دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہے‘ اُس سے مکمل اتفاق کیا جائے۔ یہ بالکل عمومی نوعیت کی فطری خواہش ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہر بات سے مکمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر باتیں اختلافِ رائے کی نذر ہوتی ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی کچھ کہے اور اُس سے صرف اتفاق کیا جائے۔ ہر بات کسی نہ کسی سطح پر دوسروں کی رائے یا مفادات سے متصادم تو ہوتی ہی ہے۔
کیا اختلافِ رائے لازم ہے؟ اس سوال کا جواب نفی یا اثبات میں دینے سے پیشتر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بات کی نوعیت کیا ہے اور اُس کے ممکنہ مضمرات کیا ہیں اور جو کچھ کہا گیا ہے‘ اُس کا تناظر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی موضوع پر کوئی بھی بات اپنے اندر مختلف نوعیت کے اثرات رکھتی ہے۔ متعلقہ فریق جب یہ بات سنتا ہے تو جُزبُز ہوتا ہے‘ جو بات کسی کے موقف سے ٹکرا رہی ہو وہ اختلافِ رائے کو جنم دیتی ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے کی نفسی و فکری ساخت کا حصہ ہے۔ ہم سب شعوری یا تحت الشعوری سطح پر اس حقیقت سے واقف ہی نہیں ہیں‘ بلکہ اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔
ہم روزمرہ زندگی میں بہت سے معاملات کو اپنی رائے کے خلاف پاتے ہیں تو خود کو اختلافِ رائے پر مجبور بھی پاتے ہیں۔ صبح سے شام تک ہم متعدد نکات پر اپنی الگ رائے دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ دن بھر میں متعدد افراد سے گفتگو ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بہت سے نکات ہماری رائے سے متصادم ہوتے ہیں۔ جہاں خیالات متصادم ہوں وہاں اپنا موقف ٹھوس اور جامع انداز سے پیش کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ اگر اختلافِ رائے کی موجودگی میں بھی کوئی اپنا موقف بیان کرنے سے گریز کرے تو ابہام پیدا ہوتا ہے‘ بہت سے نکات تشنۂ وضاحت رہ جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اختلافِ رائے کا مطلب لڑنا جھگڑنا نہیں۔ ہم یومیہ بنیاد پر بہت سے معاملات کو اپنی سوچ‘ مرضی اور مفاد کے منافی پاکر اپنی رائے یا موقف دینا فرض کے درجے میں رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنا موقف پیش کرنا ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ خاموش رہنے یا ادھوری بات کرنے کی صورت میں کوئی بھی آپ کے موقف کو سمجھ نہیں سکتا اور یوں اختلافِ رائے مزید شدت اختیار کرتا ہے‘ فکری پیچیدگی کا گراف مزید بلند ہو جاتا ہے۔ ہاں‘ یہ لازم نہیں کہ جہاں بھی ذرا سا اختلافِ رائے ہو وہاں اپنی رائے لازمی طور پر بیان کی جائے۔ بعض چھوٹی باتیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ اُن پر بھرپور انداز سے‘ جم کر رائے دی جائے۔
بہت سوں کو بات بات پر اپنی رائے دینے کی عادت ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عادت اِس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ لوگ اُن سے چِڑنے لگتے ہیں۔ رائے دینے کی عادت اگر پختہ ہوجائے تو انسان بہت سی غیر اہم یا معمول کی باتوں پر بھی کچھ کہنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ گویا ایک ذہنی مرض ہوا۔ بولنے کا‘ بلکہ بولتے رہنے کا ہَوکا انسان کو شدید ناپسندیدہ بھی بناسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جنہیں بات بے بات کچھ نہ کچھ کہنے کی عادت پڑ جائے‘ وہ کسی بھی موقع پر خاموش رہنے کو گناہ کے درجے میں رکھتے ہیں۔ اور بلا ضرورت بولنے کی بنیاد پر لوگ اُن سے کترانے لگتے ہیں۔ ہر معاشرے میں فضول نوعیت کی بحث کو انتہائی ناپسند کیا جاتا ہے اور اُس سے بچنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ ایسے میں ہر وہ آدمی ناپسندیدہ ٹھہرے گا جو بلا جواز بحث چھیڑنے یا اُسے طُول دینے کا عادی ہو۔ معاملہ گھر کا ہو یا خاندان‘ کمیونٹی کا ہو یا مجموعی طور پر پورے معاشرے‘ عوام کے منتخب نمائندوں کے ایوان کا ہو یا کابینہ کی سطح کا ...
غیر ضروری نکات کو اُجاگر کرنے والی بحث کو ناپسند ہی کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ فضول بحث ہر گھر میں ہوتی ہے۔ ہاں‘ ہونی نہیں چاہیے کیونکہ یہ وقت اور توانائی کے ضیاع کے علاوہ تعلقات کیلئے شدید منفی اثرات کی حامل حقیقت بھی ہے۔
جب ہم کسی سے بحث کر رہے ہوتے ہیں تو اپنا موقف بیان کرنے میں جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اِس روش کا فریقِ ثانی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم غیر ضروری طور پر بحث میں الجھ کر فریقِ ثانی کو اس بات کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلط موقف کو بھی درست ثابت کرے اور ہر نکتہ مضبوط کرلے۔ کسی بھی موضوع پر کسی سے بحث لازم ہی ٹھہرے تو فکر و بیان کی گرما گرمی میں آپ کو اس بات کا خیال تو رکھنا ہی چاہیے کہ کہاں تک جانا ہے۔ بحث کی خصوصیت یہی ہے کہ اِسے سمیٹنا اور قابو میں رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ فریقین جب جذبات کے دریا میں بہتے ہوئے بولنے پر آتے ہیں تو خود کو دھارے کے حوالے کرکے بہت دور نکل جاتے ہیں۔ ایسے میں مثبت منفی اور منفی مثبت ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بحث میں الجھنے کے بعد انسان کو خود بھی خیال نہیں رہتا کہ وہ کب اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے فریقِ ثانی کو فائدہ پہنچانے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ ایسے میں اس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ ہم کب بحث ترک کرکے فریقِ ثانی کو غلط ثابت ہونے کا موقع دیں! کسی بھی مہذب ماحول میں اہمیت بولنے سے زیادہ اس بات کی ہے کہ کب خاموش رہا جائے۔ دلچسپ اور معنی خیز حقیقت یہ ہے کہ جنہیں بولنا آتا ہے ‘وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ؎
یہ خامُشی ہی دلیلِ سُخن شناسی ہے
مجھے نہ بولنا آتا تو بولتا رہتا!
عام مشاہدہ ہے کہ جن کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہ ہو یا بولنا ہی نہ آتا ہو‘ وہ زیادہ بولتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
خالی برتن ہی کھنکتا ہے بہت‘ یاد رہے
علم رکھتے ہو تو پھر بحث میں الجھا نہ کرو!
ایک زمانہ تھا کہ لوگ کسی بھی حوالے سے بات کرتے وقت خیالات کے تبادلے کو اہمیت دیتے تھے اور گرما گرم بحث میں الجھنے سے گریزاں رہتے تھے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ گفتگو کے نام پر بحث چھیڑ کر تقریر جھاڑنے کے شوق نے اس معاملے کی ساری معنویت پر پانی پھیر دیا ہے۔ عارف امام گزرے ہوئے زمانے کا ماتم کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
ہائے وہ حلقۂ اربابِ فراست کہ جہاں
گفتگو ہوتی تھی‘ تقریر نہیں ہوتی تھی!
قدر و قیمت کے حوالے سے دنیا کوئی کوئی بھی چیز قدرت کے عطا کردہ اُس تحفے سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی جسے وقت کہا جاتا ہے۔ وقت ہمیں اِس لیے دیا گیا ہے کہ دنیا میں قیام کے دوران کچھ ایسا کریں کہ لوگ تادیر یاد رکھیں۔ یہ وقت فضول بحث میں ضائع کرنے اور اپنی ہر بات منوانے کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ مہذّب معاشروں کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ غیر ضروری گفتگو اور بحث سے گریز کرتے ہوئے لوگ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ یعنی بولنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ عمل ہی وہ معیار ہے‘ جس پر کسی انسان کو پرکھا جانا چاہیے۔ بولنے کا وصف تو سبھی میں پایا جاتا ہے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ خالی برتن کی طرح کھنکنے پر بامقصد و بامعنی خاموشی کو ترجیح دی جائے۔