لکھنؤ کے مرحوم شاعر جناب عرفان صدیقی باکمال غزل گو تھے۔ ان کی غزل کے کئی خاص رنگ تھے جن میں سے ایک رنگ ہندو مسلم فسادات اور تعلقات سے متعلق بھی تھا۔ انہوں نے اس موضوع پر کئی شعر اور غزلیں لکھیں جن میں گجرات کے فسادات پربھی ان کی کئی غزلیں ہیں۔ انہی کا ایک شعر ہے:
سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہو گا
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے
اس شعر کے پس منظر میں انگریز، مرہٹہ، ہندو طاقتیں گونجتی نظر آتی ہیں، جو صدیوں تک برصغیر میں مسلمان وجود کے درپے رہی ہیں۔ کھلی لڑائی سے لے کر سازشوں تک ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ اس وقت برصغیر میں مسلمانوں کی کل تعداد لگ بھگ پچپن کروڑ ہے۔
میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے نڈر طلبا و طالبات کے ویڈیو کلپس دیکھ رہا تھا۔ بے پناہ تشدد، فائرنگ، آنسو گیس، لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور دھمکیوں کے سامنے یہ نہتے اور پُرجوش طلبہ این آر سی اور سی اے بی کے کالے قوانین کی آڑ میں ہندو فاشزم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ سر پر سکارف لیے اس نہتی نڈر لڑکی کی تصویر آنکھوں میں ٹھہر گئی ہے جو ایک انگلی کے اشارے سے لاٹھی بردار پولیس والوں کو تنبیہہ کر رہی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بھڑک اٹھنے والا شعلہ علی گڑھ یونیورسٹی تک پہنچا‘ اور پھر دیگر جامعات تک۔ جواہر لال یونیورسٹی دہلی کے طلبا و طالبات نے اظہار یکجہتی کیا‘ اور اب یہ سلسلہ کئی دیگر ریاستوں تک پھیل چکا ہے‘ جنہوں نے ان قوانین کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔
ہندوتوا کا عفریت پہلے سے موجود تھا لیکن مودی حکومت نے اسے ایک سرکاری پالیسی اور آئینی حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ مسلسل وہ واقعات، وہ قوانین اور وہ اقدامات رونما ہورہے ہیں‘ جنہوں نے تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو اپنی بقا کے خطرے سے دوچار کردیا ہے؛ چنانچہ جو شعلہ بھڑکا ہے اس کیلئے ایندھن پہلے سے موجودتھا۔ بھارت کا حال عرفان صدیقی کے ہی ایک مصرعے کے حسب حال ہے:
بدن میں ڈھیر بہت دن سے خار و خس کا ہے
لیکن این آر سی اور سی اے بی کو جاننے کیلئے آسام سے بات شروع کرنا ہوگی اور تاریخ اور جغرافیے دونوں کا سفر بھی کرنا پڑے گا۔ آسام شمال مشرقی ہندوستان کی، دریائے برہم پترا اور دریائے باراک کی وادیوں میں لگ بھگ 78 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ایک زرخیز ریاست ہے‘ جس کی سرحدیں شمال میں بھوٹان اور اروناچل پردیش، مشرق میں ناگالینڈ اور منی پور، جنوب میں میگھالیہ، تری پورہ، میزورام اور بنگلہ دیش جبکہ مغرب میں مغربی بنگال سے جڑی ہوئی ہیں۔ مغل بادشاہ یہاں قبضہ جمانے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ اورنگزیب کے سپہ سالار میر جملہ نے 1662/63 میں آسام کا دارالحکومت گڑھ گاؤں فتح کیا‘ لیکن یہ تسلط زیادہ دیر نہ رہ سکا۔ پھر انگریز نے چائے کی تاجر کے روپ میں چائے کے باغات اور زرخیز زمین پر بڑی چالاکی سے قبضہ کیا۔ ایک زمانے میں آسام مغربی بنگال کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن پھر انگریز نے اسے 1906میں مشرقی بنگال سے جوڑ دیا۔ شروع ہی سے یعنی چائے کی تجارت کے فروغ کے فوراً بعد سے آسامی، برمی، چینی اور بنگالی قوموں میں آویزش رہی اور قوم پرست عناصر اس کی شناخت اور آزادی کیلئے سرگرم رہے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت سلہٹ جو آسام کا ایک حصہ تھا، ریفرنڈم کے نتیجے میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ یاد رہے یہ وہی ریفرنڈم ہے‘ جس کی اہمیت کے پیش نظر قائداعظم کی درخواست پر سرحد ریفرنڈم کیلئے مولانا شبیر احمد عثمانی و مفتی محمد شفیع اور سلہٹ ریفرنڈم کیلئے مولانا ظفر احمد عثمانی نے کامیاب دورے کیے تھے اور ریفرنڈم میں کامیابی دلوائی تھی۔
کم و بیش ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والی یہ ریاست 115 مختلف نسلوں اور کم ازکم 44 مختلف زبانیں بولنے والے گروہوں پر مشتمل ہے۔ ہندو یہاں قریب قریب 62 فیصد اور مسلمان 35 فیصد ہیں۔ باقی چھوٹی اقلیتیں ہیں۔ 48 فیصد لوگ آسامی‘ 28 فیصد بنگالی اور باقی دیگر زبانیں بولتے ہیں۔ آسامی باشندوں کے مطابق 1826 کے بعدسے مسلم بنگال سے‘ جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا‘ بنگالیوں کی آسام میں آبادکاری کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا‘ اور اس سے آبادی کے تناسب میں فرق پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔2012 کے وائٹ پیپر کے مطابق تقسیم کے بعد مختلف وجوہ اور نسلی فسادات کے باعث مسلم بنگال سے آسام میں آباد ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران اس تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔
تقسیم کے فوراً بعد ہی آسام میں نسلی اور لسانی گروہوں میں لڑائیاں شروع ہو گئی تھیں اور کئی ایک آزادی کی تحریکیں زور پکڑ گئی تھیں۔ 1961 میں آسامی زبان کو لازمی تعلیم کا حصہ بنایا گیا لیکن بنگالیوں کی بھرپور مخالفت پر اس اقدام کو واپس لینا پڑا لیکن سب سے بڑا ظلم آسامی باشندوں پر تقسیم کے بعد بھارتی حکومت نے 1970 میں کیا جب اس نے آسام کے ٹکڑے کرکے کئی الگ الگ ریاستیں بنا دیں۔ ناگالینڈ، میگھالیہ، میزورام وغیرہ اسی وقت وجود میں آئے۔ 1980میں آسام میں طالب علموں کی تنظیم آل آسام سٹوڈنٹس یونین(AASU) نے ایک احتجاجی مہم شروع کی جس میں بہت خونریزی ہوئی اور جو 6سال جاری رہی۔ مطالبہ یہ تھاکہ بنگلہ دیش سے آنے والے غیرملکی مہاجرین اور آبادکاروں کو آسام سے نکالا جائے۔ بالآخر مرکزی حکومت اور تحریکی رہنماؤں کے درمیان 1985 میں Assam Accord طے ہوا‘ جس پر وزیر اعظم راجیو گاندھی نے دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت مرکزی حکومت کو غیرملکیوں کو نکالنے اور اصل آسامی باشندوں کی شناخت کرنے کے اقدامات کرنے تھے۔لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی کارروائی تک محدود رہا‘ جس کے باعث مقامی باشندوں میں بے اطمینانی بڑھ گئی۔
1970 کے بعد سے علیحدگی پسند گروہوں کی سرگرمی میں تیزی سے اضافہ ہوا جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (ULFA) اور نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بودولینڈ(NDFB) جیسے گروہ بھی ہیں۔ علیحدگی پسند تحریکیں اس حد تک زور پکڑگئیں کہ 1990میں بھارتی حکومت کو فوج بلانا پڑی اور اس کے بعد سے اس کی علیحدگی پسندوں سے کم اور زیادہ شدت کی جھڑپیں اب تک جاری ہیں۔
این آر سی (National register of Citizen) بنیادی طور پر ریاست آسام میں بننے والی ایک فہرست تھی جس کے تحت ہندوستانی شہریوں کو غیرقانونی مہاجرین، دیگر پڑوسی ملکوں سے آنے والے قابضین اور آبادکاروں سے الگ پہچانا جانا تھا تاکہ اصل آسامی باشندوں کی تعداد، تہذیب، تمدن، ثقافت کی حفاظت کی جا سکے اور آبادیاتی (Demographic) تبدیلی کو روکا جا سکے۔
''باہری‘‘ یعنی غیرملکیوں کے خلاف اصل چھ سالہ تحریک آل آسام سٹوڈنٹس یونین (AASU) نے شروع کی تھی۔ اس قضیے میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب آسام پبلک سروس اور دیگرادارے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ 2009میں سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں داخل ہوئیں، یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں سیاست بھی پوری طرح فعال تھی اور مذہبی تعصب بھی۔ عام طور پر اعلیٰ عدالتیں اس قسم کے معاملات کو ہاتھ میں لینے سے گریز کرتی ہیں، لیکن کسی وجہ سے بھارتی سپریم کورٹ نے یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لیے اور سماعت شروع ہوگئی۔ دسمبر 2014 میں سپریم کورٹ کے رانجن گگوئی اور روہی نتن نریمان نامی ججوں پر مشتمل بنچ نے این آر سی کی تجدید کا حکم دیا اور اس کی بنیاد پر آسامی باشندوں اور غیر ملکیوں میں فرق کی ہدایت کی۔ چونکہ این آر سی کی نگرانی سپریم کورٹ خود کر رہی تھی اور اسی نے فہرست کے سوالات اور فارم مرتب کیے تھے اس لیے فہرست سازی میں بی جے پی کی من مانی کا اختیار بہت کم تھا؛ تاہم اس نے غیرملکیوں کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ بپا کیے رکھا۔ دوسری فہرست بنائی گئی تو اس میں غیرملکیوں کی تعداد 40 لاکھ تھی جبکہ اس آخری فہرست میں یہ تعداد محض 19 لاکھ رہ گئی ہے یعنی کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔اعدادوشمار نے سب بھرم کھول کر رکھ دیا۔ بی جے پی کی خون آشامی نے اس مسئلے کو اٹھالیا۔ انہیں اس میں مسلمانوں کو بے وطن اور بے زمین کردینے کے بہت امکانات نظر آتے تھے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس آگ کی ابتدا کیسے ہوئی جو کئی ریاستوں کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ (جاری)