تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     17-05-2013

پاکستان کا بدلتا ہوا منظر نامہ

دھونس اور دھاندلی کی ایک حد ہے ۔ کمزور سے کمزور آدمی پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ تجزیہ نگار متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بغیر دھاندلی کے 77ء کا الیکشن جیت جاتے ۔تاریخ ساز کامیابی پانے کے لیے انہوںنے عجیب راستہ چنا۔ خود بھی تباہ ہوئے اور قوم توبھگت ہی رہی ہے ۔ کیا 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ؟ پنجاب میں دس بیس فیصد تک لیکن کراچی ؟ الیکشن نہیں وہاں ایک تماشہ ہوا۔ ثبوت جا بجا بکھرے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ دو گھنٹے کے بعد مایوس لوٹے ۔ پولنگ کے دوران ہی جماعتِ اسلامی اور دیگر نے بائیکاٹ کر دیا ۔ ایم کیو ایم کی حریف جماعتیں ایک طرف، پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا ،جسے معلوم تھا کہ بالآخر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر اسے حکومت بنانا ہوگی ۔ خودسیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے اعتراف کیا کہ کراچی میں شفاف الیکشن کرانے میں وہ ناکام رہے ۔ اس کے باوجود نتائج قبول کہ دھاندلی کا الزام تو ہر دفعہ لگتاہے ۔ جولائی 2011ء ، ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی سے روٹھ چکی تھی۔ اس کے وزرا نے استعفے بھجوا دئیے تھے ۔ 10جولائی کی شام کو ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ اعلان کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نائن زیرو کی ٹیلی فون لائنیں کاٹ ڈالی ہیں اور کسی بھی لمحے اس کے خلاف آپریشن شروع ہو جائے گا۔ آنا فاناً ہزاروں کارکن متحرک ہوئے۔ رہنما خطرناک نتائج سے آگاہ کر رہے تھے اور جاں نچھاور کرنے کااعلان بھی۔دوسری طرف ’’مفاہمت‘‘کی سیاست اور دسترخوان بچھانے والے حیران تھے کہ کون سا آپریشن ، کیسا آپریشن ؟ایسا کوئی منصوبہ نہ تھا لیکن چیخ پکار سے پیپلز پارٹی کو پسپا کر دیا گیا ۔حلقہ 250میں از سرِ نو الیکشن کرانے کے لیے ایم کیو ایم کے دھرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ تحریکِ انصاف اور دیگر جماعتوںنے تین تلوار پر دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کیا تو انہیں دھمکی دی گئی اور اسٹیبلشمنٹ سے کہا گیا کہ کراچی کو پاکستان سے الگ کر دیا جائے۔ احتجاج کرنے والے ڈٹے رہے تو دبائو کم کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے جوابی دھرنا شروع کیا ۔ الیکشن نتائج کے مطابق تحریکِ انصاف نے وہاں دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ پھر بھی ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے ووٹوں میں غیر معمولی فرق ہے ۔یہ فرق ایک فریب ہے ۔ نون لیگ کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی تحریکِ انصاف آج جماعتِ اسلامی سے اتحاد کر لے تو کراچی میں کامیابی مل سکتی ہے۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ چند روز مظاہرین ڈٹے رہے تو پنجاب کی متنازع نشستوں اور پورے کراچی میں دوبارہ الیکشن ہوں گے ۔ حریف پر نفسیاتی دبائو بڑھا کر کامیابی کا خواب دیکھنے والی دوسری ہستی مولانا فضل الرحمٰن ہیں ۔ وہ بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں ۔قیامِ پاکستان سے آج تک ، کب انہیں تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی؟ ہوسِ لقمہ تر نے ایک ذہین آدمی کی عقل کو شکست دی اورپختون خواکے 99کے ایوان میں اپنے 15سپاہیوں کے ساتھ وہ حکومت بنانے کاخواب دیکھتے رہے ۔ اپنی کامیابی کا جھوٹا تاثر دینے کے لیے وہ بعض صحافیوں سے رابطہ بھی کرتے رہے۔ کس بل پر وہ تحریکِ انصاف کا مینڈیٹ چرانا چاہتے تھے ؟ ان کی خواہش کے مطابق جے یو آئی ، نون لیگ اور قومی وطن پارٹی اتحاد کر بھی لیتیں تو 37نشستیںبنتیں اور اکیلی تحریکِ انصاف کے ارکان 34تھے ۔ پھر 7نشستوں والی جماعتِ اسلامی کس لیے ان سے ہاتھ ملاتی ، جس نے مذہبی ووٹروں کو اکٹھا کر کے کامیابی کے امکا ن کے باوجودان سے انتخابی اتحاد گوارا نہ کیا ۔ تینوں جماعتوں کو جوڑنے کے بعد مولانا10کے 10آزاد ارکان بھی لے اڑتے تو 3ارکان پھر بھی کم ہوتے ۔آخر انہیں 5نشستوں والی اے این پی کے آگے ہاتھ پھیلاتے دیکھا گیا، الیکشن سے قبل جسے وہ مردہ سانپ قرار دے رہے تھے ۔ 50ارکان اکٹھے ہو بھی جاتے تو ایک لڑکھڑاتی ہوئی کمزور حکومت وجود میں آتی جو زبردست اپوزیشن کی موجودگی میں کسی بھی وقت منہ کے بل آگرتی ۔ یہ ایک ایسی ہی کوشش ہوتی ، جیسی صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج کی صورت میں کی تھی ۔ کئی بار مرکز اور صوبوں میں حکومت بنانے والی نون لیگ جانتی تھی کہ یہ بے کار کی ایک مہم جوئی ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہوسِ اقتدار میں ناممکن کی آرزو کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن کے برعکس اس نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔اب وہ دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں اور اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے پر ’’سوچ بچار‘‘ کبھی نہ ہوں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved