پاکستان کی اونچی اور بلند ترین عمارات کے نیچے اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی آخری منزلوں کا نظارہ کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس عمارت اور ٹاور کی بلندیوں کو حیران ہو کر دیکھتے ہوئے ان کی تعریفیں ضرور کیجئے‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھئے کہ ان کی بنیادوں سے لے کر ان کی آخری چوٹیوں تک کی تعمیر میں کتنے محنت کشوں نے اپنے خون پسینے کے دریا بہائے ہوں گے اور اس کی ایک ایک اینٹ کو سنوارنے‘ اس کے ایک ایک کونے کو سجانے میں کتنے برسوں تک دن رات کی تکلیفیں اور کٹھن قسم کی مشقتیں برداشت کی ہو ںگی؟ کتنے جسم اس کے نیچے دفن ہوئے ہوں گے اور کتنی ہڈیاں یہاں گر گر کر ٹوٹی ہوں گی؟
آج ہم سب فخر سے شاہراہِ قراقرم کا دنیا کے آٹھویں عجوبے کے طور پر ذکر تو کرتے ہیں‘ لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ اس کی تعمیر میں810 پاکستانیوں اور 200 چینی مزدوروں اور ماہرین تعمیرات نے اپنی جانیں قربان کیں۔ آج جب پاکستان سیاحت کیلئے پر خطر ہونے کی بجائے پر امن ہوتا جا رہا ہے تو یہ ایک دن میں نہیں ہوا‘ بلکہ نائن الیون کے ساتھ ہی جہاں ایک جانب ہر انگلی القاعدہ کی جانب اٹھنے لگی تو ساتھ ہی اس کا رخ پاکستان کی نشاندہی کرنے لگا اور افغانستان پر امریکی صدر بش کے حملے نے دنیا بھر کو پاکستان کی جانب متوجہ کر لیا کہ القاعدہ اور دوسرے تمام دہشت گرد عالمی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ پتھر کے زمانے کی جانب واپس دھکیلنے کی دھمکیاں کہہ لیں یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کی جانے والی قرار داد پرعمل در آمد کہہ لیں کہ پاکستان دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سب سے پہلا پڑائو اور محاذ بن گیا‘ جس نے پاکستان کو روس کے افغان جہاد ‘کی طرح ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بنا دیا‘ لیکن اس مرتبہ اس کا انداز مختلف تھا۔
2001ء سے2018 ء تک دہشت گردی پاکستان کے کونے کونے میں پھیلتی رہی ۔اس دوران ملکی معیشت اور استحکام کی جانب انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں اور کسی کو ا س بات پر یقین ہی نہیں تھا کہ یہ ملک اسی متحدہ صورت میںSurvive کر سکے گا؟ پاکستان کی سر سبز اور شاداب وادیوں اور بلند ترین چوٹیوں کی جانب بڑھنے والے عالمی سیا حوں کے قدم رک گئے‘ جس سے ملکی معیشت میں آنے والا ایک بہت بڑا حصہ کمزور پڑ نے لگا۔ گزشتہ بیس برسوں کی ایک طویل مدت تک افریقہ کے چند ممالک سمیت پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں کیا جاتا تھا ‘جس کا سفر کرنے کیلئے سیا حتی اور حکومتی ادارے اپنے شہریوں کو سختی سے منع کرتے تھے ۔دنیا بھرکے ٹریولرز ایجنٹس پاکستان کے بارے میں اس قدر خوفناک تصویر کھینچتے کہ ان ممالک کے شہری تو ایک طرف پاکستان کے ہزاروں تارکین وطن کی اولادیں‘ جو مغربی ممالک میں پیدا ہوئیں ‘وہیں پروان چڑھیں‘ اپنے والدین سے جیسے ہی پاکستان جانے کا نام سنتے تو یک دم ان کے سامنے پاکستان کے کسی بھی ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی بم دھماکوں اور خود کش جیکٹوںسے لیس ایک درجن کے قریب القاعدہ سمیت مختلف دہشت گردجتھوں کا تصور ابھرنے لگتا اور وہ پاکستان جانے کے تصور سے ہی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کر دیتے۔
لیکن‘ پھر میرے اﷲ کا احسان اور اس کی کرم نوازی کچھ اس طرح سے ہوئی کہ آج پاکستان کا چہرہ ایک خوبصورت اور دلکش ماحول لیے اپنے ہر آنے والے کا استقبال کرنے کیلئے گل و گلزار کی طرح چاروں طرف نکھرا نکھرا سا نظر آنے لگاہے اور امریکہ جیساملک اور اس کے مستند ادارے پاکستان کو سیاحت کیلئے محفوظ ترین ممالک کی صف میں شامل کرنے لگے ہیں اور امریکہ کے''Conde Nast Traveler List'' میں دنیا کے بیس ممالک میں سے پاکستان کو اولین ترجیح دیتے ہوئے وہاں کے میدانوں‘ صحرائوں‘ وادیوں اور نیپال‘ چین سے بھی بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے کیلئے بلا خوف و خطر آنے جانے کی ترغیبات دی جا رہی ہیں ۔آج‘ دنیا جب پاکستان کو سیا حت اور کاروبار کیلئے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں شامل کرر ہی ہے‘ تو اس فہرست کی تزئین و آرائش میں چند سو نہیں ‘بلکہ پاکستان کے ایک لاکھ سے زائد شہریوں ‘ پولیس‘ ایف سی‘ لیویز‘ رینجرز اور افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں کا خون بھی شامل ہے۔
پاکستان دن بدن اپنی کھوئی ہوئی منزلوں کی جانب اگر رواں دواں ہے تو اس میں وطن کے ایک ایک بچے‘ کر بوڑھے اور جوانوں نے اس قدر قربانیاں پیش کی ہیں کہ دنیا کی فوجی تاریخ میں ا س کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان کو سیا حت کیلئے بہترین ممالک کی صف میں پہلے نمبر کا درجہ دینے والی اس فہرست کی تیاری میں‘ اگر زندگی بھر کیلئے معذور ہونے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے بدنوں کے اعضا شامل ہیں ‘تو رسم شبیری ادا کرتے ہوئے کئی درجن فوجیوںکے کٹے ہوئے سر بھی شامل ہیں ۔آج جب امریکہ اور یورپ بھر میں پاکستان کو سیا حت کیلئے موزوں ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر دیکھ رہے ہیں‘ تو چشم تصور میں افواجِ پاکستان کے ان نوجوان افسروں اور جوانوں کے چہروں پر سجی آنکھوں کو دیکھئے‘ جن پر وحشیانہ قہقہے لگانے والے سفاک قاتلوںکے پہنے ہوئے بھاری بوٹوں سے بھر پور ٹھوکریں لگائی گئیں ۔
پاکستان کو دنیا بھر کے ٹورسٹس کیلئے محفوظ تصور دینے میں جہاں اور بہت سے عوامل کارفر ما ہیں‘ وہیں کرتار پور راہداری کا نام بھی شامل ہے۔ ابتدا میں جب کرتار پور کا نام لیا گیا‘ نوجوت سنگھ سدھو اور جنرل قمر جاویدباجوہ کی جپھی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی سے اس راہداری کو دنیا بھر کی سکھ برادری کیلئے تیار کرنے‘ اسے سنوارنے اور سجانے کی بات کی گئی‘ وہاں سینکڑوں نہیں‘ بلکہ ہزاروں یاتریوں کی سہولیات کیلئے جب بین الاقومی معیار کی انتظار گاہیں اور عبادت کیلئے مکمل آسائشوں کے ساتھ بہترین انتظامات کرنے کیلئے سوچ و بچار شروع ہوئی‘ تو دشمن کے ففتھ جنریشن وار کی توپوں نے مختلف قسم کے گولوں سے بھر پور حملہ کر دیا۔ سب سے پہلے کہا گیا کہ راوی دریا پر پل بناکر کسی بھی جنگ کی صورت میں بھارتی فوجیوں کو بلا روک ٹوک اورآسانی سے حملہ کرنے کی سہولیات دی جا رہی ہیں۔یا یہ تو سب غیر مسلموں کو اپنے علا قوں تک آنے جانے کیلئے کیا جا رہا ہے‘ تاکہ وہ اپنا ہیڈ کوارٹر بنا سکیں۔ غرض طرح طرح کے حملے کئے گئے ۔مقصد یہ تھا کہ ایک جانب مودی کا آرام اور چین چھیننے والے اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں تو ساتھ ہی پاکستان کے قومی داروں کے خلاف منافرت کو ہوا دی جاسکے۔ اور یہ سلسلہ دشمن کے ایجنٹوں کی جانب سے ابھی تک جاری ہے‘لیکن دشمن نے یہ نہ کہا کہ کرتار پور راہداری نے بھارتی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کا بہترین تصور پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان کی سیا سی اور معاشی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے‘ تو وہ عرصہ ملکی ترقی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے‘ جب سول اور ملٹری تعلقات اپنے بہترین دور میں شامل رہے۔ بات صرف صنعتی ترقی کی نہیں ملکی زراعت نے بھی اناج اور خوراک میں خود کفیل کیا۔ اقوام عالم کی صفوں میں ہم نمایاں دکھائی دیتے رہے ۔ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ تو نہیں ہوا‘ لیکن بہت حد تک کمی واقع ہوتی رہی۔ آج جب دنیا کے ہر اہم فورم کی صدارت کیلئے پاکستان کے نام کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے‘اپنے اوپر کئی دہائیوں سے لادے گئے قرضوں کے بوجھ کو آہستہ آہستہ کم کرتے جا رہے ہیں تو اس کی مرکزی وجہ ملک کی سول اور عسکری قیادت کا ایک ہی صف میں ایک ہی سوچ میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ثابت قدم رہنا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ناقدین قرضوں میں ہونے والی اس کمی پر خوش نہ ہوں ‘لیکن اس کا اندازہ‘ اس کی راحت وہی محسوس کرسکتا ہے ‘جس کی پیٹھ پر لادے گئے بوجھ میں دو چار کلو وزن آئے روز اتارا جا رہا ہو۔