تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     22-12-2019

تاریخ میں نام

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ایوانِ انصاف سے رخصت ہو گئے۔ ایک جج کے طور پر بھی اور ایک چیف جسٹس کے طور پر بھی ان کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکے گا۔ ان کے مختلف فیصلے زیر بحث آتے رہیں گے، اور اپنے اپنے حصے کا خراج وصول کرتے رہیں گے۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی موجود رہے ہیں اور رہیں گے۔ اس وقت ان کا تفصیلی تذکرہ یا احاطہ مقصود نہیں ہے، صرف اس حقیقت کا اظہار مطلوب ہے کہ انہوں نے نہایت وقار اور متانت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہوئے نہ سووموٹو کے ذریعے جینا دوبھر بنایا۔ ان کے پیشرو جسٹس ثاقب نثار نے اپنے منصب کو جس سطح تک پہنچا دیا تھا، وہاں سے اسے آگے بڑھانا آسان کام نہیں تھا، لیکن انہوں نے کر دکھایا۔ وہ شاید پہلے چیف جسٹس تھے جنہوں نے کریمینل جسٹس سسٹم کی اصلاح کی طرف بھرپور توجہ کی، ماڈل کورٹس قائم کیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مقدمات کی فاصلاتی سماعت کو ممکن بنایا۔ سفر جاری ہوا تو سول مقدمات کی بہتات کو کم کرنے کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔ ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف آرمی سٹاف کی تقرری اور مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جو فیصلہ دیا، اسے بھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ یہ فیصلہ اگرچہ روشن دماغ جسٹس منصور علی شاہ کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے لیکن اس میں کھوسہ صاحب کی بھرپور آواز بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا فیصلہ بھی انہی کے عہد میں صادر ہوا۔ یہ فیصلہ خصوصی عدالت نے جاری کیا ہے، سپریم کورٹ کے پاس اس کی اپیل نے ابھی آنا، اور سنا جانا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بدولت تاخیری حربے اختیار نہ کئے جا سکے۔ انہوں نے فرد جرم عائد کرتے وقت ملزم کی موجودگی کو اس کے خلاف سماعت جاری رکھنے کے لئے کافی قرار دے کر تاریخ کو آگے بڑھنے کا موقع دے دیا۔ جنرل پرویز مشرف کو پانچ مرتبہ سزائے موت سنانے کا خصوصی عدالت کا حکم اب تاریخ بن چکا۔ اس عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے سزا پر عملدرآمد سے پہلے ملزم کے وفات پا جانے کی صورت میں اس کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک لٹکانے کی جو خواہش ظاہر کی ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت یوں نہیں بن سکی کہ تین رکنی عدالت کے کسی دوسرے رکن نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ایک جج صاحب نے تو جنرل پرویز مشرف کو پروانۂ بریت جاری کر دیا، لیکن دوسرے جج جسٹس شاہد کریم نے اپنے عالمانہ فیصلے میں ملزم کو مجرم ٹھہرانے کے باوجود اپنے فاضل سربراہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں اس طرح کی سزا کہیں درج نہیں ہے۔ اس کے باوجود جسٹس وقار سیٹھ نے اپنی رائے کا اظہار ضروری سمجھا تو یہ ان کے جذبات کا معاملہ تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسے فیصلے کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس پر جو رد عمل (قومی سطح پر) دیکھنے میں آیا اس نے فیصلے کے مندرجات سے توجہ ہٹا دی۔ اے کاش، جسٹس وقار سیٹھ یہ شدت اختیار نہ کرتے۔ ایسا ہوتا تو فیصلے کے مندرجات پر سنجیدہ اظہار خیال ممکن ہو جاتا۔ جنرل پرویز مشرف کے حامیوں اور حکومتی منصب داروں نے اس ایک نکتے کو اس طرح پھیلایا اور بڑھایا کہ معاملہ خلط مبحث کی صورت اختیار کر گیا۔
خصوصی عدالت کے اکثریتی اور اقلیتی فیصلوں کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بعض حکومتی وزرائے کرام اور ان کے سیاسی حواریوں نے اس فیصلے کے حوالے سے جو جو کچھ کہا اور جس جس طرح اچھل اچھل کر چوکے، چھکے لگائے، اسے غیر ضروری اور لا یعنی کہے بغیر چارہ نہیں۔ حکومت کے قانونی دماغوں نے یہاں تک فرما ڈالا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ ان کی دماغی صحت کے حوالے سے بھی سوال اٹھائے گئے۔ بھاری بھرکم مشاہرے اور مراعات حاصل کرنے والے پہلوان یہ بھول گئے کہ کسی جج کے خلاف اس کے کسی فیصلے کی بنیاد پر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا۔ کسی فیصلے سے کسی کے جذبات جو بھی مجروح ہوں، اور اس کی طبع نازک (یا غیر نازک) پر جو بھی گراں گزرے، اس کے خلاف اپیل ہی کا حق استعمال کیا جاتا ہے۔ جو لوگ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں فیصلے سے غیر مطمئن ہیں، انہیں سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینی چاہئے، اور اس کے حتمی حکم کا انتظار کرنا چاہئے۔
جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کے حوالے سے حکومتی ذمہ داروں کا واویلا یوں بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہیں یہ مقدمہ واپس لینے یا اس سے دستبردار ہونے کے لئے ایک سال سے زیادہ وقت ملا تھا، چند ہفتے پیشتر اس حوالے سے ایکٹیوٹی دیکھنے میں آئی، پراسیکیوشن ٹیم بدلی گئی، طرح طرح کی درخواستیں بھی مختلف عدالتوں میں دائر کی گئیں، یہ دہائی بھی دی گئی (اور فاضل اٹارنی جنرل اب بھی دے رہے ہیں) کہ اس مقدمے کو دائر کرنے کے لئے وفاقی کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی تھی، اس لئے یہ اول روز ہی سے کسی قانونی بنیاد سے محروم ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور معاونین کو بھی ملزم نامزد نہ کر کے بد نیتی کا ثبوت دیا گیا‘ لیکن اس بات کا جواب نہیں مل پا رہا کہ سرکاری دماغوں نے قانونی جھول دریافت کر لئے تھے تو پھر مقدمہ واپس کیوں نہیں لیا۔ دستور کی دفعہ 6 کے تحت کوئی مقدمہ وفاقی حکومت کی مدعیت ہی میں درج کیا جا سکتا ہے۔ کوئی عدالت اپنے طور پر اسے درج کرا سکتی ہے نہ کوئی شہری اپنے طور پر اس کا مدعی ہو سکتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی قانونی نہیں ہے تو پھر چھاتی ٹھونک کر اسے واپس لینے کا فیصلہ کر لیا جاتا۔ لگتا یوں ہے کہ حکومت اپنے سر ذمہ داری لئے بغیر اس مقدمے کو الجھانا اور کسی نہ کسی عدالتی فورم کے سر ڈال کر اسے ختم کرانا چاہتی تھی، یہ چالاکی اب اس کے پائوں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس جنرل پرویز مشرف کی سزا ختم کرنے کا دستوری حق اب بھی موجود ہے، وزیر اعظم عمران خان صدر مملکت کو سفارش کر سکتے ہیں کہ دستور کی دفعہ 45 کے تحت جنرل پرویز مشرف کی سزا کالعدم قرار دے دی جائے، بیمار اور بوڑھے جنرل صاحب کو‘ جو ہسپتال میں بستر علالت پر پڑے ہوئے اہل وطن کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں، اس سے فوری ریلیف کہیں سے نہیں مل سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کو اپنے فیصلے آپ کرنے اور اپنا بوجھ آپ اٹھانے کی عادت اپنانی چاہئے... لیڈر شپ اسی کا نام ہے۔
جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ قائم کرنے کے بارے میں مسلم لیگ (ن) میں بھی یکسوئی نہیں تھی۔ زرداری گیلانی برادران بھی انہیں ''آنریبل ایگزیٹ‘‘ دے گزرے تھے۔ نواز شریف کی اپنی کابینہ میں وزیر اعظم کے اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے موجود تھے۔ چودھری نثار علی اور میاں شہباز شریف‘ دونوں اس مہم جوئی کے منفی اثرات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ اگر کابینہ میں ووٹنگ کرائی جاتی تو شاید اکثریت کی تائید اسے حاصل نہ ہوتی۔ نواز شریف لیکن تاریخ بدلنے کا عزم کئے ہوئے تھے، سو اپنی سی کر گزرے۔ برادرم اکرم شیخ نے انہیں قانونی تعاون (کسی فیس کے بغیر فراہم کیا) بعد کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ پرویز مشرف تاریخ کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بن گئے ہیں‘ جنہیں دستور کی دفعہ 6 کے تحت سزا سنا دی گئی ہے۔ گویا، نواز شریف‘ اکرم شیخ اور پرویز مشرف تینوں کے نام تاریخ میں درج ہو گئے ہیں، مقام کا تعین بعد میں ہوتا رہے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved