بوڑھے مریض کو اندازہ ہو گیا کہ اب اس کے صحت یاب ہونے کا امکان نہیں اور آخری وقت آ پہنچا ہے۔ وہ پیرانہ سالی میں گھر کے چین و آرام سے ہزاروں میل دور اس پُر مشقت سفر پر صرف ایک سبب سے آیا تھا۔ اس کے ساتھی، اس کے دوست، اس کے نبی اور یثرب میں اس کے عزیز ترین مہمان نے کہا تھا کہ ''تم ضرور ایک دن قسطنطنیہ فتح کرو گے۔ پس کیا اچھا امیر ہو گا اس لشکر کا امیر بھی اور کیا لشکر ہو گا یہ لشکر بھی‘‘۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جب اس جہاد میں شرکت کی تو وہ اچھی طرح اس کے نشیب و فراز سے واقف تھے‘ لیکن اس لشکر میں حصہ لینے کی سعادت ان کے لیے ہر خطرے اور ہر فکر سے بالاتر تھی۔ قسطنطنیہ کی فتح تو اس وقت مقدر میں نہیں تھی‘ لیکن لشکریوں کو اس فضیلت سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ محاصرہ لمبا ہوا اور حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آ گیا۔ انہوں نے امیرِ لشکر کو بلایا اور وصیت کی کہ مجھے دشمن کے علاقے میں قسطنطنیہ کی فصیل کے جتنے قریب لے جانا ممکن ہو، لے جانا اور وہیں دفن کر دینا۔ یہ وصیت بھی تھی اور میزبانِ رسول کا حکم بھی۔ سو تعمیل ہوئی اور زمین کے اس ٹکڑے کو ہمیشہ کے لیے ایک جلیل القدر صحابی کو اپنی آغوش میں سمانے کی فضیلت مل گئی۔
اکتوبر 2010 میں جب میری پہلی بار حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری ہوئی تو برستی آنکھوں نے دو شعر صاحبِ قبر کے حضور پیش کر دئیے:
اب ایسے شہر کی کیا کوئی مدح خوانی کرے
جو میزبانِ پیمبر (ﷺ) کی میزبانی کرے
میں دھاڑیں مار کے ہنستا پھروں سرِ بازار
یہ اشک اگر مری خوشیوں کی ترجمانی کرے
قسطنطنیہ کے فتح کی یہ بشارت سلطان محمد فاتح اور ان کے لشکر کے ذریعے 29 مئی 1453ء کو پوری ہوئی۔ قسطنطنیہ اب استنبول ہے اور اس کے یورپی ساحل کا ایک محلہ ''فاتح‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی علاقے میں سلطان محمد فاتح کی مسجد بھی ہے اور مزار بھی۔ ترک روایت کے مطابق صاحبِ مزار کے سرہانے کی طرف ایک بڑی سنگی دستار بنائی گئی ہے جو اس کے مرتبے اور مقام کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ دستارِ فضیلت خاص لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ اب تا قیامت یہ اعزاز اور یہ لقب فاتح سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ میں اس سنگی دستار کے سرہانے کھڑا فاتح کو ایصال ثواب کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کوئی بڑی سے بڑی دستارِ فضیلت بھی اس قابل صد رشک مرتبے کو بیان نہیں کر سکتی جو سلطان محمد فاتح کے حصے میں آچکا ہے۔
آدمی استنبول آئے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضر نہ ہو، کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک جمعہ کی دوپہر بارہ بجے کے لگ بھگ میں مزار کے باہر پہنچ گیا۔ میری توقع سے کافی زیادہ ہجوم تھا اور مرد‘ عورتیں اور بچے سب آئے ہوئے تھے۔ کچھ بچے باقاعدہ نیلے اور سفید روایتی ترکی فوجی لباس میں ملبوس تھے اور ان کے پہلو میں چمکدار روپہلی تلواریں تھیں۔ معلوم ہوا کہ بہت سے گھرانے بچے کی تعلیم یا کسی خاص مرحلے کا آغاز اس مزار پر حاضری سے کرتے ہیں۔ یہ روایت ترکوں میں چلی آتی ہے۔ اس سے پہلے مجھے یہ تو معلوم تھا کہ نیا سلطان سب سے پہلے مزار حضرت ابو ایوب انصاریؓ پر حاضری دینا باعث سعادت سمجھتا اور یہ روایت تسلسل سے جاری تھی۔ اس ملک میں سلطان ایوبؓ سب سلطانوں سے بڑے سلطان ہیں۔
میں باوضو اس حجرے میں داخل ہوا جہاں میزبانِ رسول کی خواب گاہ تھی۔ ہجوم کے باوجود مزار کے چاروں طرف پھر کر اسے دیکھنے اور دعائیں کرنے کا موقعہ مل گیا۔ جن مردوں‘ عورتوں کو اندرونی حجرے میں داخلے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا وہ بیرونی جالیوں ہی سے اندر جھانک رہے تھے۔ ان کے چہروں پر عقیدت جھلک رہی تھی اور وہ ترکی لہجے میں دعائیں پڑھ رہے تھے۔ یہ محبت والہانہ تھی اور کیوں نہ ہوتی‘ وہ ''سلطان ایوپ‘‘ کے دربار میں آئے ہوئے تھے‘ جو ترکی کے بڑے سے بڑے سلطان سے بھی بڑے تھے۔
مزار کے ساتھ مسجد میں جس طرح گھس کر اور ایک ڈیڑھ مربع فٹ میں کسی طرح بیٹھ کر میں نے نماز جمعہ پڑھی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ ہجوم تھا کہ سیڑھیوں پر بھی مصلے بچھا کر بیٹھا تھا۔ پتہ چلا کہ ہر جمعہ کے دن یہاں اسی طرح لوگ پہنچتے ہیں۔ کھدائی کے کام والی لکڑی کے بہت اونچے اور روایتی ترکی منبر پر امام نے خطبہ دیا‘ جو اس کے ترک لہجے کے باوجود کافی حد تک سمجھ آرہا تھا۔ مزار اور مسجد کے احاطوں سے باہر نکلے تو لوگ ایک جگہ جمع تھے۔ کچھ ہی دیر میں روایتی ینی چری (نئی فوج) کی وردیاں پہنے تنومند ترک نقارے، بگل اور ڈرم بجاتے آپہنچے۔ یہ روایت بھی شاید پرانی چلی آتی ہے کہ ترک فوجی دستہ جمعہ کے دن یہاں پریڈ کرتا اور شاید صاحب مزار کو سلامی پیش کرتا ہے۔
استنبول کی تھوڈیسس کی بنائی ہوئی دُہری فصیل اور سڑک کے درمیان بہت سے انجیر کے درخت ہیں۔ ایک خوانچے والا یہ موٹی رسیلی انجیر بیچ رہا تھا۔ ایک انجیر کھائی تو طبیعت ہری ہوگئی۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ شہد جیسی تھی کیونکہ شہد میں مٹھاس تو ہوتی ہے لذیذ ذائقہ نہیں جبکہ یہ انجیر مٹھاس اور ذائقے دونوں میں کمال تھی۔
میں استنبول میں ترک دوستوں سے مل رہا تھا۔ طیب اردوان کے حامیوں کی طرح اس کے مخالفوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ مخالف بھی ایسے ویسے نہیں، کٹر رائے رکھنے اور اردوان کے نام پر آنکھوں سے شعلے برسانے والے۔ لیکن یہ ظاہر تھا کہ زمانے کا مدوجزر، ترکی میں خلافت کا خاتمہ، ماضی سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش، زبان اور رسم الخط کی تبدیلی، فوج کا سیاسی کردار، رہنماؤں کا قتل اور بے توقیری، سیکولر شناخت پر اصرار، یہ سب مل کر بھی ایک عام ترک کے دل سے وہ محبت نہیں کھرچ سکے جو اسے اپنے مذہب اور اپنے ماضی سے تھی۔ وہ ''سلطان ایوپ‘‘ کہتے ہوئے آج بھی محبت سے بھر جاتا ہے۔ ترکمانِ سخت کوش خاک و خوں میں مل کر بھی اپنے سرمائے پر نازاں رہا۔ اس نے سزائیں بھگتیں لیکن وہ اپنی جزا کسی اور سے ہی مانگتا رہا۔ اس کی استقامت اور عزیمت ناقابلِ تسخیر ہی رہی۔
مغرب اپنی پوری اور بے پناہ طاقت کے ساتھ طیب اردوان کی مخالفت میں کھڑا ہے۔ یورپی یونین میں ترکی کو شامل نہیںکیا گیا حالانکہ ترکی یورپ کا جغرافیائی حصہ ہے۔ ترکی دنیا میں دو قومی نظریے کی ایک روشن مثال ہے‘ جسے الگ محض اسی لیے رکھا گیا کہ یورپی اقوام سمجھتی ہیں کہ ترکی ان کے مذہب، ثقافت اور تمدن سے الگ ایک قوم ہے۔ یہ دو قومی نظریہ ترکی میں مسلمانوں نے نہیں یورپی یونین نے پیش کیا ہے۔ یورپ کے دہانے پر ایک مسلمان ملک، وہ بھی خوددار اور با حمیت۔ معاشی، انتظامی اور عسکری لحاظ سے مستحکم ملک جو آئینی تبدیلیوں سے بھی گزرنے والا ہے۔ یہ کیسے برداشت ہو سکے گا؛ چنانچہ ترکی کے اطراف میں قیامت برپا کر دی گئی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ طیب اردوان کی سوچ اور عمل کو برداشت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ترکی کے اندر اس وقت بھی ان لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور طاقتور ہے جو اردوان کی حکومت نہیں بلکہ اس کے نظریے سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ لوگ پھر استعمال ہو سکتے ہیں اور ایک خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہر مسلم ملک میں یہی نسخہ آزمایا گیا ہے اور کامیاب رہا ہے۔ ترکی پہلی بار اس مجرب نسخے کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن وقت کے سٹیج پر ہو گا کیا‘ یہ وقت ہی بتائے گا۔
میں غلاطہ برج کے قریب کھڑا ترک دوستوں کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ قسطنطنیہ کی تھیوڈوسین فصیل کی دہری تہری سنگی دیواریں، فصیل کے قریب ''سلطان ایوپ‘‘ کا مزار، فصیل کے باہر بڑی بڑی رسیلی انجیر کے باغات، شاخِ زریں کا بہتا پانی، باسفورس کا پُل اور دور بحیرۂ مرمرا میں پرنسس آئی لینڈز کے سرسبز جزائر، سب اس سٹیج کے مناظر ہیں۔ سیٹ تیار ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ اب کون سا منظر نمودار ہونے کو ہے۔ کن کرداروں کے کیا کردار نظر آنے کو ہیں۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا