ہمارے ہاں بعض مذہبی لوگ اکثر بڑے خشک مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔ جہاں ہنسنا ہووہاں مسکرا کر گزارا کرنا ان کی عادت بن جاتی ہے۔ اور اگر ہنسیں بھی تو پتہ نہیں کیوں خوش دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اگر اپنے دوستوں میں بیٹھا ہوتو بالکل الگ تھلگ دکھائی دے گا۔ میں نے یہ کوئی کلیہ بیان نہیں کیا۔ لیکن یہ میرا زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ مذہبی گھرانوں میں تربیت پانے والے افراد عموماً اندرونی طورپر کسی تنہائی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ برسوں پہلے میرے ساتھ دسویں جماعت میں ایک لڑکا پڑھتا تھا جس نے سکول میں داخلہ لینے سے پہلے قرآن پاک حفظ کیا ہوا تھا۔ رمضان شریف کے مہینے میں اس لڑکے کا باپ اس کو تراویح کی نماز پڑھانے پر مجبور کرتا تھا مگر وہ لڑکا باپ کی بات نہیں مانتا تھا۔ اس کے بعد اس کا باپ اس کو زبردستی اس مولوی کے پاس لے جاتا تھا جس نے اس کو قرآن حفظ کروایا تھا۔ دونوں کے زور دینے پر وہ آخر راضی ہوجاتا تھا۔ میں نے اس لڑکے سے اس بات کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا کہ میری دلی خواہش ہے کہ کوئی مجھے مجبور نہ کرے کہ میں تراویح پڑھائوں بلکہ جب رمضان المبارک آئے تو میں خود اپنی مرضی سے جاکر مولوی صاحب سے کہوں کہ میں تیار ہوں مگر اس کی نوبت نہیں آتی اور مجھے ایسے سمجھ لیا جاتا ہے جیسے میں کوئی مشین ہوں اور میرے ابا جی کے پاس اس مشین کا بٹن ہے۔ یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔ اس کے جواب میں میرے منہ سے ایسے ہی نکل گیا کہ اور کون کون سی بات اچھی نہیں لگتی! وہ بولنے لگا‘ ایسے جیسے پہلے سے بھرا بیٹھا ہو۔ اور یہ بات اچھی نہیں لگتی ، ابا جی ہروقت مجھ پر وعظ کرتے رہتے ہیں۔ ہم بہن بھائیوں کو زور سے ہنسنے تک نہیں دیتے۔ میٹرک کا امتحان ہوا۔ ہم دونوں الگ الگ کالجوں میں داخل ہوئے۔ پھر برسوں ملاقات نہ ہوسکی۔ جب ملاقات ہوئی تو میرے یہ دوست ایک اسپتال میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے طورپر ملازم تھے۔ سفید شلوار قمیض پہنے سیاہ لمبی داڑھی تھی ۔ مجھے اپنے گھر لے گئے جہاں ان کے چھ سات برس کے بیٹے سے ملاقات ہوئی۔ اس کے پاس جدید قسم کے کھلونے تھے۔ انگلش میڈیم میں سیکنڈ گریڈ میں پڑھ رہا تھا۔ باپ کے فرمائش کرنے پر اس بچے نے مجھے انگریزی کی نظمیں بھی سنائیں ۔ میرا اپنے اس دوست سے مسلسل رابطہ رہا۔ سال میں ایک دومرتبہ ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔ چند برس پہلے میں عید پر اپنے اس دوست کے گھر میں مدعو تھا کہ مجھے اس کے بیٹے کے ساتھ جواب جوان ہوچکا تھا کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ میرے دوست کو ایمرجنسی میں اسپتال جانا پڑا تھا۔ اس کے بیٹے سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ وہ ماڈرن حلیے کے باوجود مذہب میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کو قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے زبانی یاد ہے۔ بات چیت میں ایسی سمجھداری سے وہ مناسب آیت کا ترجمہ پیش کرتا تھا کہ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اس سے گھنٹوں باتیں کرتا رہوں۔ جب میرا دوست واپس آیا تو میں نے جی بھر کر اس کے بیٹے کی تعریف کی اور اس کی ایسی اچھی تربیت کرنے پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ میرا دوست کہنے لگا ۔ میں نے بس وہ کچھ نہیں کیا جو ابا جی میرے ساتھ کرتے تھے۔ نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ مجھے قرآن حفظ ہے مگر بعض اوقات آیات کا مطلب مجھے سمجھا رہا ہوتا ہے۔ یہ ویڈیو گیمز بھی کھیلتا ہے ۔ کمپیوٹر پر ویب سائٹ بھی بنالیتا ہے۔ اس کو پائلٹ بننے کا شوق ہے مگر اس کی ماں اس کو اجازت نہیں دیتی۔ میری اجازت کے بغیر اس نے کئی کام کیے ہیں مگر ماں کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ یہ سن کر وہ نوجوان کچھ شرما سا گیا۔ کہنے لگا انکل (Mother has three time more rights on children than father)یعنی ماں کے اولاد پر باپ کی نسبت تین گنا زیاہ حقوق ہیں ۔ پھر باپ کی طرف دیکھ کر مسکرایا ، اس کا باپ ہلکا سا ہنس دیا جبکہ بیٹے نے باپ کا ساتھ دیتے ہوئے زور سے قہقہہ لگایا۔ جب خاموشی ہوئی تو میرے دوست نے کہا جس طرح یہ کھل کر ہنسا ہے کاش میں بھی ہنس سکتا۔ مگر میری بچپن کی تربیت اس سے بہت مختلف انداز میں ہوئی ہے۔ اس صورتحال پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ 1980ء کے عشرے میں جب میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں واشنگٹن ڈی سی ملازم تھا تو وہاں جنوبی ایشیا ڈیسک کا نیوزایڈیٹر میرا ایک ہندو دوست روی کھنا (Ravi Khanna) ہوتا تھا۔ روی کھنا اگرچہ ہندومذہب سے تعلق رکھتا تھا مگر پتہ نہیں کیوں اس نے داڑھی بالکل ویسی رکھی ہوئی تھی جیسی ہمارے ہاں مولوی لوگ رکھتے ہیں۔ روی کھنا کی پیدائش لاہور کی تھی اور تقسیم ہند کے وقت اس کا خاندان بھارت چلا گیا تھا۔ اس کو لاہور دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک سرکاری دورے پر اس کو لاہور آنے کا موقع ملا تو لاہور کے ہوائی اڈے سے باہر وہ اپنے مقامی میزبان کے ہمراہ جب نکلا تو کوئی ایسی بات ہوئی کہ روی کھنا اپنی عادت کے مطابق زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس کو ہنستا دیکھ کر ایک لاہوریا اس کے سامنے رکا اور اس سے مخاطب ہوکر بولا ’’لے بھئی مزہ آگیا۔ اج پہلا مولوی ویکھیا اے جیہڑا خوش اے‘‘ یعنی زندگی میں اس نے پہلا مولوی دیکھا ہے جو خوش دکھائی دیا ہے۔ لاہور میں بغیر تعارف کے ایسی بات کہہ دینا یہاں کے لوگوں کی عادت سمجھی جاتی ہے بشرطیکہ بات سچی معلوم ہوتی ہو۔ میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ سب مذہبی گھرانے ایسے نہیں ہوتے مگر آپ اپنے اردگرد نگاہ ڈال کردیکھیں تو مذہبی تربیت کے ساتھ ایک خشک سا اور ضرورت سے زیادہ محتاط مزاج اکثر آپ کو دکھائی دے گا۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتوں کو اکثر حیرت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اتنی ایماندار قیادت موجود ہے اور دین کی سیدھی راہ پر وہ چلتے ہیں مگر پاکستان میں لوگ ان کو ووٹ بہت کم دیتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی وجہ یہی ہے کہ عام لوگ، مذہبی جماعتوں کے قائدین کو اپنے سے مختلف باور کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ مذہب سے دوری پسند نہیں کرتے۔ حال ہی میں ہونے والا ایک بین الاقوامی موقر سروے اس کی شہادت دیتا ہے کہ یہاں لوگ اپنے آپ کو مذہب کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان نے سیاست میں کافی رنگ جمایا ہے۔ عمران خان صاحب ایمان ہیں۔ اپنے ماضی سے تائب ہیں۔ دیکھیں کس طرح بڑے بڑے ماڈرن لوگ ان کے پیچھے ہیں۔ پاکستان میں اگلے انتخابات میں وہ اکثریت حاصل کرلیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی لیکن ہمارے ہاں کی کوئی مذہبی جماعت ایسا سوچ بھی نہیں سکتی کہ پاکستان کی اکثریت اس کی حمایت میں آجائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں سمیت عام لوگ عمران خان کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی دیانت میں یقین رکھتے ہیں جبکہ پاکستانی لوگ کئی مذہبی رہنمائوں کی دیانت پر یقین رکھنے کے باوجود ان کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے ۔ لہٰذا ان کو ووٹ نہیں دیتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved