عوام آخری جنگ کیلئے تیار ہو جائیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام آخری جنگ کے لیے تیار ہو جائیں‘‘ اگرچہ ہم نے عوام کو اس حالت میں بھی نہیں چھوڑا کہ وہ کوئی جنگ لڑ سکیں‘ نیز عوام کو ہماری نیکیاں اچھی طرح سے یاد ہیں اور اس جنگ کو آخری اس لیے کہا ہے کہ میں نے تو کچھ عرصے بعد سرکاری مہمان بن جانا ہے‘ اس لیے انہیں یہ جنگ اکیلے ہی لڑنا ہوگی‘ جبکہ والد صاحب اور دیگر معززین بھی ساتھ ہی ہوں گے اور ان کی ضمانت اس لیے کروائی ہے کہ وہ دوبارہ اندر ہونے کے قابل ہو سکیں اور امید ہے کہ انکل ڈاکٹرعاصم کے ہسپتال سے وہ بالکل تندرست ہو کر نکلیں گے‘ بلکہ عوام کو بھی چاہیے کہ آخری جنگ لڑنے کے قابل ہونے کے لیے وہ بھی انکل ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال میں داخل ہو جائیں؛ اگرچہ فی الحال تو یہ معلوم نہیں کہ عوام نے یہ جنگ کس کے خلاف لڑنی ہے‘ تاہم اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کی طرح یہ اعلان بھی کہیں واپس ہی نہ لینا پڑ جائے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرر ہے تھے۔
حکمران غربت نہیں‘ غریب مٹائیں گے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکمران غربت نہیں‘ غریب مٹائیں گے‘‘ جس کا آغاز انہوں نے میرے خلاف انتقامی کارروائیوںکے حوالے سے کر دیا ہے‘ انہیں پتا چل گیا ہوگا کہ میں غریب نہ سہی‘ غریب طبع ضرور ہوں؛ حتیٰ کہ عجیب و غریب بھی ہوں‘ کیونکہ اس سے زیادہ عجیب بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ سپورٹس‘ یعنی کھیل ہی کھیل میں کوئی کروڑوں میں کھیلنے لگے‘ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس حد تک ملکی خزانہ بھی غریب ہو گیا ہے‘ کیونکہ منصوبے پر جتنا پیسہ فالتو لگایا جائے‘ حکومتی خزانے پر اس کا اتنا ہی اثر ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے میرے بھائی کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کی تھی ‘کیونکہ میری طرح وہ بھی خاصے غریب طبع واقع ہوئے ہیں‘ لیکن اب‘ حکومت ان کیخلاف انتقامی کارروائی چھوڑ کر میرے پیچھے پڑ گی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ویب سائٹ پر اپنا بیان ٹوئٹ کر رہے تھے۔
درستی
ایک محترمہ نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے نقل کیا ہے؎
کون گزرا ہے شہر سے مانندِ بادِ سموم
ہو کا عالم عجب چُپ سی ہے
اس کا دوسرا مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے‘ کیونکہ ہُو کا عالم کے بعد لفظ ''ہے‘‘ نہیں لکھا گیا‘ جبکہ پہلا مصرعہ ناصرف بے وزن ہے‘ بلکہ دوسرے مصرعے سے کوئی ایک فٹ طویل بھی ہے‘ کیونکہ یہ '' کون گزرا ہے‘‘ تک ہی بحر کے اندر ہے۔ آگے کچھ پتا نہیں چلتا۔ اس کا وزن اس طرح درست ہو سکتا ہے؛ ع
کون گزرا ہے بَنا بادِ سموم
لیکن یقینا اصل مصرعہ کسی اور طرح سے ہوگا اور یہ مسئلہ یہ کالم نگار بی بی خود ہی حل کر سکتی ہیں اور کوئی نہیں‘ کیونکہ انہیں شعر کا پتا ہو گا۔
ڈھولکی
اس کتاب کے مصنف ظاہر محمود ہیں‘ جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں‘ اسے سانجھ پبلی کیشنز نے چھاپا ہے اور جو افسانچوں‘ سفرانچوں اور مضامین پر مشتمل ہے اور اگر مضامین کی بجائے مضمونچے ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔ ٹائٹل فرزاد علی زیرک نے بنایا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: ابا حضور ناصر محمود اور امی جان سمرہ تسنیم کے نام ۔ دیباچے پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور ڈاکٹر آغا سلمان باقر کے تحریر کردہ ہیں۔ پس سرورق مصنف کی تصویر اور ناشر کی طرف سے ایک تعارفی نوٹ درج ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق ‘ظاہر محمود ایک بے چین روح ہے‘وہ کچھ نہ کچھ کرنے پہ لگا رہتا ہے اور اب مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ڈھولکی پر بیٹھ گیا ہے۔ اس کے ہاتھ حرکت میں آ گئے ہیں۔ دیکھیے اب‘ وہ ہمیں کیا سناتا ہے۔اس کتاب کے مندرجات کی اصل خوبی‘ مصنف کے طرزِ تحریر کے علاوہ‘ اس کا اختصار ہے۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ یہ کتاب قابلِ مطالعہ ہے۔ کتاب اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے۔ اس عمر میں اتنی ''پکّی‘‘ تحریریں دیکھ کر تعجب بھی ہوتا ہے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والا محاورہ شاید اسی نوجوان کیلئے وضع کیا گیا تھا ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اور‘ اب آخر میں رُستم نامیؔ کی شاعری:
اُس کی نظر سے گرا نہیں
میں اُوپر سے گرا نہیں
بن کر اشک وہ کب میرے
دیدۂ تر سے گرا نہیں
ٹوٹ چکا ہوں اندر سے
میں باہر سے گرا نہیں
خود ہی پڑا ہوں رستے میں
میں ٹھوکر سے گرا نہیں
ایک ثمر بھی میرے لیے
تیرے شجر سے گرا نہیں
گرا ہوں باہر سے جتنا
اتنا گھر سے گرا نہیں
کٹ کے گرا ہے سر‘ نامیؔ
بوجھ تو سر سے گرا نہیں
...............
یہ نامیؔ ملول‘ خوار‘ خستہ حال‘ بے نوا
ہے ٹھیک ٹھاک صُحبتِ خراب کے بغیر بھی
آج کا مقطع
یہ کاروبارِ سلطنتِ خواب ہے‘ ظفرؔ
فرضی ہے بادشاہ‘ رعایا ہے جھوٹ موٹ