تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-12-2019

منزل کی طرف پہلا قدم

ایک عرب قبیلے کے شیخ کو جب معلوم ہوا کہ اس کے جانوروں میں سے ایک مرغا غائب ہے تو اس نے فوری طور پر اپنے ملازم گمشدہ مرغے کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑائے‘ خود بھی ٹیلوں پر چڑھ کر دیکھا لیکن مرغا نہ ملا۔ رات گئے تک جاری رہنے والی یہ تلاش ختم ہوگئی ‘ کسی ملازم نے کہا‘ کوئی بھیڑیا مرغے کو لے گیا ہوگا۔ اس پر شیخ نے مرغے کے پروں کا مطالبہ کرڈالا تو ملازم اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اگلے روز شیخ نے اونٹ ذبح کروائے اور تمام قبیلے والوں کو کھانے سے پہلے مرغے کی تلاش میں مدد کی درخواست کی۔ سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ اتنا امیر آدمی اور ایک مرغے کے لیے بے چین۔ قبیلے والوں نے شیخ کی درخواست سنی اَن سنی کی اور کھانا کھا کر چلے گئے۔ چند دن بعد قبیلے میں سے کسی کی بکری گم ہوئی تو شیخ نے ایک بار پھر اونٹ ذبح کیا‘ قبیلے والوں کو بلایا اور مرغے کی تلاش میں مدد کی درخواست کی۔ اس بار قبیلے والوں میں سے چند ایک نے تو اسے پاگل پن سے تعبیر کیا کہ معاملہ بکری کا ہے اوربات مرغا تلاش کرنے کی ہو رہی ہے۔ خود شیخ کے بیٹوں نے گھر آئے مہمانوں سے والد کے طرزِعمل کی معذرت کی اور بات رفع دفع ہوگئی۔ کچھ عرصہ گزرا کہ ایک اونٹ غائب ہوگیا۔ شیخ نے پھر وہی کیا‘ اونٹ ذبح ہوا‘ دعوت ہوئی اوراور گمشدہ مرغے کو ڈھونڈنے کی ترغیب دی۔ اب کی بار تو لوگوں نے دھمکی ہی دے ڈالی کہ اگر شیخ نے پاگل پن کی یہ باتیں جاری رکھیں تو سرداری سے معزول کردیاجائے گا۔ شیخ نے یہ ماحول دیکھا تو چپ سادھ لی۔ مہینہ بھر گزرا ہوگا کہ قبیلے کی ایک نوجوان لڑکی غائب ہوگئی۔لڑکی کا غائب ہونا قبیلے والوں کی غیرت پر تازیانہ تھا۔ اب کی بار شیخ نے پھر وہی کیا۔ لوگ اکٹھے ہوئے تو انہیں اپنے مرغے کی تلاش پر قائل کرنے لگا۔یہ سن کر لوگوں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور لڑکی کی تلاش میں نکل گئے۔ کھوجیوں کی خدمات حاصل کی گئیں‘ کنوؤں میں جھانکا گیا‘ نوجوانوں کی ٹولیاں دور دور تک نکل گئیں ۔ آخرکار کسی نے خبر دی کہ فلاں پہاڑ کے ایک غار میں کچھ لوگ پوشیدہ طور پر رہ رہے ہیں۔ قبیلے والوں نے اس غار پر چھاپہ مارا تومعلوم ہوا کہ یہ ڈاکوؤں کا بسیرا ہے اور انہی نے لڑکی اغوا کی تھی۔ اس غار کے قریب سے ہی گمشدہ اونٹ‘ بکری اور شیخ کے مرغے کی باقیات بھی مل گئیں۔ لڑکی مل جانے کے بعد لوگوں کو خیال آیا کہ دراصل شیخ اپنے مرغے کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ انہیں کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ان سے مدد مانگ رہا تھا۔ 
اس حکایت کا پس منظر تو یقینا عرب ہے لیکن اس کا سبق عالمگیر ہے‘ جو اسی طرح کی سینکڑوں کہانیوں اور ضرب الامثال میں لپیٹ کرپچھلی نسل نے اگلی نسل تک پہنچا دیا ہے‘ یعنی جب تک پہلی غلطی کو درست نہیں کیا جاتا‘ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ تباہی کسی ایک غلطی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اپنی غلطی کو حکمت عملی سمجھ لینے سے ہوتی ہے۔پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے‘ آپ اپنے اپنے خیال کے مطابق متعین انداز میں بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا پہلا دن تھا جب ہماری سرکار نے قانون کے نفاذ پر سمجھوتہ کیا ہوگا۔جنرل ایوب خان کا نام لیا جاسکتا ہے‘ جنہوں نے سیاستدانوں کو اپنی ضرورت کے تحت نااہل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ہو سکتا ہے آپ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جائیدادوں کی بندربانٹ کو پہلی خرابی قرار دیں ۔ کسی کے خیال میں دستور سازی میں تاخیر پہلی غلطی ہویا کوئی غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کو بربادی کا آغاز قرار دے۔آغاز کہیں سے بھی ہوا ہو‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قانون کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔کہیں تو شمّے شوشے کی غلطی پر عمر بھر کی سزا مل جاتی ہے اور کہیں سب کچھ کھا جانے والوں سے سوال بھی نہیں پوچھا جاتا۔ قانون نافذ کرنے کی ذمہ دار انتظامیہ اتنی فنکارانہ صلاحیتوں کی حامل ہے کہ اس کے پاس بے گناہوں کو پکڑنے کے ہزاروں دلائل بھی موجود ہیں اور گناہگاروں کو چھوڑ دینے کے بے شمار عذر بھی۔ مصلحت اور مرضی کا یہ سلسلہ ایسا چلا ‘ ایسا چلا کہ آج قانون کا دائرہ اتنا سکڑ چکا ہے کہ اس میں وکیل بھی نہیں سماسکتے۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا یاکہیں رکے گا بھی؟ اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہوتا اگر جنرل پرویز مشرف کی دستور شکنی کا فیصلہ نہ سنایا جاتا۔ 
شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو کہ ایک گروہ تاریخ کے غار میں ٹھکانہ کرکے عوام کے حقوق کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ اس کا بس چلا تو اس نے غریب کا مرغا بھی اٹھا لیا‘ اس کی بکری پر بھی حق جتا لیا اور کہیں عزت پر ہاتھ ڈال دیا لیکن کوئی کچھ نہیں کرسکا۔ دستور‘ یعنی ملک کا بنیادی قانون انفرادی خواہشات کے تابع توڑ دیا جائے تو باقی قوانین پر عمل درآمد کی توقع ہی لا یعنی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بڑے جرم میں تو کوئی پوچھے نہیں اور ٹریفک کا اشارہ توڑنے پر سخت سزا دے دی جائے۔ اب دستور شکنی کے ایک کیس کا فیصلہ ہوا ہے تو امید بندھی ہے کہ دیگر قانون شکن بھی نظام کے شکنجے میں آتے چلے جائیں گے۔ پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے فیصلے پر بے شک عمل نہ ہو ‘ یہ طے ہوجانا ہی بڑی بات ہے کہ انہوں نے دستور شکنی کی۔ ہماری تاریخ کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ کرنا کوئی آسان نہ تھا۔ اس کانٹوں بھرے راستے پر چلنے سے آصف علی زرداری نے انکار کیا‘ دوہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے نواز شریف نے بھی خفیہ طور پر جنرل مشرف کے احتساب سے توبہ کر لی تھی‘ وہ اپنی توبہ پر قائم رہتے اگردوہزار تیرہ کے الیکشن کو منظم انداز میں متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کی جاتی۔ نواز شریف نے جنرل مشرف کے خلاف دستور شکنی کا مقدمہ ایک سیاسی حربے کے طور پر قائم کیا تھا اور انہیں کچھ عر صہ اس کا فائدہ بھی ہوا۔ عمران خان کے لیے جنرل مشرف کی دستور شکنی ایک بے معنی سی بات ہے ‘سو انہوں نے تو حکومت میں آکر اس مقدمے کی پیروی سے ہی جان چھڑانا چاہی لیکن قانون اپنا راستہ بنا چکا ہے۔ 
جنرل مشرف کا فیصلہ ہمارے ہاں قانون کی عملداری کے راستے پر بڑا قدم ہے۔ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ نظام کی دراڑوں میں چھپی ان جادوئی کتابوں میں ابھی بہت سے دلائل باقی ہیں جو عوام کو گمراہ کرنے کے لیے دیے جائیں گے۔ مصلحتیں سمجھائی جائیں گی‘ زمانے کی اونچ نیچ بتا کر انصاف کو دفن کرنے کی بات ہو گی۔ قانونی موشگافیاں بھی ہوں گی کہ پرویز مشرف کو عدالت میں سنا نہیں گیا۔ یہ سب ہوگا لیکن جادوئی کتابوں کا کوئی منتر اب کام کرتا نظر نہیں آتا۔ضابطہ فوجداری کی شقیں جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں استعمال کرنے والے قانون دان اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کیس وہ نہیں جس میں دفاع کا حق ضروری ہو۔ اس معاملے میں جرم دستور شکنی ہے‘ جس کی کوئی بھی وجہ قانونی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ کیا جنرل مشرف عدالت کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ انہوں نے تین نومبر دوہزار سات کو دستور اس لیے توڑا کہ انہیں عدلیہ سے قانون کے مطابق فیصلوں کا خطرہ تھا؟ پاکستان کے عوام نے اپنی آنکھوں سے جنرل پرویز مشرف کو دستور توڑتے ہوئے دیکھا۔ اب اس کیس میں دفاع کے حق کے نام پر فیصلے کو الٹ پلٹ کرنے کا جواز نکالنے کے لیے وہی ہمت درکار ہو گی جو جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت دریافت کرتے ہوئے دکھائی تھی۔ حق یہ ہے کہ ہم نے سراغ لگا لیا ہے۔ یہیں سے ہمارا مرغا بھی ملے گا‘ بکری بھی اور لُٹی ہوئی عزت بھی۔

تباہی کسی ایک غلطی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اپنی غلطی کو حکمت عملی سمجھ لینے سے ہوتی ہے۔پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے‘ آپ اپنے اپنے خیال کے مطابق متعین انداز میں بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا پہلا دن تھا جب ہماری سرکار نے قانون کے نفاذ پر سمجھوتہ کیا ہوگا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved