تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     21-12-2019

کرپشن کی لعنت

کرپشن آج کے دور کی ایک لعنت ہے جو تمام معاشروں اور ملکوں کے لیے، خواہ وہ اقتصادی و سماجی ترقی کے کسی بھی مرحلے پر ہوں یا وہاں کوئی بھی سیاسی نظام ہو، نہایت منفی اثرات رکھتی ہے۔ یہ ایک عالمی وبا بن چکی ہے جس کے نہایت دور رس سماجی و معاشی اثرات ہیں۔ اس کا انسداد قومی و عالمی سطح پر ایسی جامع حکمت عملیوں کا متقاضی ہے جو اس لعنت کی بیخ کنی میں معاون ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں رضا کارانہ طور پر ایسے اقدامات کرنے اور قانونی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت بھی ہے جو بد عنوانی کی وجوہ اور اس کے اثرات کا سدِ باب کریں۔
کرپشن سے ہماری مراد کیا ہے؟ عموماً کرپشن کی اصطلاح بد دیانتی کے حالات و اعمال پر منطبق کی جاتی ہے‘ خصوصاً پبلک سیکٹر کے تنخواہ دار طبقے کے رویوں پر‘ چاہے وہ سیاستدان ہوں یا سرکاری ملازمین، اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بے قاعدگی یا نا جائز طریقے سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں یا ان کے حواری اُس ''سرکاری طاقت یا املاک‘‘ میں خیانت کرتے ہیں جو انہیں امانتاً تفویض کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کرپشن اپنے اختیارات کا ذاتی مقاصد کی خاطر یا اس گروہ کے مفادات کے لئے ناجائز استعمال ہے جس کے ساتھ آپ منسلک ہوں۔
ہر سال 9 دسمبر کو ''انسداد بد عنوانی کا عالمی دن‘‘ 2003 میں کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو اپنانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی بد عنوانی کے خلاف ''قانونی طور پر واجب التعمیل پہلا عالمی رد عمل‘‘ تھا۔ اب یہ کنونشن ''بد عنوانی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ میں کرپشن کی روک تھام، تفتیش اور ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں عالمی تعاون کا اہم ترین فریم ورک بن چکا ہے۔
یہ رکن ممالک کو پابند بناتا ہے کہ وہ نہ صرف کرپشن کی بنیادی شکلوں رشوت ستانی اور سرکاری خزانے میں غبن، بلکہ منی لانڈرنگ اور بیرونی ممالک میں کالا دھن چھپانے جیسے اقدامات کو بھی قابل سزا جرم قرار دیں۔ انسداد بد عنوانی مہم میں اس حوالے سے عوامی آگہی پیدا کرنا اور غیر حکومتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے متعلقہ حلقوں کی مدد سے انسدادی اقدامات کرنا شامل ہے۔ عالمی سطح پر کرپشن نہ صرف غربت کا بڑا سبب ہے بلکہ یہ غربت پر قابو پانے کی راہ میں بڑی رُکاوٹ بھی ہے۔ غربت سے نجات مقصود ہے تو یقینا اس وبا سے نجات پر پوری طاقت صرف کرنا ہو گی۔
ورلڈ بینک کے تخمینوں کے مطابق ہر برس ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ایک ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی رشوت ستانی ہوتی ہے۔ جو ممالک کرپشن کے حوالے سے شہرت رکھتے ہوں‘ ان میں بیرونی سرمایہ کاری کی شرح ہمیشہ کم رہتی ہے اور اس کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کے ان کے امکانات مخدوش رہتے ہیں۔ بلا شبہ کرپشن معاشی نمو اور ترقی کی راہ میں مزاحم ہوتی ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک سے سرمائے کے فرار کا سب سے بڑا سبب ہے کیونکہ وہاں حکمران، سرکاری عمّال اور مراعات یافتہ اشرافیہ‘ سب اپنے اس کالے دھن کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک میں چھپاتے رہتے ہیں۔
لیکن کرپشن کو صرف معاشی پیمانوں سے نہیں ناپا جانا چاہیے۔ یہ عدالتی و سیاسی نظام کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے‘ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کرتی ہے، عدالتی و انتخابی نظام کو مفلوج کر دیتی ہے، قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ بنتی ہے اور نوکر شاہی کا ایک ایسا دلدلی نظام جنم دیتی ہے جس کے وجود کا واحد مقصد ہی رشوت کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کا حکومتی عمّال اور قومی اداروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ سیاسی میدان میں اس کا بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ جمہوریت کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں اور اچھی گورننس کے امکانات معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ 
انتخابات اور قانون ساز اداروں میں کرپشن جواب دہی کے عمل کو متاثر کرتی ہے اور حکمت عملی تشکیل دینے میں نمائندگی کے عمل کو تباہ کر دیتی ہے۔ عدلیہ میں کرپشن قانون کی حکمرانی کے عمل کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور سرکاری انتظامیہ میں کرپشن کا نتیجہ خدمات کی غیر مساوی فراہمی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ زیادہ عمومی بات کریں تو کرپشن ادارہ جاتی صلاحیت ہی برباد کر دیتی ہے کیونکہ قواعد و ضوابط نظر انداز ہوتے ہیں، وسائل لوٹ لیے جاتے اور سرکاری دفاتر ہی کی بولی لگ جاتی ہے۔ جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہو‘ کوئی شبہ نہیں کہ وہاں پورا معاشرہ اس کا خمیازہ بھگتتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کرپشن کوئی قدرتی آفت یا تباہ کاری نہیں ہوتی؛ یہ ایک ایسا سفاکانہ عمل ہے جس میں ان مرد و خواتین اور بچوں کے بہتر زندگی کے حوالے سے حاصل مواقع چھین لیے جاتے ہیں جو خود کو محفوظ رکھنے کی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ سماج اورگورننس پر عمومی تباہ کُن اثرات کے علاوہ کرپشن کا سب سے بڑا نشانہ ہمیشہ یہی غریب لوگ بنتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) ہر برس ایک انڈیکس شائع کرتی ہے جو ایک جامع عالمی سروے کی بنیاد پر اُن خیالات اور تاثرات کی عکاسی کرتا ہے جو کاروباری اشخاص اور ملکی تجزیہ کاروں سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس کام کیلئے خود مختار اداروں کی مدد سے متعدد سروے کیے جاتے ہیں۔ 
خود ہمارے ملک میں آزادی کے اول دن سے ہی کرپشن ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ آئین ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947 کو اپنے خطاب میں قائد اعظم نے ہمیں رشوت ستانی، کرپشن، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے جنم لینے والی 'برائیوں‘ سے خبردار کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حکومت اور اسمبلی‘ دونوں ان برائیوں کی روک تھام آہنی ہاتھ سے کریں؛ تاہم بطور قوم نہ صرف یہ کہ ہم ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں ناکام رہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان برائیوں کے ساتھ ایسے جینے لگے جیسے یہ ہمارے سماج کا بنیادی حصہ ہوں۔
کرپشن ہمارے سماج کے تمام طبقات کے لیے ناسور بن چکی ہے۔ انصاف ناقابل رسائی، سست اور ترجیحی نوعیت کا ہو چکا ہے اور قانون کی حکمرانی مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ جرم اور کرپشن کی ہر حوالے سے افراط ہے۔ قانون کی حکمرانی سے بیزاری عام ہے۔ بُری گورننس ہمارا طرہ امتیاز بن چکی ہے۔ قومی یکجہتی کا تصور اور اس کا ادارہ جاتی میکنزم لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ سیاسی نظام اور سول سوسائٹی‘ دونوں کمزور اور غیر موثر ہیں۔ یہ سب کمزوریاں اور کوتاہیاں متقاضی ہیں کہ موزوں سطحوں پر انسدادی اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان کے قومی احتساب بیورو کے قیام کا مقصد ہمارے ریاستی نظام میں موجود کرپشن کا قلع قمع کرنا تھا۔ اس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ واضح قانونی مینڈیٹ اور آپریشنل فریم ورک کے ساتھ نیب بڑے مگر مچھوں سے نبرد آزما ہے کیونکہ ہمارے نظام میں بہت کمزوریاں ہیں، گورننس ناکام ہے، سیاسی مجبوریاں بے شمار اور وسائل محدود ہیں۔ انسداد بد عنوانی کی اپنی حکمت عملی میں نیب نے بہت سی وجوہ کو پاکستان میں بد عنوانی کی جڑ کے طور پر تشخیص کیا ہے۔ ان میں سے کچھ مسائل تو ایسے ہیں جو ہمیں آزادی کے وقت ورثے میں ملے تھے۔
ہماری میراث میں معاشی مشکلات، نظام میں موجود خلل، سیاسی عدم استحکام، انتظامی اور نظام عدل کی خامیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کی متعدد اشکال ہیں لیکن سب سے نمایاں سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال، سرپرستی، ناجائز سیاسی فوائد، بھتہ خوری، اثر و رسوخ، اقربا پروری، دھوکا دہی اور غبن ہیں۔ آج ہم رشوت ستانی کی اختراعات، نوازشات کے تبادلے اور بالائی آمدن کی شاہکار مثال بن چکے ہیں۔ ہماری سیاست میں انتخابی فضول خرچیوں، کمیشن خوری، بینک قرضوں کی نادہندگی اور مال مفت کے ناجائز استعمال نے کرپشن کی عام شکل اختیار کر رکھی ہے۔
ہماری گورننس کے نمونوں اور معیارات میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں۔ اس کے علاوہ شہریوں کی روزمرہ زندگی میں حد سے بڑھتی ہوئی حکومتی مداخلت طاقت کے بے جا استعمال کا بڑا سبب ہے۔ کرپشن ہمارے سیاسی نظام میں سب سے زیادہ حاوی ہے جہاں جاگیردار اور طاقتور کاروباری طبقوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی اجارہ داری ہے۔ 
دوسری جانب غریبوں کے آلام و مصائب کم ہونے میں نہیں آتے بلکہ انہیں وہ بوجھ بھی جھیلنا پڑتا ہے جو عموماً ریاست کی ذمہ داری شمار ہوتا ہے۔
والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اساتذہ کو بھاری معاوضے ادا کرتے ہیں، مریضوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولیات کے حصول کے لیے اضافی ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں، لوگ ضابطے کی کارروائی کو جلد مکمل کرانے کے لیے سرکاری حکام کو ''تحائف‘‘ یا رشوت دیتے ہیں، جرمانے سے بچنے کے لیے ڈرائیور حضرات پولیس افسران کی مٹھی گرم کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک کسی بھی کام کو کرانے کے لیے جو حربے معمول کا عمل ہیں وہ، سادہ لفظوں میں، درحقیقت جرم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جہاں ہمارے ملک کا عام آدمی سختیاں جھیلتا ہے وہیں جانے بوجھے لٹیروں، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے لیے دنیا بھر میں اتنی محفوظ پناہ گاہ کوئی اور نہیں ہو سکتی جتنی ہمارے ملک میں ہے۔
کوئی اور ملک اس روایت سے بھی واقف نہیں ہو گا کہ بڑے قرض نادہندگان اور اعلیٰ سطح پر موجود قومی دولت کے جانے بوجھے لٹیروں کو باقاعدہ معافی دی جاتی ہو۔ کسی اور ملک میں مراعات یافتہ لوگ اس قدر بے حیائی کے ساتھ قانون سے بالاتر نہ ہوں گے۔ بدترین امر یہ ہے کہ بدنام زمانہ ناجائز این آر او اب ہماری کرپٹ اشرافیہ کے لیے نئے نظریہ ضرورت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہمارے ملک میں اب اسی کی حکمرانی ہے۔ ایسے میں دو ہزار اٹھارہ کے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تازہ ترین سی پی آئی میں اگر پاکستان نے کوئی بہتری نہیں دکھائی تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔
حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستان کی سی پی آئی درجہ بندی ایک سو اسّی ممالک میں سے ایک سو سترھویں نمبر پر ہی ہے، دو ہزار سترہ میں بھی پاکستان اسی درجے پر تھا۔ عالمی فہرست میں اپنی مجموعی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو سماج کے ہر طبقے میں موجود کرپشن پر قابو پانے کے علاوہ اپنی مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں بھی اضافہ کرنا ہو گا۔ وہ نظام جو کرپشن، ٹیکس چوری، بد دیانت حکمرانی، طاقت کے ناجائز استعمال، پُر تعیش حکومتی اخراجات، وی آئی پی کلچر، تشدد اور لاقانونیت کی آبیاری کرتا ہے‘ اسے اپنے سیاسی جسد سے نکال پھینکنا ہوگا۔ بالخصوص اگر ہمیں عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے تو وہ محکمے جو کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین ہیں‘ جن میں پولیس اور ریونیو کے محکمے یا نچلی سطح کی عدالتیں شامل ہیں‘ ان کو کرپشن کا قلع قمع کرنا ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved