تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-12-2019

چھوٹے بڑے نہیں ہوں گے

پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں‘ ایم این ایز کی ایک اہم دن میں عدم دلچسپی دیکھ کر خیال آیا‘ اس جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ہمیں کتنی صدیاں درکار ہوں گی؟ 
سولہ دسمبر کا خونیں دن اور آپ کو پارلیمنٹ کی کرسیاں خالی نظر آئیں تواندازہ ہو جانا چاہیے کہ جن سے ہم لمبی چوڑی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ خود سنجیدہ نہیں۔ ان کی سنجیدگی بس ان کے الاؤنسز‘ ٹی اے ڈی اے اور بیرون ملک سفر تک محدود ہے یا پھر کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز میں ‘جن سے انہوںنے دس سے پندرہ پرسنٹ لینا ہوتا ہے۔پارلیمنٹ کو بیس سال سے کوّر کرتے ہوئے یہی دیکھا ہے کہ دو تین چیزیں ہیں جن میں ایم این ایز اپنا شوق دکھاتے ہیں ۔ ان کے وہ شوق پورے ہوتے رہیں تو انہیں باقی کاموں میں انٹرسٹ نہیں رہتی۔ آپ ان سے کسی بھی جگہ انگوٹھا لگوا لیں‘ کسی کو بھی وزیراعظم بنوا لیں ‘ان کی بلا سے اور وہ وزیراعظم کچھ بھی کرتا رہے وہ نہیں بولیں گے۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا اور چند ایم این ایز ادھر اُدھر بیٹھے تھے۔ یہ وہ غیرسنجیدگی ہے جو برسوں سے ان کرسیوں پر نظر آتی ہے۔ نواز شریف آٹھ آٹھ ماہ پارلیمنٹ نہیں آتے تھے۔ چھ چھ ماہ کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا ۔ 
پارلیمنٹری جمہوریت میں دو تین چیزیں سب سے اہم ہوتی ہیں ۔ ایک تو وقفۂ سوالات اور دوسرے قائمہ کمیٹیاں۔ ان دونوں جگہوں پر آپ کو ایم این ایز کی دلچسپی بہت کم نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ وقفہ ٔسوالات میں حکومت کو ٹف ٹائم دے‘ لیکن وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن زرداری اور نواز شریف کے خاندانی اور ذاتی ایشوز سے باہر نہیں نکل پاتی۔ اس کی ہر تان زرداری سے شریف خاندان پر جا کر ٹوٹتی ہے۔ وزرا بھی ہاؤس میں نظر نہیں آتے۔ انہوںنے وزیر بننا تھا بن گئے ‘ اب اس کے بعد کچھ اور لوگ ہاؤس کو سنبھالیں۔ وہ بھی سوالوں کے جوابات دینا توہین سمجھتے ہیں۔ انہوں نے آگے سے خواتین پارلیمانی سیکرٹریز کو کہا ہوا ہے کہ وہ جوابات دیا کریں۔ حکومت پر اس وقت کوئی دبائو نہیں‘ لہٰذا وہ بھی تکبر اور غرور سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے بھی اس طرح سنبھالے نہیں سنبھلے تھے۔ دیکھتے ہیں یہ اس انجام سے کیسے بچ پاتے ہیں جو ان سے پہلے وزیروں یا حکومتوں کا ہوا تھا۔ اگر ایم این ایز کے پاس سولہ دسمبر کے روز بھی اسمبلی کیلئے وقت نہیں تو سمجھ لیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ایک طرف بھارت میں مظاہرے ہورہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں سولہ دسمبر کے روز بھی واقعات ہوئے۔ اسی روز جہاں مشرقی پاکستان کے سانحہ پر لوگ روتے ہیں وہیں پشاور میں مارے جانے والے بچوں کا دکھ الگ ہے۔
پاکستان میں کبھی خبریں ختم نہیں ہوتیں ۔ ایک خبر ابھی آپ نے سنی ہے اور اسے ہضم کرنا باقی ہے کہ اس سے بڑی خبر نکل آتی ہے۔ آپ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کچھ اور ہوچکا ہے۔ یہی دیکھ لیں چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ آیا اور ابھی ہم پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ خصوصی عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا سنا دی ہے۔ اگر پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی خبروں کی رینکنگ کریں تو میرا خیال ہے یہ خبر پہلی تین بڑی خبروں میں شمار ہوگی۔ یہ وہ چیز ہے جو کبھی سنی تھی ‘ نہ ہی سوچا تھا۔ 
آج سے بائیس برس پہلے جب میں ملتان سے اسلام آباد آیا تھا تو ایک سال بعد جنرل مشرف کا مارشل لگ گیا‘ لہٰذا اگلے دس برس رپورٹنگ ان کے دور میں کی۔ ان کے دور کی دہشت اور تکبر‘ سب کچھ یاد ہے۔ کیسے شاہین صہبائی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ‘ ان کے رشتہ داروں پر مقدمے درج کرائے گئے‘ ڈاکٹر ظفر الطاف کی بیگم کو ہراساں کیا گیا۔ نیب ان پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ اپنے خاوند کو مجبور کریں کہ وہ بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں۔ ایسے ہی ہم نے بارہ مئی 2007 ء کو کراچی میں دیکھا جب خون کی ہولی کھیلی گئی‘درجنوں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا اور جنرل مشرف نے شام کو ایک جلسے میں مکے لہرا کر کہا: دیکھ لی آپ نے عوام کی طاقت۔ اکبر بگٹی کو جس طرح مارا گیا اس سے پورے بلوچستان میں وہ آگ لگی کہ آج تک نہیں بجھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایک سابق آرمی چیف کو سزائے موت سنانے کے بعد پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہوجائے گی؟ کیا سیاستدان اب اس قابل ہوجائیں گے کہ کوئی بھی طالع آزما اقتدار پر قبضہ نہ کر سکے گا؟ فوج اب پیشہ ورانہ کردار ہی ادا کرے گی اور کوئی بھی اب مارشل لاء لگانے کی ہمت نہیں کرے گا کیونکہ عدالتوں نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا ہے جو پاکستانی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا؟
اگر مجھ سے پوچھیں تو اس بات کا فیصلہ پاکستانی سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس طرح کا پاکستان چاہتے ہیں۔ میں نے بیس برس ان سیاستدانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ لوگ اقتدار میں محض لوٹ مار کرنے آتے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت ایک ایسا کاروبار ہے جس میں انہیں ہر روز کچھ نہ کچھ نقدی کی شکل میں فائدہ ہونا چاہیے۔ انہیں روز کوئی لمبا کمیشن اور مال ملنا چاہیے۔ انہوں نے جس طرح سیاست کو کاروبار کا درجہ دے دیا ہے وہ کسی مارشل لاء سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ہر بندے کو کچھ نہ کچھ چاہیے۔ سیاست جو عوامی خدمت کے لیے کی جانی تھی وہ خاندانی دولت اکٹھی کرنے کیلئے استعمال ہوئی۔ ابھی دیکھ لیں کہ شریفوں کے بچوں کی پانچ براعظموں میں جائیدادیں نکلی ہیں ‘ قوم اب بھی انہیں بے قصور سمجھتی ہے۔ زرداری اور فریال تالپور نے جعلی اکائونٹس میں دولت اکٹھی کرکے سب کو مات دے دی ہے۔بلاول بھٹو نے جو اثاثے ڈکلیئر کیے‘ گنتے گنتے پورا دن لگ جائے۔ جن افسران نے ان اربوں کے جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کی تھیں وہ حیران بیٹھے ہیں کہ ہمیں کیا پڑی تھی کہ ان طاقتور لوگوں کو اپنا دشمن بناتے۔ کوئی بھی میرٹ پر ضمانت نہیں لے سکا‘ سب نے ایک ہی میرٹ بتایا ہے کہ جناب ہماری طبیعت خراب ہے‘ سب کو میڈیکل گرائونڈز پر ضمانتیں ملی ہیں۔ حیران ہوتا ہوں جو لوگ دو تین لقمے اور دال کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتے‘ انہوں نے اربوں روپے کما کر کون سا تیر مار لیا؟ 
اس میں شک نہیں کہ یہ عدلیہ کی بڑی کامیابی ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کو سزا سنائی گئی ہے‘ چاہے اس پر عمل نہ ہو‘ لیکن سوال یہ ہے اس سے ہم کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ جو جنرل مشرف کے ساتھ مارشل لاء لگوانے میں شامل تھے اور جنہوںنے ایمرجنسی کا ڈرافٹ لکھا تھا انہیں نواز شریف نے اپنا وزیرقانون بنایا‘ باقی عمران خان کی کابینہ میںبیٹھے ہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ آج وہی لوگ آپ کو قومی اسمبلی کی فرنٹ نشستوں پر بیٹھے ملیں گے۔ 
مجھے خطرہ ہے کہ پاکستانی سیاستدان اس سے کچھ سبق نہیں سیکھیں گے۔ ان کے نزدیک اقتدار ایک ایسا موقع ہے جس میں انہوں نے خاندانوں کیلئے دولت اکٹھی کرنی ہے۔ عمران خان کی کابینہ بھی ایسے کرداروں سے بھری ہوئی ہے جو ماضی میں ہر حکومت کے ساتھ شامل تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی کہتے تھے وہ جنرل مشرف کو دس دفعہ وردی کے ساتھ صدر بنوائیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ انہیں بدلے میں وزیراعظم بنوا دیں۔ شہباز شریف‘ چوہدری نثار علی خان‘ عمران خان‘ سب اپنی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ 
پارلیمنٹ کے پاس اچھا موقع ہے‘ کہ خود کو سنبھالے۔ جمہوریت کا راستہ لے‘ماردھاڑ میں کچھ کمی لائے‘ اس ملک کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھے‘ لیکن مجھے یقین ہے ہمارے سیاستدانوں میں کوئی ایسانہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ یہ وہ چھوٹے بچے ہیں جنہیں ہر وقت اپنے بڑے بھائی کی انگلی چاہیے جو انہیں پکڑ کر ساتھ چلائے اور ان کا خیال رکھے۔ لوٹ مار کرتے پکڑے جائیں تو ان کی ضمانتیں کرائے۔ چھوٹے سیاستدان پیسے کے پجاری کبھی بڑے نہیں ہوں گے‘ یہ نفع نقصان کے چکر سے نہیں نکلیں گے۔ یہ چھوٹے ہی رہیں گے کیونکہ یہ سب سیاست کسی بڑے مقصد کے لیے نہیں بلکہ نفع نقصان کے لیے کرتے ہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved