اور نہ کرنیکی ضرورت ہے۔ راز یہ ہے کہ دل کوکیا بھاتا ہے‘ روح کہاں تروتازہ ہوتی ہے۔ آنکھیں کیا دیکھ کر سکون پاتی ہیں اور اطمینان کی ٹھنڈی ہوا کہاں نصیب ہوتی ہے۔ اکثرسب کچھ ہمارے اردگرد ہی ہوتاہے‘ مگر توجہ‘ وقت اور زندگی کی بیکار دوڑ میں بٹ جائے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
دریائے سندھ کو شمالی علاقوں میں کریم آباد کی بلندیوں سے بھی دیکھا۔ یکسر مختلف نظر آیا۔ وہاں اسے سندھا نالہ کہتے ہیں۔ تنگ گھاٹیوں اور کھلے میدانوں سے گزرتا‘ گرتا پڑتا جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے میدانوں میں پھیل جاتا ہے۔ گرمیوں میں اس کے کنارے نظر نہیں آتے۔ ہر طرف پانی سیلاب کی صورت وسیع و عریض علاقوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ دیگر دریا بھی یہاں کہیں اس میں ضم ہوتے ہیں۔ پھر یہ دریا نہیں رہتا‘ خشکی اور ویرانوں کے درمیان میں گدلے پانی کا سمندر بن جاتا ہے۔ کیا قدرت کا کھیل ہے کہ لداخ‘ کشمیر‘ گلگت اور بلتستان کے پہاڑوں کی مٹی پنجاب اور سندھ کے میدانوں کو ہزارہا سال سے تازگی اور زرخیزگی عنایت کر رہی ہے۔ اب ہر جگہ دونوں جانب بند باندھے جا چکے ہیں۔ زرخیزی اب بھی وسیع علاقوں تک پھیلتی ہے‘ تہہ در تہہ۔ چند گھنٹے موٹر سائیکل پر سوار اور زیادہ تر پیدل گندم کے کئی میلوں تک پھیلے سرسبز کھیتوں کے درمیان دریا کے کنارے چلنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آج کل تو روس کی جانب سے موسمی ہجرت کرنے والے پرندوں نے علاقے کے حسن میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ سائبیریا سے کونجیں‘ مگ‘ مرغابیاں‘ کئی اور طرح کے پرندے‘ جن کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں‘ بادلوں کی چھوٹی ٹکڑیوں کی مانند فضا میں اچانک نمودار ہوتے اور اڑتے اڑتے کہیں دور چلے جاتے ہیں۔
کئی دہائیاں پہلے تواتر سے دریا کو ان راستوں سے گزر کر کشتی کے ذریعے پار کرتا رہا ہوں۔ دریا کے کناروں پر زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ کھیتی باڑی‘ بودوباش اور فصلوں کے انتخاب میں البتہ خاصا فرق آ گیا ہے۔ یہ سب علاقے کبھی ویران جنگل ہوا کرتے تھے۔ اب کاشتکار کی محنت اور مشقت سے ہرے بھرے کھیتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ صرف گندم نہیں کپاس‘ گنا اور دالیں بھی اگائی جاتی ہیں۔ سوائے اس خاکسار اور گڈریوں کے کوئی پیدل نظر نہیں آتا۔ سب موٹر سائیکلوں پر سوار‘ گرد اڑاتے کچی سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر ہر سمت رواں نظر آتے ہیں۔ آبادی کا دبائو اور ذرائع سفر میں تبدیلی‘ دونوں صاف نظر آتے ہیں۔ بارہا دیکھا کہ ایک ہاتھ میں موٹر سائیکل کی مہار اور دوسرا ہاتھ فون اور کان پر۔ وہی بے احتیاطی‘ جو شہروں کی سڑکوں پر نظر آتی ہے‘ وہاں بھی ہو رہی ہے۔ ہر قسم کی خرابیاں شہروں سے نکل کر دیہات کی سمت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اگر ہم نے دریائوں اور ان کے ارد گرد کے علاقوں کے ماحول کو پاکیزہ اور صاف نہ رکھا تو خدشہ ہے کہ ہزاروں سال سے قائم فطری حسن برقرار نہ رہ سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved