تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-12-2019

مشرف، مودی اور ٹرمپ

زندگی بھی عجیب تماشہ ہے۔ وہ چیزیں ہو جاتی ہیں جن کا آپ نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ شاید ہمارا ذہن ایک جگہ رک جاتا ہے اور اس کے بعد ہمارے اندر آگے دیکھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ بات کہتا ہوں‘ لفظ سازش اس وقت ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے‘ جب ہمارا ذہن اپنے ارد گرد کی صورت حال یا مستقبل کو پڑھنے اور سمجھنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ جہاں ہمارا ذہن رک جاتا ہے وہاں سے سازش شروع ہوتی ہے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں جب دنیا بدل رہی تھی۔ سرد جنگ ختم ہو گئی تھی۔ افغانستان میں روس کو شکست ہو گئی تھی۔ روس کئی ریاستوں میں بٹ گیا تھا۔ برلن دیوار گر گئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت لوٹ آئی تھی اور امریکہ تن تنہا سپر پاور کا درجہ پا چکا تھا۔ امریکہ میں ڈیموکریٹس کی آٹھ برس سے حکومت اور بل کلنٹن صدر تھے۔ تب ہم سوچتے تھے‘ مارشل لاء کا دور گزر چکا ہے۔ اب کوئی مارشل لاء نہیں لگا سکے گا۔ اب جمہوریت کا بول بالا ہو گا۔ لیکن پھر ایک رات ہمیں پتہ چلا‘ نواز شریف صاحب نے حسب عادت ایسا کام کر دیا ہے جس کا نتیجہ حکومت کے خاتمے کی شکل میں نکلنا تھا۔ میری نواز شریف کے بارے میں پکی رائے ہے‘ آپ انہیں چوتھی دفعہ بھی وزیر اعظم بنا دیں، یہ پھر خود کو جیل لے جائیں گے۔ جن حالات میں جنرل مشرف کو برطرف کیا گیا‘ اس وقت مشرف کو ہمدردی ملی تھی کہ کیسے ہو سکتا ہے‘ ملک کی فوج کا سربراہ وطن سے باہر ہو اور آپ اسے برطرف کر دیں۔ یوں جنرل مشرف کو مارشل لاء لگانے میں مدد نواز شریف نے فراہم کی تھی۔ اگر وہ جنرل مشرف کو بلا کر برطرف کر دیتے اور پھر بھی مشرف مارشل لاء لگاتے تو انہیں وہ ہمدردی نہیں ملنا تھی جو بعد میں مل گئی تھی۔ ہم غلط نکلے کہ اب مارشل لاء نہیں لگے گا۔ مارشل لگ کر رہا۔ اسی طرح ایک اور بات تقریباً سب کہتے تھے کہ عمران خان کبھی وزیر اعظم نہیں بنیں گے‘ لیکن وہ وزیر اعظم بن کر رہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج وہ کبھی اکیلے بیٹھ کر یہ سوچتے ہوں گے کہ بہتر تھا‘ میں اپوزیشن میں ہی رہتا‘ وزیر اعظم نہ بنتا۔ اسی طرح ہم سب یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں جنہوں نے مارشل لاء لگائے انہیں کبھی کوئی عدالت سزا نہیں دے سکتی۔ بلکہ عدلیہ پر یہ تنقید ہوتی تھی کہ اس نے ایک وزیر اعظم کو پھانسی دلا دی، دو وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو برطرف کر دیا، تین وزیر اعظموں‘ جونیجو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف‘ کی حکومتوں کی برطرفی کو جائز قرار دیا لیکن آمروں کو ہمیشہ نہ صرف قانونی تحفظ دیا بلکہ وہ رعایتیں بھی دیں جو انہوں نے مانگی ہی نہیں تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ پر بہت دبائو تھا کہ یہ ہمیشہ سیاسی حکمرانوں کو سزا دیتی ہے‘ لیکن آمروں سے ڈر جاتی ہے۔ 
ایک دفعہ پاکستان کی ایک اہم طاقتور شخصیت نے چند صحافیوں کو بلایا اور ملکی معاملات پر بات ہونے لگی۔ اینکر پرسن محمد مالک نے سوال اٹھایا: جناب اب حالات بدل رہے ہیں‘ اب وہ دور شاید نہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگایا جائے یا ڈنڈا چلایا جائے۔ مالک کا کہنا تھا: اچھی یا بری سیاستدانوں نے شروعات کر دی۔ چاہے جنرل مشرف باہر چلے گئے لیکن نواز شریف کی سیاسی حکومت نے جیسے تیسے ایک سابق آمر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ مالک کا کہنا تھا: ہو سکتا ہے جنرل مشرف کا کچھ نہ بگڑے لیکن پہلی دفعہ ستر سالوں میں ایک متھ تو بریک ہو گئی ہے کہ آمروں کے خلاف آئین توڑنے کے الزام پر مقدمے نہیں قائم ہو سکتے۔ مالک کے بقول‘ ہو سکتا ہے اگلی دفعہ کوئی مارشل لاء کی کوشش کرے تو اس کو سزا بھی مل جائے۔ اس پر اس شخصیت نے جواب دیا تھا: اگر ایسا ہوا تو پھر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ 
ہو سکتا ہے محمد مالک نے بھی کبھی نہ سوچا ہو کہ ان کی کہی ہوئی بات چھ ماہ کے اندر اندر پوری ہو جائے گی اور یہ کہ جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں‘ جب بندے کی عقل جواب دے جائے تو پھر وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہے۔ کچھ ماہ پہلے میں جنرل مشرف کے سابق چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل حامد جاوید مرحوم سے ملا تھا۔ ان سے تین نومبر کی ایمرجنسی پر بات ہوئی تو وہ کہنے لگے: جنرل مشرف کی یہ سب سے بڑی غلطی تھی‘ انہیں حکومتی سیاستدانوں نے غلط راہ پر لگا دیا تھا۔ جو بھی ملنے آتا‘ عدالتوں کے خلاف پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ جاتا تھا۔ ان کے کان بھرے گئے تھے کہ ایمرجنسی لگا کر ججوں کو گرفتار کر لیا جائے۔ جنرل حامد جاوید کا کہنا تھا‘ چیف آف سٹاف کی حیثیت سے میں سمجھتا تھا کہ انہیں ایمرجنسی نہیں لگانی چاہیے تھی۔ اس پر جنرل مشرف ان سے ناراض ہو گئے اور انہیں مستعفی دینا پڑا تھا۔ جنرل حامد کا کہنا تھا: بعد میں احساس ہوا‘ بہتر ہوتا‘ استعفیٰ نہ دیتا اور جنرل مشرف کو یہ غلطی نہ کرنے دیتا کہ وہ آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی لگائیں۔ جنرل حامد جاوید کے بقول‘ انہیں اگر ایمرجنسی لگانا بھی تھی تو صدر پاکستان کی حیثیت سے آرڈر پر دستخط کرتے نہ کہ آرمی چیف کی حیثیت سے۔ وہ بار بار کہتے تھے‘ جنرل مشرف سے بہت غلط فیصلہ کرایا گیا۔ جب ایک دفعہ وہ عدالت اور پارلیمنٹ سے مارشل لاء پر فیصلہ لے چکے تھے تو انہیں دوبارہ اس چکر میں نہیں پڑنا چاہیے تھا کیونکہ ان کا اقتدار ڈول رہا تھا اور سیاستدان ابھر رہے تھے‘انہیں احساس ہونا چاہیے تھا کہ یہ کام انہیں مشکلات کا شکار کرے گا۔ آج جنرل حامد جاوید ہمارے درمیان موجود نہیں‘ لیکن ان کی باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مشرف کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل حامد جاوید کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ سابق سیکرٹری اطلاعات انور محمود بھی اس وقت موجود تھے۔
لیکن اصل بات وہی ہے کہ جب آپ کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو بندہ سمجھتا ہے‘ اسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ جنرل مشرف نے اپنے دور میں ایسے کام کیے جن سے بہت نقصان ہوا۔ لوگ بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ کراچی کو ہی دیکھ لیں۔ انہوں نے وہاں ایم کیو ایم کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ وہی ایم کیو ایم جس کے بارے میں بعد میں پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اسے بھارت سے فنڈنگ ہو رہی تھی۔ یہ سب مشرف دور میں ہو رہا تھا۔ کراچی میں دس ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ جنرل مشرف نے ہی ایم کیو ایم کے تیس سے زائد ٹارگٹ کلرز کو پیرول پر رہا کیا جن پر سنگین الزامات تھے۔ کراچی میں جس طرح بارہ مئی کو ہونے والے قتل عام کو جنرل مشرف نے عوام کی طاقت قرار دیا وہ اپنی جگہ ایک ایسا جرم تھا جس نے ان کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔
اب جس طرح کا رد عمل آ رہا ہے وہ اگرچہ متوقع تھا‘ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سابق فوجی ہمیں کہتے تھے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں سے ملک کو کتنا نقصان ہوا۔ جب سے جنرل مشرف نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی تھی اس کے بعد فوجی قیادت ان سے دور ہو گئی تھی۔ وہ اب جنرل مشرف کو ایک سیاستدان سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب سابق وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر فوت ہوئے تو انہیں ملٹری پروٹوکول کے ساتھ دفن نہیں کیا گیا تھا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو جواب ملا تھا: وہ اب سیاستدان بن چکے تھے اور ایک سیاستدان کو فوجی پروٹوکول ساتھ دفن نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو جواز جنرل بابر پر اپلائی کیا گیا تھا‘ وہ اب یہاں کیوں اپلائی نہیں ہو رہا؟ جنرل مشرف بھی تو ایک سیاستدان بن چکے تھے۔ ان کی اپنی سیاسی پارٹی ہے اور وہ اس پلیٹ فورم سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے؟ 
ویسے پاکستان بھی عجیب ملک ہے۔ اکہتر کے بعد پروموشنزکا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اب سزا ملی ہے تو بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ شاید وہی جنرل حامد جاوید کی بات کہ ایمرجنسی آرمی چیف کی حیثیت سے لگائی گئی تھی لہٰذا اس میں اس وقت کے کور کمانڈرز بھی فیصلے میں شریک ہوں گے اور جنرل مشرف نے فہرست بنائی ہوئی تھی کہ کون کون اس فیصلے میں شامل تھا۔ انہونی ہو کر رہتی ہے۔ پاکستان میں جنرل مشرف کو سزائے موت ہو گئی، امریکہ میں ٹرمپ کا Impeach ہو گیا‘ جبکہ بھارت میں چند ماہ پہلے دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بننے والے مودی کے خلاف پورے بھارت میں خوفناک ہنگامے ہو رہے ہیں۔ انقلابات ہیں زمانے کے‘ لیکن اقتدار میں یہ سب باتیں کب سمجھ آتی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved