تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-12-2019

جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنائی گئی سزا

جنرل (ر) پرویز مشرف کو پاکستان میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ ایک انہونی بات ہے‘ کیونکہ آج تک پاکستان میں کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کسی فوجی سربراہ‘ چاہے وہ سابق ہی ہو‘ کو غدار وطن کہے اور اسے موت کی سزا سنائے۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق نے جب حکومتوں کا تختہ پلٹ کیا تو پاکستان کی عدلیہ نے ان معاملات کو یہ کہہ کر مناسب ٹھہرا دیا کہ وہ وقت کی مانگ (ضرورت) تھے۔ یعنی یہ اقدامات مجبوری کے تحت کیے گئے تھے۔ اسے ''ڈاکٹرائن آف نیسیسٹی‘‘ یعنی نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ جنرل مشرف کو یہ سزا کیوں سنائی گئی؟ اس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ مختلف سطح پر ان کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً میری رائے یہ ہے کہ معزز جج حضرات نے جنرل مشرف سے اپنا بدلہ نکالا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران جیسا دنگل پاکستان کے ججوں اور وکلا کے ساتھ مشرف کا ہوا‘ ویسا کسی بھی صدر کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ پرویز مشرف کو یہ سزا 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے پر نہیں دی گئی بلکہ 2007ء میں ایمرجنسی تھونپنے پر دی گئی ہے۔ یہ وہ دور تھا‘ جب پرویز مشرف اور عدالتوں کے بیچ تلواریں کھنچ گئی تھیں۔ صدر مشرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برخاست کرنے پر تل گئے تھے۔ یہ واقعہ بھی 2007ء کا ہی ہے۔ انہوں نے پہلے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ چھوڑا اور پھر 2008ء میں صدارت کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تاکہ ان پر مقدمہ نہ چلے۔
مشرف آج کل دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔ بہت بیمار ہیں۔ انہیں تیس دن کا وقت ملا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے موجودہ صدر ان کو معافی دے دیں گے۔ ایک تو پاکستان کی فوج نے عدالت کے اس فیصلہ پر دو ٹوک الفاظ میں اعتراض کیا ہے۔ دوسرا‘ عمران خان سرکار بھی ان کی جانب ہمدردی دکھانا چاہے گی۔ تیسرا‘ نواز شریف اس بات کو بھولے نہیں ہیں کہ 1999میں ان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہیں پھانسی نہیں دی گئی تھی بلکہ پرویز مشرف نے انہیں سعودی عرب کی پناہ میں جانے دیا تھا۔ چوتھا‘ پاکستان کے عوام یہ جانتے ہیں کہ مہاجر ہونے کے باوجود انہوں (جنرل پرویز مشرف) نے بھارت کا ناک میں دم کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایسے میں غدارِ وطن کہہ کر پھانسی دینا کوئی اچھا اقدام نہیں ہو سکتا۔ پانچواں‘ میرے خیال میں عدالت نے مشرف کو پورا موقعہ نہیں دیا کہ وہ اپنی بات رکھیں یعنی اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے حوالے سے صفائی پیش کر سکیں۔ اس فیصلے کا پس ایک ہی فائدہ ہو سکتا ہے کہ اب پاکستان میں شاید تختہ پلٹ کا سلسلہ بند ہو جائے۔
میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو ابھی کچھ برس اور زندہ رہنا چاہیے۔ کچھ ماہ پہلے جب دبئی میں میری ان سے دو گھنٹے لمبی بات چیت ہوئی تھی تو میں نے پایا کہ وہ مشرف کا نیا اوتار تھا۔ کشمیر پر پہلے اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ اور بعد میں من موہن سنگھ کے ساتھ چار نکاتی معاہدوں کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں انہوں نے بڑا جوش دکھایا تھا۔ انہوں نے ایک غیر ملکی وزیر اعظم سے میری بات کروانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگر وہ پاک بھارت امن کے معاملے کو آگے بڑھانے میں اپنے باقی زندگی لگائیں تو شاید نا ممکن بھی ممکن ہو جائے۔
کرناٹک کے سبق 
کرناٹک اسمبلی کے عبوری انتخابات نے بھاجپا کو دوبارہ جنوبی بھارت کا چوکیدار بنا دیا ہے۔ اس نے مہاراشٹر کی غیر کانگریسی سرکار کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ کانگریس اور جنتا دل کی اتحادی سرکار جیسی چلی‘ اس کا پہلا نتیجہ تو یہ ہوا کہ وہ لڑکھڑاتی ہوئی گر پڑی۔ اپنے چھوٹے سے ٹائم پیریڈ میں اس سرکار کے باہمی دنگل کی خبریں کنڑ لوگوں کے دماغ پر چھائی رہیں۔ کمار سوامی جنتا دل کے وزیر اعلیٰ تو بن گئے لیکن کانگریس کے لیڈر سدھر میا نے ان کا جینا مشکل کر دیا تھا۔ سر عام آنسو بہانے والے شاید ملک کے وہ پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انہوں نے کافی لگن اور جوش کے ساتھ کام کیا‘ لیکن ان پر کانگریسی ایم ایل ایز کے حملے بھاجپائیوں سے کہیں زیادہ ہوئے۔ کرناٹک کے عوام کے دل پر اس کا کیا اثر پڑا؟ یہی کہ یہ اتحاد کی سرکار نکمی ہے۔ کانگریس کے ایم ایل ایز نے بھی تھوک میں پارٹی بدل دی۔ پارٹیاں بدلنے والے لوٹوں کو اکثر عوام شکست دے دیتے ہیں‘ لیکن اسی عبوری انتخابات میں بھاجپا کے پندرہ امیدواروں میں سے تیرہ جیت گئے۔ یہ جیتے ہوئے ایم ایل اے کون ہیں؟ بھاجپا کے تیرہ ودھایک ایسے تھے جو پہلے کانگریس یا جنتا دل میں تھے۔ ان ایم ایل ایز کو کنڑ لوگوں نے کیوں جتوا دیا؟ کیوں کہ وہ اپنے صوبہ میں مضبوط سرکار چاہتے ہیں۔ اگر یہ سارے ایم ایل ایز ہار جاتے یا بھاجپا کے چھ ایم ایل ایز بھی نہیں جیتتے تو یدی یورپا کی سرکار اقلیت میں چلی جاتی اور پھر اسے یا تو جنتا دل سے اتحاد کرنا پڑتا یا پھر کانگریس اور جنتا دل اپنے مردہ اتحاد کو دوبارہ زندہ کرتے‘ لیکن کرناٹک کے عوام نے گہری سوچ کا ثبوت دیا ہے۔ بھاجپا کے پاس 222 میں سے 117 سیٹیں ہیں‘ یعنی اکثریت ہے۔ امید ہے کہ اب یدی یورپا پہلی اننگ سے بہتر سرکار چلائیں گے۔ اپنے آپ کو بحث اور الزامات سے اوپر رکھیں گے‘ اور کرناٹک میں کچھ ایسا کر دکھائیں گے کہ جنوب کے باقی تینوں صوبوں میں بھی بھاجپا جیسی اکیلی بی جے پی کا راستہ کھلے گا۔ کرناٹک کی کامیابی کا اثر یہ ہوا کہ مہاراشٹر میں بھی بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی‘ لیکن پہلے اسے سرکار بنانے کا موقع نہیں ملا۔ اگر مہاراشٹر میں بھی شیو سینا‘ این سی پی اور کانگریس کا اتحاد بکھرے گا تو یقینا بھاجپا کو وہاں بھی موقع مل سکتا ہے۔ اس غیر فطری اتحاد کوکرناٹک سے کچھ سبق ضرور لینا ہو گا۔
شہریت بل: مودی سرکار کی نادانی 
نیا شہریت بل اب جو جو گل کھلا رہا ہے‘ اس کی پیشگوئی میں نے پہلے ہی کر دی تھی۔ سب سے پہلے تو مودی اور جاپانی وزیر اعظم شنزوآبے کی گوہاٹی میں ملاقات ملتوی ہو گئی۔ دوسرا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں اس بل پر سخت ردعمل ظاہر ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت مسترد ہو گیا۔ پاکستان کے ایک ہندو ممبر آف پارلیمنٹ اور ایک ایم ایل اے نے اس نئے قانون کی سخت مذمت کر دی ہے۔ ابھی تک افغانستان کا رد عمل نہیں آیا کیونکہ اس کے صدر اور وزیر اعظم‘ دونوں ہی بھارت کے پرانے دوست ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نئے قانون کی وہ عمران خان کی طرح مذمت نہیں کریں گے اور اسے سنگھ کا ہندوتوا وادی ایجنڈا نہیں کہیں گے لیکن انہیں عمران خان اور شیخ حسینہ سے بھی زیادہ افسوس ہو گا کیونکہ ان پر بھی الزام لگ گیا ہے کہ وہ ہندو مخالف ہیں۔ ان تینوں مسلم ممالک کو کسی مدعہ پر ایک کرنے کا کریڈٹ کسی کو ملے گا تو وہ ہماری مودی سرکار کو ملے گا۔ ہماری سرکار پتا نہیں یہ قانون کیوں لے آئی ہے؟ اس قانون کے بنا بھی وہ پڑوسی ملکوں کے ہر ستائے ہوئے آدمی کو بھارت کی شہریت دے سکتی تھی۔ ان میں ہندو تو اپنے آپ ہی آ جاتے لیکن اس فہرست سے پناہ گیر مسلمانوں کو نکال کر بھاجپا سرکار نے اپنے گلے میں فرقہ واریت کا پتھر لٹکا لیا ہے۔ کیوں لٹکا لیا ہے‘ سمجھ میں نہیں آتا؟ جب وہ اپوزیشن میں تھی‘ تب اس کا یہ حربہ ہندوئوں کو پٹانے کے لیے درست تھا‘ لیکن اب وہ سرکار میں ہے۔ اسے اب پورا حق ہے کہ وہ کسی بھی غیرملکی کو شہریت دے یا نہ دے۔ اس حق کے باوجود اسے اپنے آپ کو ننگا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس نے صرف افغانستان‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کا نام ہی کیوں لیا؟ کیا افغانستان بھی 1947ء کے پہلے بھارت کا حصہ تھا؟ سری لنکا اور برما تو بھارت کے ہی حصے تھے۔ ان کے یہاں سے آنے والے پناہ گیروں کے لیے اس نئے قانون میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ یہ قانون بھی نوٹ بندی جیسی ہی ایک بھول ہے۔ اس سے فائدہ کم‘ نقصان زیادہ ہے۔ بنگال سمیت سبھی شمال اور مشرق کے صوبوں سے بھاجپا نے ہاتھ دھو لیے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ صدر اس بل پر دستخط نہ کرتے‘ تو پارلیمنٹ اس پر دوبارہ غور کرتی اور سرکار کو اپنی نادانی سے نجات کا راستہ مل جاتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved