تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     18-12-2019

بناؤ اور بگاڑ کی جدلیات

لاہور میں امراضِ قلب کے ہسپتال میں پیش آنیوالے دل خراش واقعہ پہ حیرت انگیز طور پہ ہمارے اہل ِعلم و دانش تو خاموش رہے ‘لیکن اہل دل شعراء کرام‘ادیبوں اورسوشل میڈیا پہ خامہ فرسائی کرنے والے دل جَلوں نے حکومت‘پولیس ‘وکلاء اور ڈاکٹرز پر جی بھر کے سنگِ ملامت برسائے۔ہمارے فعال میڈیا کے روایتی دانشوروں نے بھی حسب ِمعمول قوم کے اخلاقی زوال پہ نوحہ خوانی کرنے کے علاوہ ڈاکٹرز‘وکلاء اور سماج کو نصیحت فرمانے کا فرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں برتی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ معلوم سیاسی تاریخ میں شاید پہلی بار اہل ِعلم ودانش نے کسی ایسے معاملہ پہ لب کشائی سے گریز کیا‘ جو اس کے دائرہ علم و عمل سے متعلق نہیں تھا‘ورنہ طول طویل تقریریں کرنیوالے مبلغین اس کائنات کے ہرمعاملہ پہ رائے دینا فرض عین سمجھتے تھے۔ان دانشوروں کی یہ باوقار خاموشی ان کی ذہنی پختگی کی علامت نظر آتی ہے‘اسی سے پتا چلتا ہے کہ لبرل اور سیکولر اشرافیہ کی نسبت ہمارے اہل ِعلم ودانش کا طرزِ عمل زیادہ سنجیدہ اورعاقلانہ ہوتا جا رہا ہے۔افسوس کہ ہر لمحہ سماج میں رونما ہونے والی چھوٹی بڑی ٹریجڈیز اور انسان کی فطری خطاکاریوں پہ جس قدر بے مقصد رائی زنی اور غیرسنجیدہ بحث کاری کا رجحان پیشہ ورتجزیہ کاروںکے رویوں میں دکھائی دیا ‘وہ ان مسائل سے زیادہ اذیت ناک تھا‘جن کا آج ہم دکھی دل کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں بھی سیاسی‘سماجی اور ذہنی تبدیلیوں کے ہموارعمل میں رخنہ اندوزی ہو گی‘ وہاں دھڑے بندیاں‘نت نئے حادثات اور ٹوٹ پھوٹ کا رونما ہونا یقینی ہو جائے گا‘ لیکن جمود و تغیر کے مابین جاری آویزش سے ڈرنے کی بجائے اسے فطرت انسانی کی بوقلمونی اور گہرائی میں جھانکنے کے موقعہ سمجھا جائے تو واقعات کا تناظر بدل جاتا ہے۔تاریخ ایسے کئی کربناک واقعات سے بھری پڑی ہے‘جنہیں ہر عہد کے انسانوں نے نئے آلات کے ذریعے مختلف طریقوں سے بار بار دہرایا اورمستقبل میں بھی دہراتے رہیں گے۔معروف مؤرخ ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے ''اخبارات کی طرح تاریخ میں بھی صرف تاریخیں تبدیل ہوتی ہیں‘واقعات وہی رہتے ہیں‘‘۔اگر ہم یورپ میں تحریک اصلاح اورنشاۃ ثانیہ کے عہد پہ نظر ڈالیں تو بکثرت ایسے دلخراش واقعات مل جائیں گے‘جو ہماری لبریز الم زندگی سے گہری مماثلت رکھتے ہوں گے ‘لیکن پھر بھی ہم تغیروتبدل کے اس عمل کو سمجھ نہیں پاتے‘ جس سے اس عہد کے لوگ گزرے ہوں گے۔ گزشتہ بیس پچیس برس میں مسلح گروہوں نے یہاںتمام مذاہب کی عبادت گاہوں ‘ بازاروں‘تفریح گاہوں‘سکولوں‘عدالتوں اور ہسپتالوں میں آگ و خون کا بازار گرم رکھ کے خوف کی جو فضا بنائی‘اہل علم ودانش کے ایک مقتدر طبقہ نے تو اُس تشدد کو سند جواز فراہم کرکے ہماری بے بسی کا تمسخر اُڑایا‘ لیکن ہمارے سماج کی اجتماعی دانش بھی مصلحت کی بُکل مارے غارت گری کی ان لہروںسے منہ چھپاتی نظر آئی۔ہماری تقدیر پہ قادر مملکت اوربالادست طبقات کی بے رخی کے باوجود معاشرے نے اپنی فطری لچک کے ذریعے خاموشی کے ساتھ ان صدمات کو سہہ لیا‘ بلکہ لوگوں کی اکثریت ان سنگین واقعات کی تلخی کو فراموش کر بیٹھی ہے‘لیکن حیرت انگیز طور پہ وقت کی صرف ایک ہی کروٹ نے دہشت گرد تنظیموں کی اس جبریت کو تحلیل کر ڈالا‘ جو ہمارے قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی‘بلکہ اسی تشدد نے جنرل مشرف کی اس مہیب آمریت کو گرانے میں بھی اہم کرادا کیا‘سیاسی اشرافیہ جس کا سامنا کرنے کی تاب نہیں رکھتی تھی۔بدقسمتی سے اب‘ وہی مصلحت کوش اہل دانش‘جو بندوق برداروں کے سامنے سہم جاتے تھے‘ڈاکٹرز اور وکلاء کی گروہی کشمکش کو لیکر سطحی نوعیت کی بیکار بحث و تمحیص کی جگالی کے ذریعے تغیر و تبدل کے عمل میں رخنہ اندوزی کرنے میں مشغول ہیں‘اگر وکلاء پر سنگِ ملامت برسانے کی بجائے یہ لوگ چپ رہتے تو اجتماعی زندگی بہت جلد ان پیچیدگیوں کو سنوار لیتی۔علیٰ ہذالقیاس‘ہمیںسیاسی بدنظمی اور سماجی خرابیوںسے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ماضی قریب کی طرح اب بھی ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ زندگی کا دھار بہتے پانی کی مانند ازخود اپنی سطح کو ہموار بنا لے گا۔کیا اس عہدجدید کے دانشور پڑوسی مملکت بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم پہ رونے دھونے کے سوا‘وہاں کے سماج میں پنپتیہوئے ریفارمیشن کے عمل کی تفہیم کر سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہر پھلتے پھولتے تمدن پہ ایک زمانہ ایسا ضرور آ تا ہے‘ جب پرانے رجحانات اور عادتیں نئے حالات پہ قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں اور فرسودہ و غیر لچکدار اداروںکے خاتمہ کیلئے تشدد کی ضرورت پڑتی ہے ‘جو جمود کو توڑ کے نئی نشو ونما کیلئے راستہ صاف کرتا ہے‘تاہم وہ لوگ جو ہر حال میں انسانی رویوںکو قانون کی تادیب کے ذریعے کنٹرول کرنے پہ مصر ہیں‘وہ فطرت انسانی کی ازلی جدلیات سے ناواقف ہیں‘ لیکن ذرا سی کسر نفسی اور تھوڑی سی دیانت انہیں اس امر کا یقین دلانے کیلئے کافی ہو گی کہ زندگی اور کائنات کا تنوع اور بوقلمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطہ سے باہر ہے۔اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ‘جو انسانیت پہ حاوی ہے‘قانون کا رہین ِ منت نہیں‘ بلکہ ان کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور فطرت انسانی ہے ۔فی الوقت ہمارا مخمصہ یہ ہے کہ ہم صحت‘تعلیم اورقانون سمیت دیگرشعبوں میں پُرامن اصلاحات کا تسلسل قائم نہیں رکھ پائے اوران شعبوں سے منسلک ماہرین نے تغیر کے فطری عمل کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے خود جمود میں آسودگی تلاش کر لی۔ہر عمل وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے‘ لیکن اہل جبر نہایت انکساری کے ساتھ اس محاسبہ میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے اور یہی فرض کر لیتے ہیں کہ یہ زندگی کی خارجی طاقتوں کا منفعل نتیجہ ہے۔شاید‘ہمارے ارباب بست و کشاد آزادی سے خائف ہیں اور وہ کھلے دل کے ساتھ زندگی کے کسی پہلو کو بھی ارتقاء پذیر رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اہل مغرب نے انہی غیرمشروط فکری آزادیوں اور جمہوری روایات کے وسیلے ذہنی ارتقاء کا سفر طے کرکے فلاحی معاشرے تشکیل دینے کی منزل پائی۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے عہد کے مسائل زیادہ پیچیدہ ہوں گے‘ کیونکہ الیکٹرنک اور سوشل میڈیا جیسی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے انسانوں کو مربوط کرکے عام لوگوں کے دل و دماغ سے اخلاقی حدود اور قانون کے احترام کا اثر کم کر دیا؛چنانچہ ابلاغیات کے آرٹ کو برتنے والی قوتیںجب چاہیں‘انسان کی تمام قوتوں کو تحریک دیکر کشمکش حیات کو تند وتیز بنا دیتی ہیں۔اس لئے لوگ جلدی میں فیصلہ کرکے دیر تک کف افسوس مَلنے کے آشوب میں مبتلا ہو چکے ہیں؛چنانچہ ہمارے سماج میں بڑھتی ہوئی اسی حساسیت نے گروہی کشمکش کو ریاست کی جزیات تک پہنچا دیا اورملکی ادارے‘ عدالتیں‘ پارلیمنٹ‘طبی اور تعلیمی شعبوں سمیت ریاستی وجود کے اندر پنپنے والے پریشر گروپ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں۔ان طاقتور گروہوں کے مابین جاری مبارزت کو قانون کی طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔
بہتری اسی میں ہو گی کہ پی آئی سی تنازعے کو ڈاکٹرز اور وکلاء کی لیڈرشپ کے حوالے کر دیا جائے اور ہمیں امید ہے کہ وہی اس کا قابل ِعمل حل نکال سکتے ہیں۔بصورت ِدیگر وکلاء کو دبانے کے نتیجہ میں پوراعدالتی ڈھانچہ ہل کے رہ جائے گا اورشاید وکیلوں کیخلاف قانونی محاذ آرائی کو مہمیز دینے والوں کا مقصد بھی عدالتوں کو آزمائش میں ڈالنا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved