جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاستدانوں کو قربانی دینا پڑتی ہے: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاستدانوں کو قربانی دینا پڑتی ہے‘‘ کیونکہ اگر جمہوریت کے بل بوتے پر سیاستدان ارب پتی بن چکے ہیں تو انہیں اس جمہوریت کیلئے قربانی بھی دینی چاہیے اور یہ قربانی بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی‘ یعنی جتنا مال بنایا ہو اس کا کچھ حصہ اگر واپس بھی کرنا پڑے تو کیا مضائقہ ہے کہ آپ ہر صورت فائدے میں ہی رہتے ہیں؛ بشرطیکہ کوئی وعدہ معاف گواہ نمک حرامی پر نہ اتر آئے۔آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ہسپتال میں چیک اپ کے بعد میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے۔
تحریک کے سائیڈ ایفیکٹس ہوئے ہیں‘ بڑے فائدے
سے پہلے چھوٹے آنا شروع ہو گئے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تحریک کے سائیڈ ایفیکٹس ہوئے ہیں‘ بڑے فائدے سے پہلے چھوٹے آنا شروع ہو گئے‘‘ اور ان میں وکلا ء کے ہاتھوں ایک وزیر کی پٹائی سرفہرست ہے اور امید ہے کہ دیگر وزراء کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا اور اب‘ جبکہ پوری اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق ہو گئی ہے‘ تو حکومت کو چاہیے کہ خاموشی سے گھر چلی جائے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ آپ اگلے روز رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
اشفاق احمد ورک نے اپنے کالم میں یہ شعر اس طرح درج کیا ہے؎
قبضہ دلا دیا مجھے میرے مکان کا
میرے جو ہیں وکیل وہ عدیم النظیر ہیں
اس کے دوسرے مصرعے میں لفظ ''وہ‘‘ زائد ہے ‘جس سے مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے۔
نوادراتِ فیضؔ
یہ کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپی ہے‘ جبکہ کم و بیش 500 صفحات پر مشتمل یہ نسخہ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی تلاش‘ ترتیب و حواشی کا مرہون ِمنت ہے اور جو فیض احمد فیض ؔکے غیر مطبوعہ‘ غیر مدّون خطوط‘ شعری باقیات‘ دیباچے‘ فلیپ اور کم یاب نگارشات و تصاویر پر مشتمل ہے۔ فی الحقیقت یہ بڑی محنت کا کام تھا ‘جس کیلئے سلیچ صاحب واقعتاً داد کے مستحق ہیں۔ دیباچہ ہمدم دیرینہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے نام ہے۔فیض ؔکے غیر مطبوعہ کلام ‘یعنی باقیات میں سے کچھ اشعار:
بھلا کیا پوچھتے ہو فیضؔ اس دریا کے ساحل کی
جہاں قسمت ڈبو دے بس وہی اس کا کنارہ ہے
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اُس سے کیا شرحِ حالات کریں
دل ٹھہرے تو درد سنائیں‘ درد تھمے تو بات کریں
شام ہوئی پھر جوشِ قدح نے بزمِ حریفاں روشن کی
گھر کو آگ لگائیں ہم بھی‘ روشن اپنی رات کریں
ہجر میں شب بھر درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے
صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں
معتقدین فیضؔ کیلئے یہ کتاب ایک انمول تحفے سے کم نہیں۔
اور‘ اب عامر ؔسہیل کے دو نظمیے:
دھڑکنا مجھ میں
چراغ ہو تو بھڑکنا مجھ میں
بھڑکنا مجھ میں
...............
پری نہ ہونا
تم ایک سے دوسری نہ ہونا
پری نہ ہونا
...............
سُنو سلونی
یہ کیا بنائی ہے شکل رونی
سُنو سلونی
...............
دعا پرو دوں
کہو تو گُت میں حیا پرو دوں
دعا پرو دوں
...............
تو کیا خیانت
اگر بدن ہے تری امانت
تو کیا خیانت
...............
کہاں کی تم ہو
وہاں کی رُت کو سلام میرا
جہاں کی تم ہو
...............
طلسم توڑو
کہیں پہ اپنا نشاں تو چھوڑو
طلسم توڑو
...............
خدا ہے عامرؔ
میری محبت کو کیا ہے عامرؔ
خدا ہے عامرؔ
...............
لگے گی بولی
جہاں بھی پھولوں نے آنکھ کھولی
لگے گی بولی
...............
میں ٹُوٹ جائوں
اگر محبت سے روٹھ جائوں
میں ٹوٹ جائوں
آج کا مطلع
خبر نہیں ابھی اتنی‘ کہاں سے ہٹ کر ہے
مری زمین ترے آسماں سے ہٹ کر ہے