تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-12-2019

شُتر مرغ کی پیروی کیوں؟

دو عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران اسلامو فوبیا کا غلغلہ رہا ہے۔ سابق سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکا اور یورپ کو ایسا دشمن درکار تھا جس کی طرف اشارہ کرکے وہ باقی دنیا کو بتاسکیں کہ حقیقی خطرہ یہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو عالمی امن اور تہذیب کے لیے خطرہ قرار دے کر امریکا اور یورپ نے نام نہاد جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور محکمۂ دفاع پر حملے کے لیے القاعدہ اور دیگر اسلامی شدت پسند گروہوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان کے خلاف لشکر کشی کی گئی۔ اس کے بعد عراق کا نمبر آیا۔ خرابیوں نے بڑھ کر شام اور یمن کو بھی لپیٹ میں لیا۔ مشرقِ وسطٰیٰ کو مزید غیر مستحکم کردیا گیا۔ امریکا اور یورپ نے چاہا کہ اسلام کے حوالے سے عمومی خوف پھیلاکر پوری دنیا کو مسلمانوں کے خلاف کردیا جائے۔ یہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔ خوشا کہ اب صورتِ حال تھوڑی سی تبدیل ہوئی ہے۔ 
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اسلامی دنیا کے قائدین سے کہا ہے کہ وہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبے کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامو فوبیا کے حوالے سے چار روزہ سربراہ کانفرنس میں ایران کے صدر حسن روحانی‘ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے مہاتیر محمد نے کہا کہ دہشت اس طور اور اس حد تک پھیلائی گئی کہ لوگ مذہب کے حوالے سے خوفزدہ ہوگئے۔ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں مہاتیرمحمد نے تسلیم کیا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں سے زیادتی ہو رہی ہے‘ اُن پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں مگر اس وقت کوئی بھی مسلم ملک تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر روایتی نوعیت کی جنگ چھیڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر ایسا کیا بھی جائے تو اسلامی دنیا سے باہر کا کوئی ملک مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے گا۔ ایسے میں اندھا دھند انداز سے کی جانے والی انفرادی نوعیت کی دہشت گردی اور ایسے ہی دیگر سنگین جرائم کے ارتکاب سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ ملائیشین وزیر اعظم نے اُن مسلمانوں کا مسئلہ بھی بیان کیا جو حالات کی خرابی کے باعث اپنے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے اس امر پر بھی انتہائی دکھ کا اظہار کیا کہ بہت سے طاقتور مسلم ممالک محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بھارت میں شہریت کا ترمیمی بل صرف مسلمانوں کے خلاف منظور کیا گیا ہے‘ مگر کوئی اہم اسلامی ملک اس حوالے سے کچھ بھی کہنے کے لیے تیار نہیں۔ مہاتیر محمد نے اس نکتے پر زور دیا کہ اسلامو فوبیا کے توڑ کے لیے مسلم ممالک کو اندرونی خرابیاں اور خامیاں دور کرنے پر بھی توجہ مرکز کرنا ہوگی ۔ 
کوالا لمپور میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے 56 میں سے 20 ارکان نے شرکت کی۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس کانفرنس میں شرکت سے اجتناب برتا۔ پاکستان میں اس معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ مہاتیر محمد نے یہ تاثر بھی یکسر بے بنیاد قرار دیا کہ کوالا لمپور کانفرنس اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے مقابل کھڑے کیے جانے والے کسی پلیٹ فارم کا درجہ رکھتی ہے۔ 
مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان نے کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے بھارت کے خلاف بولنے میں تساہل سے کام لیا ہے نہ تاخیر سے۔ ملائیشیا نے تو بھارت سے غیر معمولی تجارتی روابط کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے خلاف جانے میں خود ہم محتاط سے رہے ‘مگر ملائیشیا نے ایسا نہ کیا۔ یہی معاملہ رجب طیب اردوان کا بھی ہے‘ اُنہوں نے بھارت کے خلاف جانے میں کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ ایران سے بھارت کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں مگر کشمیر کی صورتِ حال پر ایران نے بھی بھارتی قیادت پر تنقید سے گریز نہیں کیا۔ 
مہاتیر محمد نے 93 سال کی عمر میں اسلام کے حوالے سے جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ داد بھی ہے اور قابلِ رشک بھی۔ اسلامی دنیا کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے ایسا ہی جوش اور جذبہ درکار ہے۔ اُنہوں نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمانوں کے ردِعمل کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام امن کا دین ہے ‘مگر دنیا بھر میں مسلمان انفرادی سطح پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش اور قابلِ فخر نہیں۔ اس سے اسلام کے بارے میں مزید بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اندرونی خرابیوں کے باعث دنیا بھر میں مسلمانوں کو کچلا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو کچلنے والا ہر ملک صاف بچ نکلتا ہے اور ردِعمل ظاہر کرنے کی پاداش میں مسلمانوں کے حوالے سے ناپسندیدگی مزید بڑھتی ہے۔ 
مہاتیر محمد نے مسلمانوں کو شاندار ماضی یاد دلاتے ہوئے پُرامید رہنے کا بھی مشورہ دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آج ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں مگر خیر‘ سب کچھ ختم نہیں ہوگیا۔ ہمیں اپنی خرابیوں کو دور کرکے متحد رہنے پر متوجہ ہونا ہوگا۔ جب ایسا ہوگا تب کوئی بھی ہم پر حملے کی جرأت نہ کرسکے گا۔ 
پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے سے ہم اپنے تمام داخلی مسائل اور بحران بھول کر دنیا بھر کے ستم رسیدہ مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرتے آئے ہیں اور عملاً بھی اُن کی مدد کرتے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح ہم نے اسلامو فوبیا کے معاملے میں بھی شُتر مرغ کا سا انداز اختیار کر رکھا ہے۔ ہم ریت میں سَر چھپا کر سمجھتے ہیں خطرہ ٹل گیا۔ 
اسلامو فوبیا کے حوالے سے اگر مہاتیرمحمد نے رجب طیب اردوان‘ حسن روحانی اور تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی ٹھانی ہے تو پاکستانی قیادت کو بھی اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان خود بھی امریکا اور مغرب میں پائی جانے والی اسلامو فوبیا کی لہر کے نشانے پر رہا ہے۔ مغرب کے زیر اثر بھارت نے بھی ہمیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ۔ ایسے میں لازم ہے کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے قائم کیے جانے والے کسی بھی بڑے پلیٹ فارم پر ہم بھی کھڑے ہوں۔ مشرق وسطیٰ کی کچھ ریاستوں نے مغرب کے مقابل مرعوبیت اب تک ترک نہیں کی‘ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک طے کرچکے ہیں کہ ہر معاملے میں باقی دنیا کے خلاف جاکر امریکا اور یورپ کی غلامی میں رہنا ترک نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوالا لمپور کانفرنس میں شرکت سے گریز کرکے ایسا قدم اٹھایا ہے جو بظاہر کسی بھی اعتبار سے پاکستان کے حق میں نہیں جاتا۔ ملائیشیا اور ترکی قدرے بہتر حالات والے ممالک ہیں۔ وہ اپنی ترقی کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہے۔ ایسے میں سعودی عرب‘ یو اے ای اور دیگر بہت سے مضبوط مسلم ممالک کو مہاتیر محمد اور اردوان کا ساتھ دینا چاہیے۔ 
اسلامو فوبیا کی لہر کے خلاف جانے پر ردعمل کی شکل میں کچھ نہ کچھ تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ ہم پہلے ہی بہت کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں مزید کون سے مضمرات ہیں جو ہمارا کچھ بگاڑ لیں گے؟ مسلمانوں کو متحد ہونے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایسے میں ہچکچاہٹ اور مصلحت پسندی نہیں چلے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved