تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-12-2019

نمونے کا رد عمل ‘اشتہار ’’تخاطب‘‘ اور علی ارمانؔ

نمونے کا رد عمل
جنرل پرویز مشرف کو سزا کا سن کر دل باغ باغ ہو گیا۔ اُس کا اصلی جرم یہ تھا‘ جو اُس نے میرا جہاز بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دیا تھا؛ اگرچہ وہاں بھی میرے دوست ہی بیٹھے تھے ‘کیونکہ میرا کاروبار وہاں بھی ہے‘ جس کا وہ خیال رکھتے ہیں‘ ورنہ مارشل لاء لگانا میرے نزدیک کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں‘ بلکہ ایک نہایت قابلِ تعریف کام ہے‘ کیونکہ اگر جنرل ضیاء الحق مارشل لاء نہ لگاتے تو میں اس مرتبے تک کیسے پہنچتا ‘جبکہ میرا خاندان نسلوں تک ان کا شکر گزار رہے گا اور یہ جو میں نے اُسے دوران پرواز ہی برخواست کر دیا تھا‘ تو اس لیے کہ وہ آتے ہی میرا گھونٹ بھر لیتا‘ جو اس نے بھر بھی لیا اور یہ عجیب بات ہے کہ اُس کی سزا کا سُنکر میری طبیعت بحال ہونا شروع ہو گئی ہے ‘تاہم میں چند سال تک ہوائی سفر کرنے کے قابل نہیں ہوں کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ بھی یہی کہتی ہے‘ ہیں جی؟اس خوشی میں آج جشن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں نے پانچ کلو میٹر کی دوڑ لگائی اور پچاس بیٹھکیں اور چالیس ڈنڈ نکالے ہیں۔ میں نے پرہیزی کھانوں کا آرڈر بھی دے دیا ہے‘ جس میں روغن جوش‘ سری پائے‘ مغز اور سیخ کباب شامل ہیں‘ جبکہ خوشی کے اس موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جائے گا اور یہ جشن رات بھر جاری رہے گا۔ ملک بھر سے کارکنوں کے مبارک بادی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ چوہدری احسن اقبال تو خوشی سے بیہوش ہو گئے تھے ‘جو ابھی تک ہوش میں نہیں آئے؛ امید ہے کچھ دن میں ہوش میں آ جائیں گے‘ جبکہ مارے مسرت کے راجہ ظفر الحق پر ویسے ہی سکتہ طاری ہو گیا ہے‘ وہ منہ سے بولتے نہ ہلتے جُلتے ہیں‘ خدا کرے وہ جلد ہوش میں آ جائیں۔ مریم نے خوشی میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
تلاشِ گمشدہ
ایک راس بھینس‘ حلیہ ندارد‘ کیونکہ سب بھینسیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں‘ ہم نے آج تک کوئی بھینس دوسری سے مختلف نہیں دیکھی‘ چارروز سے غائب ہے‘ غالباً رسّہ توڑ کر بھاگی ہے ‘کیونکہ اگر کوئی چور لے گیا ہوتا تو اس کا کٹا بھی ساتھ لے جاتا‘ جس نے ماں کی جدائی میں ڈکرا ڈکرا کر ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے‘ اگر کسی کو ملی ہو تو براہِ کرم واپس کر دیں‘ ورنہ چارہ ڈال ڈال کر ہی اس کی رڑی نکل جائے گی‘ کیونکہ دودھ سے خشک ہو چکی ہے اور ایک مفت کا بوجھ ثابت ہو گی۔ بھُورے رنگ کے رسّے سے اس کی شناخت ہو سکتی ہے‘ اُدھر ہماری اہلیہ صاحبہ نے اس کے غائب ہو جانے پر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے؛ حالانکہ بھینس کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہو سکتا ہے؟ ماسوائے اس کے کہ دونوں کا وزن کم و بیش ایک ہی جتنا ہے۔ اس فضول واویلا پر اُسے ایک ہلکا سا تھپڑ بھی لگا چکا ہوں‘ لیکن وہ اپنی ضد سے باز نہیں آ رہی‘ کیونکہ اس کے آگے وہ روزانہ بین بھی بجایا کرتی تھی۔ جس کے پاس ہو براہِ کرم میری نہ سہی‘ میری اہلیہ کی خاطر واپس کر دے۔
المشتہر: محروم خان ولد مرحوم خان‘ صدر بازار‘ جھنگ
کلیّاتِ بشیر رحمانی
تخاطب کے نام سے یہ کتاب رحمانیہ مرکز لاہور نے چھاپی ہے۔ انتساب مرحوم والدین کے نام ہے‘ جنہوں نے اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے شاعر کو شعور بخشا۔ دیباچہ نگاروں اور رائے دینے والوں میں حفیظ صدیقی‘ محمد عبدالحق اعوان‘ پروفیسر حافظ ظفر عادل‘ میاں شیر عالم اور محمد نوید مرزا شامل ہیں۔ پیش لفظ شاعر کا بقلم خود ہے۔ کتاب میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں اور یہ دو کتابوں ''سلگتا سمندر‘‘ اور ''تخاطب‘‘ کا مجموعہ ہے۔ سرورق عدنان بشیر نے بنایا ہے۔ 
روٹین کی شاعری ہے‘ کیونکہ یہ کتاب چھپ چکی ہے اورکوئی شاعر یا کسی اور کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:؎
جو خریدار تھا شہکاروں کا
اب وہ افلاس ہے بازاروں کا
مجھ کو ٹھکرائو نہ ملبے کی طرح
کرب ہوں ٹوٹتی دیواروں کا
میں جو گزرا ہوں کبھی تیشہ بکف
دل دھڑکنے لگا کہساروں کا
آخر میں اختر عثمان کے نام علی ارمانؔ کی غزل‘ ترتیب نزولی میں:
نہ ڈال موت کی خاموشی میں خلل میرے دوست
جنازہ ہو کے جنازے کے ساتھ چل میرے دوست
ہوا کے ہاتھ مجھے نیک خواہشات نہ بھیج
ذرا سی دیر میرے ساتھ آگے جل میرے دوست
یہ میرے بھائی ابھی تک تو میرے بازو ہیں
مگر وہ بازو کو جو ہو چکے ہیں شل میرے دوست
نکاںکر چکا میں کب کا اس عفیفہ سے
سو پردہ کرتی نہیں مجھ سے اب اجل میرے دوست
وہ ایک پل جہاں صدیوں کے پائوں ٹوٹ گئے
بدل سکتے تو بدل دے وہ ایک پل میرے دوست
کسی نے کان بھرے ہیں ترے‘ کچھ آنکھیں کھول
میںتجھ پہ وار نہیں کر رہا‘سنبھل میرے دوست
نکل نہ جائے ترے پائوں سے زمین کہیں
ستاروں کے لیے اتنا بھی مت اُچھل میرے دوست
یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے تیرے بغیر
یہ فلم میں نے نہیں دیکھنی‘ بدل میرے دوست
میرے سخن ہیں تری ہی شنید کے دم سے
نہ تُو سُنے تو میں اک حرفِ بے محل میرے دوست
نہیں مرا کوئی اُستاد اس زمانے میں 
مجھے غزل نے سکھائی ہے خود غزل میرے دوست
آج کا مطلع
ویسے ہی کام ہیں ابھی آگے پڑے ہوئے
یونہی نہیں ہم آپ کے پیچھے پڑے ہوئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved