تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     19-12-2019

کون سی خارجہ پالیسی؟

پاکستان ایک آزاد ملک ہے یا زنجیروں میں جکڑی ہوئی ذیلی ریاست؟ ایک زنجیر آئی ایم ایف کی، ایک ورلڈ بینک کی! ایک فلاں ملک کی! ایک فلاں بادشاہت کی! واہ! کیا آزادی ہے!؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
تاریخ نے پاکستان کو ایک سنہری موقع دیا! امتِ مسلمہ کی قیادت کی نشست کب سے خالی ہے۔ ترکی کے اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر نے کمرِ ہمت باندھی۔ پاکستان کو آواز دی کہ آئو، اس نشست کو پُر کریں۔ امت کی قیادت کریں۔ پاکستان نے پہلے ہامی بھری۔ پھر تذبذب میں پڑ گیا؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
آخر کار معذرت کر لی! انکار کر دیا... اس لیے کہ فلاں دربار سے اجازت نہیں ملی! دعویٰ یہ تھا کہ اے قوم! جھکوں گا نہ جھکنے دوں گا۔
آن نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پشتِ من
آن منم کاں درمیانِ خاک و خون بینی سری
میں وہ نہیں کہ لڑائی کے دن، تم میری پیٹھ دیکھو! میں تو وہ ہوں جس کا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے!
کیا کیا دعوے اور وعدے تھے۔ بقول اقبالؔ؎
ما رنگِ شوخ و بوئی پریشیدہ نیستیم
مائیم آنچہ می روَد اندر دل و دماغ
ہم محض شوخ رنگ نہیں نہ ہی پریشان خوشبو! ہم تو وہ ہیں جو دل و دماغ کے اندر اتر جاتے ہیں!
ایک ایک کر کے سارے دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے! پہلے آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیار ڈالے! پھر عشروں کے آزمائے ہوئے امرا و عمائدین کا حصار اپنے گرد باندھا۔ اور اب ایک نادر موقع ضائع کر دیا۔ امتِ مسلمہ کی قیادت نے خود آگے بڑھ کر دعوت دی تھی کہ آئو مجھے سنبھالو! مگر افسوس! صد افسوس!
وزیراعظم عمران خان بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں! مہاتیر اور اردوان کے ساتھ ان کی شمولیت ایک ایسی ٹیم بناتی جو مسلم امہ کو صدیوں بعد نصیب ہوتی!
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے جو تقریر کی، جس طرح مسلمانوں کے مسائل کا ذکر کیا، جس طرح اسلاموفوبیا کو للکارا، اس کی مثال کم از کم ہم عصر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی سے اردوان اور مہاتیر محمد کو حوصلہ ہوا۔ انہی دنوں یہ طے ہوا کہ تینوں ممالک الیکٹرانک میڈیا کا مشترکہ چینل لانچ کر کے اسلاموفوبیا کا سدِّباب کریں گے!
اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی وزیراعظم کا جنرل اسمبلی والا پُرشکوہ اور دنداں شکن خطاب کچھ ملکوں کو پسند نہیں آیا۔ مقدس مقامات کی بدولت امّہ کی قیادت انہیں By default مل تو گئی مگر تقاضے پورے نہ ہو سکے! خلا ہمیشہ نہیں رہتا۔ اُسے پُر ہونا ہوتا ہے!؎
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے/ تخت خالی نہیں رہا کرتا
میڈیا میں مسلمان مار کھا رہے ہیں! اسلام دشمن پروپیگنڈے کا آج تک منظم جواب نہیں دیا جا سکا۔ اکا دکا انفرادی کاوشیں لائق تحسین سہی مگر مداوا نہیں کر سکتیں۔ چینل کے بعد مہاتیر اور اردوان نے کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ جن کو بلا یااور جن کو مدعو نہیں کیا، اس کی ان کے پاس وجوہات ہیں! جنہیں قیادت اپنے ہاتھ سے پھسلتی ہوئی دکھائی دی، وہ متحرک ہو گئے۔ پاکستان کو روکنا اس لیے آسان تھا کہ پاکستان احتیاج کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ اسے قرض چاہئے۔ تیل اور گیس بھی! عمران خان جری سہی، مگر جس ملک کی قیادت فرما رہے ہیں، وہ قلاش ہے! بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام کا مارا ہوا! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت طوعاً و کرہاً، اپنے پیشروئوں کی طرح نکلی۔ کم از کم کچھ شعبوں اور کچھ دائروں کے حوالے سے تو شک ہی نہیں کہ لکیر کی فقیر ٹھہری!
عربوں کا احساسِ برتری مآج کا مسئلہ نہیں، صدیوں پرانا ہے۔ بنو امیہ کی حکومت کے اواخر میں تو یہ عالم تھا کہ نماز پڑھانے کیلئے بھی عرب امام کو ترجیح دی جاتی تھی! امریکہ میں بسنے والے پاکستانی سکالر، بتاتے ہیں کہ قرآن و حدیث یا فقہ کے حوالے سے کوئی مسئلہ آن پڑے تو عرب غیر عربوں کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتے! یہ اہلِ زبان ہمیشہ سے دوسروں کو گونگا (عجمی) سمجھتے آئے ہیں۔ افتاد یہ آن پڑی کہ بڑے بڑے نابغے اور عبقری غیر عرب تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام بخاریؒ، امام ترمذیؒ سب! عجم کے دیاروں سے تھے!؎
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
صلاح الدین ایوبی کُرد تھا۔ رہی سہی کسر سلجوقیوں اور پھر سلطنت عثمانیہ نے نکال دی۔ الپ ارسلاں اور ملک شاہ جیسے طاقت ور فاتحین کے سامنے خوابیدہ سلطنتِ عباسیہ کی کیا حقیقت تھی مگر احترام یہ لوگ پھر بھی کرتے تھے۔
سلطنتِ عثمانیہ کی پیٹھ میں جس طرح خنجر بھونکا گیا، تاریخ اس کی شاہد ہے اور یہ شہادت رو رو کر ، بلک بلک کر دیتی ہے! یورپی استعمار نے عربوں کو قومیت کی بنیاد پر ترکوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ شریفِ مکہ اور مصر میں برطانوی سفیر میکموہن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں وعدے وعید ہوئے۔ یہ سلسلہ بالآخر اسرائیل کے قیام پر منتج ہوا۔ عربوں کو چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں تو ملیں مگر اسرائیل کا خنجر بھی سینے میں گڑ گیا۔ ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جو آپس میں متحد نہیں ہو سکتے وہ عالمِ اسلام کی قیادت کیا اور کیسے کریں گے۔ 1958ء میں مصر اور شام نے دونوں ملکوں کو ملا کر ''متحدہ عرب ری پبلک‘‘ کی بنیاد ڈالی، یہ اتحاد مشکل سے تین سال چل سکا۔ عراق نے کویت پر حملہ کیا‘ اور امریکہ نے عراق پر ''کارپٹ بمباری‘‘ کی تو اس کے جہاز اردگرد کے عرب ممالک سے اُڑ کر جاتے تھے۔ آج قطر ایک طرف ہے اور یو اے ای اور دوسرے عرب ممالک دوسری طرف! آمریت، احساسِ برتری، عرب عجم کی تمیز‘ یہ سب عوامل مل کر ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں!
آمریت سے پاک ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کا مشترکہ سٹیج، عالمِ اسلام کی قیادت کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت، صنعتی اور تکنیکی انفراسٹرکچر، دوسرے تمام مسلمان ملکوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر پاکستان پیچھے ہٹ گیا؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملائیشیا اور ترکی ہی نے کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ملائیشیا کو سزا دینے کے لیے بھارت نے ملائیشیا سے درآمدات بند کر دیں۔ ملائیشیا کے پام آئل کا بھارت بہت بڑا خریدار تھا۔ پچھلے مالی سال کے دوران ملائیشیا کی بھارت کو برآمدات تقریباً گیارہ ارب ڈالر کی تھیں جبکہ بھارت سے درآمدات سوا چھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں تھیں۔ اس منافع بخش دو طرفہ تجارت کی ملائیشیا نے پاکستان کی خاطر قربانی دی اور اپنے مؤقف سے انحراف نہ کیا۔ ترکی نے بھی مکمل حمایت کی۔ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں سے بھی کسی ایک نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ کچھ نے کھلم کھلا اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ کچھ نے صبر کی تلقین کی! اس وقت بھارت مشرقِ وسطیٰ پر ایسا غلبہ حاصل کر چکا ہے جو پاکستان کے نقطۂ نظر سے قابلِ رشک ہرگز نہیں! متحدہ عرب امارات میں ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ دو طرفہ سرمایہ کاریاں زوروں پر ہیں! تعلقات مصافحہ کے نہیں، معانقہ کے ہیں!
نظر کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے مریض کو کہا کہ سامنے والا بورڈ پڑھے۔ مریض نے پوچھا: کون سا بورڈ؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ جو دیوار پر لگا ہے۔ مریض نے پوچھا: کون سی دیوار؟ اگر وہ پوچھتا کہ سامنے دیکھ کر بتائو پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں ہے؟ تو وہ یہی پوچھتا کہ کون سی خارجہ پالیسی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved