تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     17-12-2019

مگر قانون آپ سے بالا تر ہے…

سپریم کورٹ نے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری ‘ مدت ِملازمت اور توسیع کے بارے میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے البتہ ایک اضافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :آپ خواہ کتنے ہی بڑے ہیں ‘مگر قانون آپ سے بالاترہے‘ اس لیے آرمی چیف جیسے اہم عہدے کے بارے تمام نوعیت کی قانون سازی ہونا ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے صفحہ 40 پر پیراگراف نمبر چھ میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ آرمی ریگولیشنز رولز کا ریگولیشن 255 اپنی اوریجنل یا ترمیمی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہرگز نہیں دیتا کہ وہ کسی جنرل کو ایک اور پورے دور ِ ملازمت کی توسیع دے۔یہ ریگولیشن صرف غیر معمولی صورت میں مفادِ عامہ کی خاطر صرف عارضی طور پر مختصر مدت بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر فیصلے میں درج وجوہات اور ہدایات کی روشنی میں پارلیمنٹ نے قانون سازی نہ کی تو جنرل قمر جاوید باجوہ چھ ماہ بعد ازخود ریٹائر تصور ہوں گے۔صفحہ 42 کے پیراگراف 52 میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورِ منصب کا تعین ان کی بطور جنرل ترقی کی تاریخ 29 نومبر 2016 ء سے تصور ہوگا۔جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر پارلیمنٹ آرمی چیف کی مدت منصب چار سال مقرر کرتی ہے تو بھی اس صورت میں جنرل باجوہ محض ایک اور سال اپنے عہدے پر برقرار رہ سکیں گے۔اور اس بات کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ پارلیمنٹ آرمی چیف کا دورِ منصب چھ سال مقرر کرے ‘ کیونکہ جنرل باجوہ کو صرف اس صورت میں تین سال کادو ر مل سکتا ہے‘ اگر پارلیمنٹ خاص طور پر ان کے لیے قانون سازی کرے‘ کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ واضح کردیا ہے کہ روایات کی بنیاد پر امورِ مملکت نہیں چلائے جاسکتے۔اس لیے جنرل جیسے عہدے اور آرمی چیف کے تقرری و توسیع اوردورِ منصب سمیت تمام امور واضح ہونے چاہئیں اور اس بارے میں قانون سازی آئینی تقاضا ہے؛البتہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت سادہ اکثریت کی بنیاد پر ہوگی یا پھر دوتہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کے ذریعے ؟ یہ بحث ابھی باقی ہے‘ کیونکہ اگر آئین کے آرٹیکل دو سو تینتالیس میں ترمیم مقصود ہوئی تو پھر آئینی ترمیم کرنا پڑے گی۔سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کے لیے ' ابھی عشق کے اور بہت سے امتحانات ہیں ‘ جنہیں پاس کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں جو آئینی اور قانونی سقم پائے جاتے ہیں ‘ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میںان کا مفصل احاطہ کیا ہے اور اس مقدمے کی ہونے والی تمام سماعتوں کا حال بھی تفصیل سے بیان کردیا ہے۔
اس سے پہلے ماضی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے تین سال کی توسیع دی تھی اس پر کوئی زیادہ بحث مباحثہ نہیں ہوا تھا۔ جب جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تو میں نے پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اورمحترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے قابل اعتماد شخص سے پوچھا کہ اس توسیع کا راز کیا ہے؟ کیونکہ پیپلزپارٹی کی تو اس بارے میں پالیسی بڑی واضح تھی‘تو مذکورہ رہنما نے کہا کہ اگر اس توسیع کا راز فاش ہوگیا تو ایک طوفان کھڑا ہوجائے گا اور ہنگامہ بپا ہوگا ۔سو‘ اس راز کو راز ہی رہنے دیں۔
آرمی چیف کی توسیع کا دوسرا واقعہ بڑا تاریخی ہے۔ماضی بعید کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کے میاں نواز شریف سے تعلقات بڑے آئیڈیل ہوگئے تھے اور خاص طور پر وحید کاکڑ فارمولا بڑا مشہور ہے ‘جب صدر اسحاق خان سے نواز شریف الجھے اور امورِ مملکت چلانا ناممکن ہوگئے تو نوازشریف پر دباؤ بڑھتا گیا ۔گو کہ سپریم کورٹ نوازشریف حکومت بحال کرچکی تھی‘ لیکن معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے تھے ‘تب نواز شریف نے شرط عائد کی کہ صدراسحاق خان‘ اگر ایوان ِصدر چھوڑ دیں‘ تو وہ بھی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے۔اس وقت جنرل وحید کاکڑ میدان میں اُترے اور ثالثی کا کردار ادا کیا اور وزیراعظم نواز شریف اور صدر اسحاق خان کو گھر جانا پڑا۔وزیراعظم نواز شریف نے اس وقت جنرل وحید کاکڑ کو ایک دور کے لیے مزید توسیع دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔جنرل وحید کاکڑ نے اس پیشکش کو فوری قبول کرنے کی بجائے سوچنے کے لیے وقت مانگا اور پھر صلاح مشورہ شروع کردیا۔محترم مجید نظامی مرحوم‘ جن کی مقتدر حلقے بہت عزت اور قدر کرتے تھے اور اہم قومی امور پر ان سے مشاورت بھی کی جاتی تھی ‘ کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع بھی ملا اور اپنے سسر مصطفی صادق مرحوم کی وجہ سے مجید نظامی صاحب کْچھ زیادہ پیاربھی کرتے تھے اور ان سے خاص گپ شپ بھی رہتی تھی۔محترم مجید نظامی صاحب نے اسلام آباد دفتر میں ایک روز بتایا کہ ایک روز جی ایچ کیو راولپنڈی سے فون آیا کہ آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ سے ملاقات کے لیے آپ کب آسکتے ہیں؟میں نے جواباً کہا کہ جنرل صاحب کی سہولت کے مطابق‘ کسی دن بھی آسکتا ہوں‘ جس پر ملاقات کا دن اور وقت طے ہوگیا۔ملاقات کے لیے جنرل صاحب کی رہائشگاہ پر پہنچا‘ چائے کھانے سے تواضح کی گئی اور پھر جنرل صاحب نے بتایا کہ آپ سے ملاقات کا مقصد آپ سے ایک اہم مشورہ کرنا اور آپ کی رائے لینا مقصود ہے۔جنرل وحید کاکڑ نے بتایا کہ وزیراعظم انہیں توسیع دینا چاہتے ہیں‘ آپ بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نظامی صاحب نے بتایا کہ میں سوچ میں پڑ گیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے‘ کیونکہ میں ذاتی طور پر اس توسیع کے خلاف تھا‘ لیکن پھر سوچنے لگا کہ نامعلوم جنرل صاحب توسیع لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور مجھ سے بس رسماً ہاں کروانا چاہتے ہوں۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ اس دوران جنرل صاحب کی اہلیہ کمرے میں داخل ہوئیں تو جنرل صاحب نے اپنی اہلیہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ البتہ یہ میری توسیع کے خلاف ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے جنرل صاحب سے فورا ًکہا کہ آپ کی اہلیہ بڑی عاقل اورسمجھدار ہیں‘ ان کی رائے پر غور ضرور کریں۔جنرل وحید کاکڑ نے اور کس کس سے مشورہ کیا اور کس نے کیا رائے دی ؟اس بارے مجھے تو علم نہیں‘ لیکن جنرل وحید کاکڑ نے توسیع کی پیشکش قبول نہیں کی اور وہ ریٹائر ہوگئے۔اس سے قبل یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس بارے میں کوئی قانون ہے یا موجود نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعداگر حکومت قانون سازی سے بچنا چاہتی ہے تو پھر حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ نظرثانی کی اپیل دائر کرے‘ لیکن نظر ثانی میں سکوپ بہت کم ہوتا ہے اور اسی بنچ کے سامنے معاملہ دوبارہ جائے گا‘ جبکہ آتھر جج بھی جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے؛البتہ حکومت کارکردگی بنچ بنانے کی استدعا بھی کرسکتی ہے‘ جس کی قبولیت کا انحصار آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد صاحب پر ہوگا۔دوسرا راستہ قانون سازی کا جس کی منظوری کے لیے اپوزیشن کے ووٹ اور ان کا تعاون درکار ہوگا‘اور اس تعاون کے بدلے اپوزیشن کی جھولی میں کیا کیا اور کتنا کتنا ڈالنا پڑے گا؟ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔صورتحال گمبھیر ہی نہیں ‘بہت زیادہ گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔کون کس کو بچا پائے گا اور بچانے والا خود بھی بچ پائے گا یا نہیں‘ اس بارے کْچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved