فیصلہ ‘جو کافی عرصہ پہلے لکھا جا چکا تھا‘ اس کو سنا دیا گیا۔ تفصیلی فیصلہ دیکھئے کب آتا ہے؟ لیکن آنے والے فیصلے کے چندپیراگراف یہ کہتے ہیں کہ جنرل پرویزمشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا۔ یہ الزام درست ہے‘ لیکن پہلی مرتبہ جب انہوں نے نواز حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے اس عمل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جائز قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا : '' ملک کو لوٹ مار کا قلعہ بنا دیا گیا تھا‘ اس لئے جنرل پرویزمشرف کا فیصلہ درست ہے‘ اس لئے ہم انہیں تین سال تک موقع دیتے ہیں ‘ پھر وہ انتخابات کروائیں گے‘‘۔ آگے چلئے‘ اسی عدلیہ نے انہیں31 دسمبر2007ء تک وردی میں رہنے کی اجا زت دے دی‘ یعنی جب آپ کسی سول حکومت کے حکمران کوبحیثیت ِآرمی چیف قانونی جواز دے دیتے ہیں‘ تواس کا اٹھایا ہوا فوجی قانون کے تحت کوئی ا قدام‘ غداری کے زمرے میں کیسے آ سکتا ہے؟
اسلام کی رو سے کسی بھی مقدمہ میں ثبوت فراہم کرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں ؛ '' شہادت‘‘ اور ''قسامت ‘‘ اور شہادت کے سلسلہ میں گواہ کا عادل ہونا‘ اولین شرط ہے۔ خائن اور‘خائنہ کی شہا دت جائز نہیںاور نہ ہی دشمن کی شہادت قابل قبول ہوسکتی ہے۔ میاں نواز شریف نے بارہ اکتوبر1999ء کو اپنی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کا تختہ الٹنے پر نہ جانے کیوںپسپائی اختیار کی؟ کیونکہ وہ کہتے رہے کہ وہ غاصب کا محاسبہ کرتے ہوئے بارہ اکتوبر کے غیر قانونی اقدام کیخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے‘لیکن نہ جانے کس کس کو بچانے کیلئے یا عزت ِسادات کی حفاظت کیلئے صرف تین نومبر2007 ء کی ایمر جنسی نافذ کرنے پر جنرل پرویز مشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔ اگر غداری کا یہ مقدمہ درج ہوجاتا ہے تو کیا سابق صدر رفیق تارڑ کو بھی اس مقدمے میں سزا دی جائے گی؟ کیونکہ بارہ اکتوبر1999ء سے21 جون2001ء تک تقریباً بیس ماہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ہر قانونی یاغیر قانونی عمل میں برابر کے معاون ومددگار بنے رہے ۔
1973ء کے آئین کی اس کلاز کو جس کے تحت غداری کے الزامات کا مقدمہ قائم کیا گیا‘ جس کی تفصیلات کوسامنے رکھیں تواس کے مطابق ‘اگر کوئی بھی شخص طاقت کے استعمال سے یا کسی بھی طریقے سے آئین کو پامال کرتا ہے‘معطل کرتا ہے یا اس کی تنسیخ کرتا ہے‘ تو وہ بغاوت کا مرتکب سمجھا جائے گا اور اگر کوئی بھی شخص آئین کی پامالی‘ تنسیخ یا اسے معطل کرنے کے عمل میں کسی بھی طریقے سے مدد گار بنتا ہے‘ وہ بھی اس جرم میں برابر کا حصہ دار ہو گا اور اسی سزا کا مستحق ہو گا‘ جو آئین پامال کرنے والے شخص کیلئے مختص ہو گی اور کوئی بھی عدالت بشمول ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کو توڑنے‘ معطل کرنے کے عمل کو قانونی جواز فراہم نہیں کر سکتی اور ایسا کرنے والے اسی سز اکے مستحق ہوں گے‘ جو آرٹیکل چھ کے تحت دوسروں کیلئے تجویز کی جائے گی اور پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کیلئے سزا مقرر کرے گی‘ جنہیں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ہو۔
اب‘ جن لوگوں نے جنرل پرویزمشرف کے فوجی اقدام کو جائز اور درست قرار دیا‘ ان پر مقدمہ نہ چلانا سمجھ میں نہیں آتا۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر انتہائی چالاکی سے جنرل پرویزمشرف کے بارہ اکتوبر کو حکومت کو بر طرف کرنے کے عمل کو بائی پاس کرتے ہوئے اس بات پر زور دیئے جا رہے ہیں کہ صرف تین نومبر کے '' غیر آئینی‘‘ اقدامات پر ہی جنرل پرویزمشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے‘اگریہ فیصلہ کرنیوالوں کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے بارہ اکتوبر کو بائی پاس کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی تین نومبر کو لگائی جانے والی ایمر جنسی کا جائزہ لیا جائے‘ توپھرجنرل پرویزمشرف کی تین نومبر کوایمرجنسی میں لکھا تھا '' اس وقت صورتحال یہ ہو چکی کہ حکومت ِوقت کیلئے اپنے معاملات کو آئین کے تحت انجام دینا بہت ہی مشکل ہو چکا ہے اور جب ملک اس طرح کی صورتحال پر پہنچ جائے‘ تو ملکی معاملات اور سلامتی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدمات کرنے کیلئے آئین خاموش ہے۔ سو‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے کچھ غیر معمولی اقدامات کئے جائیں‘‘ ۔
اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا‘ جس میں وزیر اعظم شوکت عزیز‘ چاروں صوبوں کے گورنرز‘ چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ملک کی تمام مسلح افواج کے سروسز چیفس‘وائس چیف آف آرمی سٹاف سمیت مسلح افواج کے کور کمانڈرز شریک ہوئے‘ اس اہم اجلاس میں ملک کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد‘ جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت ِچیف آف آرمی سٹاف کہا کہ میں ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور آئین کے تعطل کا اعلان کرتاہوںاور ساتھ ہی ایمر جنسی کے تحت پی سی اوآرڈر نمبر ایک 2007ء جاری کرتے ہوئے سوائے آئین کی بنیادی حقوق سے متعلق 9,10,15,16,17,19, 25 کے باقی تمام شقوں کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کا اعلان کرتا ہوں( کیا آئین کو مکمل طور پر معطل کیا گیا؟)ایمرجنسی کے نفاذ کے 42 دنوں کے بعد ملک میں نافذ ایمر جنسی کو ختم کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے آئین بحال کرنے اور ساتھ ہی تمام ججوں کوملکی آئین کے تحت ایک بار پھر حلف لینے کا حکم جاری کیا۔اب ‘اگر جنرل پرویز مشرف کیخلاف تین نومبر کے اقدمات کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کے تحت کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی جاتی ہے‘ تو یہ کارروائی اس وقت( تین نومبر تک) نافذالعمل آئین اور قانون کے تحت ہو نی چاہیے‘ نہ کہ اس اقدام کے ڈھائی سال بعد اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بنائے جانیوالے قانون کے تحت تین نومبر کو آئین کے آرٹیکل چھ کی طرف دیکھا جائے۔ جنرل پرویزمشرف نے تین نومبر کو سوائے آئین کو التوا میں رکھنے کے نہ تو آئین کو تہہ و بالا کیا اور نہ ہی اسے منسوخ کرنے کا کوئی حکم جاری کیااور آئین کو التوا میں رکھنا کسی طور بھی غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔ الغرض جنرل پرویز مشرف نے تین نومبر کو نہ تو کسی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا‘نہ ہی مجلس شوریٰ ‘یعنی پارلیمنٹ کو ختم کیا‘ بلکہ چوبیس نومبر2007 ء کو سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بنچ نے جنرل مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو جائز اور درست قرار دیتے ہوئے اس کی با قاعدہ توثیق بھی کی ۔
ایک انتہائی اہم پہلو یہ بھی سامنے رکھیں کہ 42روزہ نافذ کردہ ایمر جنسی کے دوران ہی جنرل پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کا اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے جنرل کیانی کو اپنی جگہ آرمی چیف مقرر کیا۔اگر قانون کی زبان میں بات کی جائے تو تین نومبر کو نا فذالعمل قانون کے مطابق ‘جنرل پرویز مشرف کیخلاف تین نومبر کے اقدامات پرآرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی صورت میں غداری کا مقدمہ چلایا جانا سمجھ میں نہیں آتا۔تین نومبر کو ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے جنرل مشرف کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججز اور ان کے اہل خانہ کی نظر بندی کے احکامات جاری کئے تھے‘ لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے جنرل پرویز مشرف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے فیصلہ جاری کیا کہ '' یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ ججز کو نظر بند رکھنے کے احکامات جنرل پرویز مشرف نے دیئے تھے‘‘۔
یہ سب باتیں اور معاملات اپنی جگہ‘ لیکن جو جنرل پرویز مشرف کے شریک ِ جرم تھے‘ ان کے بارے میں خامشی از خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔