میں گھبرانے والا نہیں‘ امید ہے اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''میں گھبرانے والا نہیں‘ امید ہے اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا‘‘ اگرچہ جعلی اکائونٹس کیس بھی سر پر کھڑا ہے‘ لیکن پلی بارگین کس مرض کی دوا ہے؛ اگرچہ آدمی نا اہل تو پھر بھی ہو جاتا ہے‘ اس لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں گے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے ‘جسے اقتدار حاصل کرنے کے بعد عوام پر گھمانے کی ضرورت ہوگی‘ کیونکہ محاورہ بھی شاید اسی طرح ہوگا کہ جس کی لاٹھی اُس کے عوام‘ اسے لاٹھی چارج بھی کہا جاتا ہے‘ لیکن کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے‘ مثلاً؛ یہ کہ ہم نے بہت لوٹ مار کی ہے؛ حالانکہ ہم نے جو کچھ کیا‘ بڑے آرام سے کیا ہے اور چھینا جھپٹی کی نوبت کبھی نہیں آئی اور اس میں فرنٹ مینوں کی محنت بھی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں عیادت کیلئے آئے چیف منسٹر سندھ سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سے ڈرنے والا نہیں‘ گرفتاری خود دوں گا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت سے ڈرنے والا نہیں‘ گرفتاری خود دوں گا‘‘ کیونکہ اگر خود نہ بھی دی ‘تو پولیس گرفتار کر لے گی۔ پرائے پُتر کہاں معاف کرتے ہیں‘ نیز یہ معاملہ نارووال سپورٹس کمپلیکس کا ہے‘ یعنی کھیل کا ہے تو اسے کھیل ہی کی طرح لینا چاہیے‘ جبکہ میں نے بھی جو کچھ کیا‘ کھیل کھیل ہی میں کیا تھا‘ مجھے کیا خبر تھی کہ پولیس کو خبر ہو جائے گی‘ نیز یہ جس وقت کا ذکر ہے‘ پولیس تو ہمارے گھر کی لونڈی ہوا کرتی تھی‘ اس لیے اسے پرانے وقتوں کا بھی کچھ لحاظ کرنا چاہیے تھا‘ لیکن حکومت سراسر انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ہے؛ اگرچہ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ہم سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے؟ لیکن‘ چونکہ جملہ زعما اسے انتقامی کارروائی ہی قرار دیتے رہتے ہیں‘ اس لیے میں بھی انہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں‘ جبکہ ویسے بھی ہم سارا کام ایک دوسرے کے نقشِ قدم پر ہی چل کر کرتے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قوم کسی قیمت پر سقوطِ سرینگر نہیں ہونے دے گی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''قوم کسی قیمت پر سقوطِ سرینگر نہیں ہونے دے گی‘‘ تاہم قوم کا تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ایسا ہونے دے گی یا نہیں‘ میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گا؛ البتہ احتیاطاً قیمت کا پوچھ لوں گا کہ کیا ادا کی جا سکتی ہے اور اگر قیمت خاصی معقول ہوئی تو سوچا جا سکتا ہے ‘کیونکہ یہ دنیا ہی ایسی ہے کہ ہر چیز کی ایک قیمت مقرر ہے ‘جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی‘ ویسے بھی کشمیر میں جا کر تو ہم لڑنے سے رہے ‘بلکہ میں تو امن پسند آدمی ہوں‘ کہیں بھی لڑنے کو تیار نہیں ہوں‘ جبکہ ہندوئوں کے ساتھ لڑنا اپنے آپ کو بھرشٹ کرنے کے مترادف ہے اور بہتر یہی ہے کہ ان پر دُور سے ہی دو حرف بھیج دی جائے‘ جبکہ اصولی طور پر آدمی کو اختصار پسند ہی ہونا چاہیے‘ جس سے وقت بھی بچتا ہے جو کہ بڑی قیمتی چیز ہے اور الفاظ بھی خواہ مخواہ ضائع نہیں ہوتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سیرتِ مصطفی سے خطاب کر رہے تھے۔
درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں جہاں تلمیذ الرحمن نامی ایک عمدہ شاعر کو دریافت کیا ہے اور اُن کے وافر اشعار بھی نقل کیے ہیں‘ تاہم ایک شعر ٹھیک درج نہیں ہوا‘ یعنی: ؎
جب سے حلاجٔ کردار مجھے عشق نے دی
خوش سخن گرمٔ گفتار مجھے عشق نے دی
صرف املا میں گڑ بڑ ہوئی ہے ‘مثلاً ''گرمٔ گفتار‘‘ کی ''گرمیٔ گفتار‘‘ لکھنا چاہیے تھا ‘جبکہ میری نظر میںپہلے مصرعے میں ''حلاجٔ کردار‘‘ بھی مشکوک ہے۔
مفتی منیب الرحمن نے ایک شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
پہلے جو آپ کہہ کر بلاتے تھے‘ اب وہ تُو کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
اس کا پہلا مصرعہ خارج از وزن ہے‘ جو اس طرح ہو سکتا ہے: ع
پہلے کہتے تھے جو آپ اب وہی تُو کہتے ہیں
اور ‘ اب آخر میں ماہنامہ ''الحمراء‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی صاحب ِ طرز شاعر نذیر قیصرؔ کی یہ غزل:
آئنے میں جو پری آتی ہے
ہم کو بھی جادوگری آتی ہے
ٹوکری آتے ہوئے موسم کی
سُرخ پھُولوں سے بھری آتی ہے
صُبح‘ اس شہر کے دروازے پر
اپنے سائے سے ڈری آتی ہے
تیرے در پر بھی پہنچ جائیں گے
وہ جنہیں دربدری آتی ہے
ہوشیار اہلِ نظر‘ اہلِ خبر
کام یاں بے خبری آتی ہے
پانچ دروازوں میں جلتے ہیں چراغ
بیچ میں بارہ دری آتی ہے
کون خاموشی سے کرتا ہے کلام
کس کو پیغامبری آتی ہے
اب وہ راشدؔ نہ حسن کُوزہ گر
اب کسے کُوزہ گری آتی ہے
خوش ہیں ہم گھاس پہ سونے والے
نیند آنکھوں میں ہری آتی ہے
آج کا مطلع
خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل آیا ہوں
وحشت ختم ہوئی ہے تو صحرا سے نکل آیا ہوں