تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     17-12-2019

وزیر اعظم کے بھانجے سے ’’خادمِ پنجاب ‘‘کے داماد تک

وہ جو خاطر غزنوی نے کہاتھا :؎
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
گزشتہ چھ دن سے میڈیا میں (حفیظ اللہ نیازی کا صاحبزادہ ہونے کے ناطے )ہمارے بھتیجے حسان نیازی کے افسانے ہیں۔11دسمبر کے سانحہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (PIC) کاایک ایک منظر سی سی ٹی وی ‘ موبائل فونز اور میڈیا کے کیمروں نے محفوظ کرلیا تھا۔''احتجاجی مظاہرین‘‘ کے نمایاں چہروں میں نوجوان بیرسٹر حسان نیازی کا چہرہ بھی تھا جو ٹی وی سکرینوں پرسرخ دائر ے کے ساتھ نمایاں تر ہوگیا تھا۔ محترمہ فردو س عاشق اعوان کوان میں مسلم لیگ (ن)کے گلوبٹ نظر آرہے تھے‘ تو فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ ان میں وہ بھی ہیں ‘ جوعدالت میں پیشی پر ''بیگم صفدر اعوان‘‘ اور حمزہ شہبازکے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں۔
حکمران جماعت نے ایک سنگین المیہ کو پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کاذریعہ بنانے کی کوشش کی‘ تو مسلم لیگ(ن) نے جواباً ''وزیر اعظم کے بھانجے‘‘ حسان نیازی کو ہدف بنالیا۔ ٹاک شوز میں بھی یہ ہاٹ ایشو بن گیا تھا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے ابتدا میں حسان کے اس ٹویٹ کا سہارا لینے کی کوشش کی جس میں اس کا کہنا تھا کہ وہ پرُ امن احتجاج کی حد تک اس میں شریک تھا‘ اس کے علاوہ جو کچھ ہوا‘ وہ اس پر ندامت کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کررہاتھا۔پھر ایسی فوٹیج بھی آ گئیں جن میں حسان‘ نذرِ آتش کی جانے والی پولیس وین کا دروازہ کھول رہاتھا۔ اب سرکاری مؤقف یہ تھا کہ حسان وزیر اعظم کا بھانجا بعد میں اور حفیظ اللہ نیازی کا بیٹا پہلے ہے(جو ٹاک شو ز میں عمران خان پر تنقید کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے)یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سیاسی نقطۂ نظر کے لحاظ سے حسان ‘ اپنے والد کی بجائے ماموں کے قریب تر ہے۔
ہفتہ (14دسمبر)کو حسان نیازی دن بھراکثروبیشتر چینلز کی ہیڈ لائن بنا رہا۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گردی سمیت مختلف الزامات کے تحت مقدمے کے اندراج کے ساتھ اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے تھے۔ اگلے دن ہیڈ لائنز میں ''زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟‘‘کا اضافہ تھا...سوموار کی سہ پہرتک ‘جب یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں‘ حسان گرفتار نہیں ہواتھا۔ جس وقت پی آئی سی کا سانحہ ہوا‘ حفیظ اللہ نیازی عمرے کے لیے دیارِ حرمین میں تھے۔ ہفتے کے روز اِن سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اتوار کی شب لوٹ آئیں گے۔ سوموار کی دوپہر تک ان کا فون بند ملتا رہا توانعام اللہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا: فلائٹ مس ہونے کے باعث حفیظ اللہ کی واپسی میں تاخیر ہوگئی۔ حسان کو شاید اپنے والد کی واپسی کا انتظار ہے۔اسے پیش تو ہونا ہی ہے‘ آخر کب تک روپوش رہے گا؟
حسان نیازی کا نام (وقوعہ کے چوتھے روز)پولیس کی ایف آئی آر میں شامل کئے جانے پر‘ فواد چودھری نے جہاں وزیر اعظم کے بھانجے کے خلاف اندراجِ مقدمہ اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کو عمران خان کے ''نئے پاکستان‘‘میں ایک روشن مثال قرار دیا‘ وہاں انہوں نے ''خادم پنجاب‘‘ کے دور میں (ان کے داماد)علی عمران کے ہاتھوں ''ایک بیکری کی تباہی‘‘ کا ذکر بھی ضروری سمجھا۔ اس پر ہمیں‘ وہ سارا واقعہ یاد آگیا۔ کہا جاتا ہے‘ آج کے اخبارات کل کے مورخ کے لیے''سیکنڈسورس‘‘ کا کام دیں گے۔ تو کیوں نہ حقیقت ِ واقعہ کا بیان ہوجائے؟ 
اُس روز اتوار تھا‘ شہبازصاحب کی صاحبزادی رابعہ کے بیٹے کے سکول میں کوئی تقریب تھی ‘ جس میں والدین بھی مدعو تھے۔علی عمران اپنے کام کے لیے کراچی گیا ہوا تھا؛چنانچہ رابعہ کو بیٹے کے سکول کا فنگشن اٹینڈ کرنا تھا۔اسے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا؛ چنانچہ راستے میں کیک خریدنے کے لیے بیکری پر رک گئی۔ سیلز مین کے ساتھ کسی بات پر تلخی ہوئی تو گارڈ نے سیلز مین کی پٹائی کردی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ واقعہ میڈیا کی بریکنگ نیوز بن گیا۔ اس میں علی عمران کا نام بھی آرہاتھا۔ شہباز صاحب نے فوراً اس سے رابطہ کیا اور پہلی دستیاب فلائٹ سے کراچی سے لاہور واپس آنے اور گرفتاری دینے کے لیے کہا۔علی عمران رات کو لاہور پہنچاتو ایئر پورٹ پر پولیس اس کی گرفتاری کے لیے موجود تھی۔ وہ رات اس نے حوالات میں گزاری اور اگلے روز تمام چینلز پر اس کی ہتھکڑی کے ساتھ عدالت میں پیشی کے مناظر تھے (بعض چینلز نے گزشتہ روز کی فوٹیج دوبارہ چلائی)خادم پنجاب کے لیے یہ فیصلہ آسان نہ تھا‘ عمران ان کا داماد ہی نہیں‘ ان کی اکلوتی(اورچہیتی) بہن کا بیٹا بھی تھا۔
علی عمران کا ذکر چھڑا ‘ تو ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔میاںصاحب کے دوسرے دورِ حکومت (1997-99ء)میں بجلی اور گیس کی چوری اور بلوں کی نادہندگی کے خلاف بھرپور مہم اور ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ گیس اور بجلی کے بڑے صارفین (ظاہر ہے‘ان میں زیادہ تر صنعت کار اور کارخانہ دار تھے)اس مہم کا خصوصی ہدف تھے۔ محکمے نے فہرستیں تیار کیں اور کارروائی سے پہلے‘ انہیں وزیر اعظم کی خدمت میں پیش کیا‘ انہوں نے یہ سوچ کر ایک نظر ڈالے بغیر انہیں واپس کردیا کہ ان میں بعض قریبی احباب کا نام بھی ہوسکتاہے۔ نادہندگان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کا آغاز ہوا‘ تو وزیر اعظم کے انتہائی قریبی عزیز بھی زد میں آگئے... سیاسی رفقا میں چودھری برادران بھی تھے‘ جن کی ٹیکسٹائل ملزگیس کی نادہندگی میں پکڑی گئی...بیگم عابدہ حسین‘ وزیر اعظم نوازشریف کے قریبی حلقے میں شمار ہوتی تھیں۔ 1990ء کا الیکشن ہار گئیں‘ تو وزیر اعظم نے انہیں واشنگٹن جیسے اہم ترین دارالحکومت میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیا۔ وہ1993ء میں میاں صاحب کی حکومت کے خاتمے تک اس اہم ترین منصب پر فائز رہیں۔
میاں صاحب کی دوسری حکومت میں ‘ وہ ان کی کابینہ کی اہم رکن تھیں۔ بجلی چوری کے خلاف مہم میں‘ ان کے اصطبل میں بجلی کے میٹرز میں گڑ بڑ پائی گئی تو وزیر اعظم نے ان سے استعفے طلب کرنے میں تاخیر نہ کی۔ یہی ''کارروائی‘‘ لاہور میں میاںمعراج الدین جیسے بزرگ سیاستدان کے ساتھ بھی ہوئی۔ میاں معراج الدین لاہور میں ارائیں برادری کے سرخیل تھے۔ وہ ایوب خاں دور میں پارلیمانی سیکرٹری بھی رہے۔ 1997-99ء میں وہ شہباز صاحب کی پنجاب کابینہ کے اہم رکن تھے اور ان کے احترام کا یہ عالم کے وزیر اعظم نوازشریف کی اتوارکو لاہور میں ہونے والی کھلی کچہری میں وہ تشریف لاتے‘ تو وزیر اعظم کارروائی روک کر‘ ان کا خیر مقدم کرتے اورانہیں اپنی ساتھ والی نشست پر بٹھاتے۔ ان کے گڑھی شاہووالے سینما میں بجلی کے میٹرز میں گڑ بڑ کی خبر آئی ‘تو ان سے استعفیٰ طلب کرنے میں بھی تاخیر نہ کی گئی؛ حالانکہ یہ سینما انہوں نے ٹھیکے پر دیا ہواتھا‘ اور بلوں سمیت ‘ مختلف ادائیگیاں ٹھیکیدار کی ذمہ داری تھی۔
میاںمعراج الدین ایک وضعدار اور وسیع الظرف شخصیت تھے۔ انہوں نے اس صدمے کو دل سے نہ لگایا۔ بیگم عابدہ حسین کا معاملہ مختلف تھا‘ یہ ایک جاگیردارنی کی انا کا مسئلہ تھا۔ وہ حساب چکانے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہیں۔ 12اکتوبر کے بعد یہ مناسب موقع آگیا تھا ‘ وہ معزول وزیر اعظم کے خلاف مسلم لیگ کے ''ہم خیال گروپ‘‘ میں پیش پیش تھیں۔ 
ایک بہت پرانی بات... نوازشریف کی دوسری وزارت اعلیٰ (1988-90ء) میں ‘ لاہور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا فیصلہ ہوا۔ تب میاں محمد اظہر‘ لاہور کے لارڈ میئر تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ کیوں نہ اس مہم کا آغاز بیڈن روڈ سے ہو‘ جہاں وزیر اعلیٰ کے ماموں جناب عبدالحمید بٹ (مرحوم) کی دکان بھی تھی۔ بیڈن روڈ کی دوسری دکانوں کی طرف اس کے ''تھڑے‘‘ بھی تجاوزات میں آتے تھے(یہ تقسیم سے پہلے سے چلے آرہے تھے) شہر میں تجاوزات کے خاتمے کا آغاز ‘ وزیر اعلیٰ کے ماموں کی دکان سے ہوا تو لوگ خود ہی اپنی اپنی تجاوزات گرانے لگے۔ 
حسان نیازی سے شروع ہونے والی بات‘کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کبھی کبھی احساس ہی نہیں ہوتا کہ قلم کی آوارہ خرامی کدھر سے کدھر نکل گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved