پاکستان کے اندر سیاسی انتشار اور تصادم کی کیفیت پوری قوم کے لیے ہیجان کا سبب بن رہی ہے لیکن بیرون ملک سے سفارتی محاذ پر آنے والی خبریں بھی پریشان کن ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہنگامی دورے پر سعودی عرب پہنچے اور پھر کوالالمپور سربراہ کانفرنس میں شرکت منسوخ کر دی۔ سعودی دورے کے دوران کیا کچھ ہوا‘ اس پر قیاس آرائی تو بہت ہوئی لیکن یقین سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کوالالمپور کانفرنس کے دوسرے دن ترک صدر اردوان نے میڈیا سے بات کی اور جو کچھ کہا وہ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے ندامت کا باعث بنا۔
صدر اردوان نے کہا ''بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے، سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ اس کے سنٹرل بینک سے متعلق کچھ وعدے کر رکھے ہیں، سعودی عرب میں 40 لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ وہ (پاکستانیوں کو) واپس بھیجنے کی دھمکی دے رہے ہیں کہ ان کے بجائے بنگلہ دیشی لوگوں کو پھر سے نوکریاں دے دیں گے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کو ایسی دھمکیاں ماننا پڑتی ہیں‘‘۔
صدر اردوان نے جو کچھ کہا، وہ باتیں پہلے سرگوشیوں میں کی جاتی تھیں اور پاک سعودی تعلقات میں لین دین کی باتوں کو چٹخارے لے کر یورپی میڈیا بیان کرتا تھا‘ لیکن اب پاکستان کے خارجہ امور کے ذمہ داروں کے تردیدوں پر ملک کے اندر بھی کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر عربوں کے تیل کا اس سے پہلے ایک بار معاملہ اس وقت دنیا کے سامنے آیا تھا‘ جب اماراتی وزیر خارجہ انور گرگاش نے پاکستان کو طفیلی ریاست کا طعنہ دیا تھا‘ لیکن اس وقت پاکستان کے عوام نے اس طعنے کو برداشت صرف اس لیے کیا تھا کہ پاکستان یمن کی بے مقصد جنگ میں کودنے سے بچ گیا تھا۔ اماراتی وزیر خارجہ کے طعنے اس وقت ایک بے بس بڑھیا کے کوسنوں سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں تھے۔
اب صدر رجب طیب اردوان نے جو کچھ کہا اس سے پاکستان کو سبکی کا سامنا ہے۔ ہم سعودی عرب کے دفاع کیلئے ہمیشہ سب سے آگے رہے لیکن وہاں سے اب ہمیں مبینہ طور پر چار ملین پاکستانیوں کی ملک بدری کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ وزیراعظم کے پہلے دورہ سعودی عرب کے دوران دوارب ڈالر کے ڈیپازٹ کا جو تحفہ ملا تھا اور سعودی ولی عہد نے دورہ اسلام آباد میں خودکو سفیر پاکستان کہا تھا، اس پر فخر کرنے والے اب قوم کو جواب دیں، یہ تحفے کمزوری کیسے بنے؟
ملائیشیا کے مہاتیر محمد‘ جنہیں کپتان اپنا سیاسی آئیڈیل مانتے ہیں، پاکستان کے پرانے دوست ہیں۔ وہ کوالالمپور میں پاکستان کی غیرحاضری پرکھل کر بات سے گریز کرتے رہے۔ اب بھی ملائیشیا کی طرف سے پاکستان کو کوئی طعنہ نہیں ملا لیکن ملائیشین وزیر خارجہ سیف الدین عبداللہ نے کوالالمپور کانفرنس سے پاکستان اور انڈونیشیا کی غیرحاضری پر ڈھکے چھپے الفاظ میں بات کی۔ ملائیشین وزیر خارجہ نے کہا کہ ملائیشیا جب بھی کوئی کانفرنس آرگنائز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کچھ لوگ امت کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کی قیادت نے اگر سعودی دباؤ پر کوالالمپور کانفرنس سے غیرحاضر رہنے کی پالیسی اپنائی ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ سعودی عرب کا اس میں فائدہ نقصان کیا تھا اور پاکستان کا فائدہ‘ نقصان کس قدر ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس کانفرنس کو علاقائی سیاست میں اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے کیونکہ اس میں اس کے دو بڑے حریف قطر اور ایران مدعو تھے۔ دو سال تک تنہا کرنے کی کوششوں میں ناکام سعودی عرب قطر کو دوبارہ ساتھ ملانا چاہتا ہے لیکن قطر اس بار تعلقات اپنی شرائط پر بحال کرنے کا خواہش مند ہے۔ سعودی عرب کا دوسرا بڑا مسئلہ ایران ہے۔ عرب ملکوں نے قطر کا مقاطعہ کیا تو سب سے پہلے جو قطر کے ساتھ کھڑے ہوئے وہ ترکی اور ایران تھے۔ یوں دو سال سے ایک ٹرائی اینگل بن چکی ہے جسے سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ یمن جنگ میں بھی سعودی عرب کو جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ایران کی وجہ سے ہے۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملوں سے بظاہر جو مالی نقصان ہوا‘ اسے پورا کر لیا جائے گا لیکن سعودی تیل اور اس کی گزرگاہ‘ دونوں کس قدر محفوظ ہیں‘ یہ تیل کے خریداروں پر کھل چکا ہے۔ یہ سب سے بڑا نقصان ہے جو سعودی عرب کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ترکی نے صحافی جمال خشوگی کے قتل کے معاملے میں سعودی ولی عہد کو جس قدر نیچا دکھایا وہ بھولنا ایک عرب شہزادے کیلئے ناممکن ہے۔
پاکستان سعودی عرب سے ادھار تیل اور دو ارب ڈالر لے کر اس کا اس قدر ممنون احسان ہے کہ اسے ملائیشیا اور ترکی کا کشمیر کے معاملے پر سٹینڈ شاید بھول چکا ہے؟ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کسی نے ہمیں مدد نہیں دی تاکہ ہم معاشی مشکلات کا شکار اور کسی نہ کسی کے دست نگر رہیں۔ سعودی عرب چاہتا تو پاکستان امسال گرے لسٹ سے باہر آ سکتا تھا۔ امریکا کی بلیک میلنگ کا شکار پاکستان روس اور ترکی کے ساتھ ایک سٹریٹیجک اتحاد بنانے کی پوزیشن میں تھا لیکن ترکی کو ناراض کرنے کے بعد امریکی دباؤ سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ سعودی عرب امریکا سے ایسی رعایتیں دلوانے میں مدد دیتا یا پیشکش کرتا ہے جو ہمیں طویل مدتی فائدہ نہیں دے سکتیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ امریکا افغانستان میں طالبان کو دباؤ میں لانے کے لیے سعودی عرب کو استعمال کرتا ہے اور ریاض امریکی ایما پر اسلام آباد پر دباؤ ڈالتا ہے۔ امریکا اب ہر صورت افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں امریکا بغیر ڈیل وہاں سے نکل جائے گا جیسا اس نے شام میں کیا۔ اس صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ افغانستان کے موجودہ حکمران پاکستان کے دوست نہیں بلکہ ان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ افغان طالبان پاکستان کے مکمل زیر اثر نہیں رہے‘ ایران اور چین نے بھی طالبان کے اندر رسوخ پیدا کر لیا ہے۔ امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے جس نے نئی دہلی کو سٹریٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے۔ ان حالات میں کمزور خارجہ پالیسی، معاشی بلیک میلنگ پاکستان کے مفادات کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ کپتان حکومت میں آنے سے پہلے غیرت کا سبق پڑھایا کرتے تھے لیکن ان کی حکومت میں خارجہ امور کے ذمہ داران کیا کر رہے ہیں اور کپتان صاحب کو کیا مشورے دے رہے ہیں؟ کوالالمپور کانفرنس میں ملائیشیا، ترکی اور ایران نے امریکی اور یورپی بلیک میلنگ سے نکلنے کے لیے مشترکہ کرنسی، بینکنگ اور انشورنس سسٹم کی بات کی۔ امریکا دنیا بھر کے ملکوں پر پابندیاں لگاتا ہے اور ان پابندیوں کی کامیابی کی وجہ تجارت کیلئے امریکی ڈالر اور امریکی و یورپی بینکنگ سسٹم کا استعمال ہے ۔ پابندیوں کا شکار ملک نہ ڈالر میں تجارت کر سکتا ہے نہ امریکی و یورپی بینکنگ چینلز استعمال کر سکتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ تجارت میں انشورنس کا ہے، انشورنس کا سارا نظام بھی امریکی و یورپی ہے۔ سعودی عرب اس نظام سے بغاوت نہیں کر سکتا۔
سعودی اور اماراتی دباؤ سے نکلنے کیلئے امریکی اور یورپی بلیک میلنگ سے نکلنا ضروری ہے۔ ترکی کی مثال دنیا کے سامنے ہے جس نے امریکی پابندیوں کو ٹھوکر پر رکھا۔ اب بھی ترکی روس سے جدید دفاعی میزائل سسٹم خرید رہا ہے جس پر امریکا کو اعتراض ہے لیکن ترکی اس میزائل نظام کی ایک کھیپ وصول کر چکا ہے اور مزید میزائل سسٹم کی خریداری کا معاہدہ کر چکا ہے۔ امریکی کانگریس چیخ رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ ترکی کے وکیل بنے ہوئے ہیں
معاشی مسائل ہوں یا سیاسی ضروریات، قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا ہوگا۔ کوئی برادر ملک ہے نہ کوئی سسٹر کنٹری، تعلقات دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں، وفاداری نام کی کوئی شے سفارتکاری میں نہیں ہوتی۔ ایسی وفاداری کمزوری ہے اور علامہ اقبال نے کہا تھا
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات