میں توپ کاپے سرائے، میوزیم جانے کے لیے نکلا۔ موسم صاف تھا اور چمکیلی دھوپ باسفورس کے پانیوں سے منعکس ہو رہی تھی۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے کافی ہجوم نظر آنے لگا تھا۔ لیکن دروازے سے پہلے دائیں طرف پانی کی ایک خوب صورت منقش سبیل نے میری توجہ مبذول کرا لی۔
اسے سبیل کہہ لیجیے یا پانی کی ٹینکی۔ کچھ جگہیں تاریخی یادگاروں کے طور پر محفوظ کر لی گئی ہیں۔ سلاطینِ ترکی نے یہ جگہ جگہ بنوائی تھیں۔ میں نے اسکیودار کے ساحل پر بھی دیکھیں۔ بغلار باشے کے قدیم محلّوں میں بھی اور استنبول کے دیگر پرانے علاقوں میں بھی۔ بات اس وقت کی ہے جب نلکے گھر گھر نہیں پہنچے تھے اورآب رسانی کے ذرائع مخصوص تھے۔ اس خوبصورت چھوٹی سی عمارت نما ٹینکی کی پیشانی پر قابل داد قرآنی خطاطی رقم تھی۔ لیکن پہلی ترجیح توپ کاپے سرائے تھی اس لیے اس کی دل ہی دل میں داد دیتے ہوئے سامنے دیکھا جہاں ایک اونچا، باوقار محراب دار دروازہ محل کے داخلے کے لیے بازو وا کیے ہوئے تھا۔ اس کے اوپر احمری ترک پرچم لہرا رہا تھا۔ محراب کی اونچائی پر اسی انداز میں سبز زمین پر سنہرے الفاظ میں حسین قرآنی خطاطی موجود تھی۔
توپ کاپے سرائے۔ عم مکرم جناب مولانا تقی عثمانی کے باکمال سفرنامے جہان دیدہ نے اس محل سے آگاہی بخش دی تھی۔ توپ تو وہی لفظ ہے جو اردو میں بھی توپ کہلاتا ہے۔ کاپے یعنی دروازہ۔ سرائے یعنی محل۔ یہاں فصیل کا سینٹ رومانس دروازہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے منہدم کرنے کے لیے اس کے سامنے توپ لگائی گئی تھی یا محل کی حیثیت دینے کے بعد اس دروازے کے سامنے بطور یادگار توپ رکھی گئی تھی۔ ہم ایک بڑے اور وسیع احاطے میں داخل ہوئے۔ اسی احاطے میں سیاحوں کے لیے ٹکٹ کا بھی انتظام تھا اور الیکٹرانک گائیڈ کا بھی۔ الیکٹرانک گائیڈ مسلسل سر پر مسلط رہنے اور نان سٹاپ رٹے رٹائے جملے اور لطیفے سنانے والے انسانی گائیڈ سے ہزار گنا بہتر ہے۔ محل کا درجہ اب میوزیم کا ہے، اور اس کے ہر مقام پر نمبر لگے ہوئے ہیں۔ اس نمبر کو دبایا جائے تو یہ گائیڈ اس جگہ یا چیز کی اہمیت بیان کرکے خاموش ہوجاتا ہے۔ اور جان رکھیے کہ خاموش ہوجانا گائیڈ کی بہت اہم صفت ہے۔
شاہی محل میں لاتعداد سبزہ زار، احاطے، دربار، کمرے اور ایوان نہ ہوں، کیسے ہوسکتا ہے۔ توپ کاپے میں بھی یہی ہوا ہے کہ ضروریات بڑھتی گئیں اور ہر نیا سلطان اضافے کرتا گیا۔ اضافے اس حصے میں بھی ہوئے جہاں وزراء، سفراء اور امراء کی باریابی ہوتی تھی اور جو مبایین ہمایوں کہلاتا تھا، اور اس حصے میں بھی جو رہائشی اور حرم کے نام سے مشہور ہے۔ الگ الگ تقریبات کے الگ الگ کمرے حتیٰ کہ ختنے کرنے کا کمرہ بھی مخصوص تھا۔ گھومتے جائیے۔ احاطے، سبزہ زار اور کمرے، لشکر کی روانگی اور آمد کی جگہ۔ پرچم نصب کرنے کی جگہ، وزراء کا ایوان، سفراء کا کمرہ، تخت، مجلسیں، چھپر کھٹ، مطبخ، حوض، فوارے۔ چند گھنٹوں میں ایک سیاح کی نظر سے دیکھنا اور ہے۔ لیکن جو اس جگہ کے مکین تھے، محل کے اصل بھید تو وہی جانتے تھے۔
تھک گیا توکچھ دیر سستانے کے لیے توپ کاپے کے تیسرے احاطے میں سنگ مرمر کے ایک بڑے گول ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیااور ستون کے ساتھ منڈیر پر پاؤں پسار لیے۔ کتنا بڑا ذخیرہ ہے توپ کاپے میں۔ نوادرات میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ فرامین، کتب،13400 مخطوطات، دستاویزات، معاہدے اور مکاتیب بھی شامل ہیں۔ تمام تر چیزوں کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 2013 میں سابقہ متفرق فہرستوں کی بنیاد پر 15 جلدوں کی فہرست بنائی گئی‘ جس کی 4جلدیں تاحال شائع ہوچکی ہیں۔ اب یہاں سے اٹھوں گا تو نوادرات کے وہ دو خاص حصے دیکھوں گا جن کے ذکر کے بغیر توپ کاپے مکمل نہیں ہوتا۔ اسلامی نوادرات اور خزانہ۔
میں نے آنکھیں موندیں۔ تاریخ کی گرتی برف اپنے دل پر محسوس کی۔ ہرے بھرے سبزہ زار کا تصور کیا جو سرد مہینوں میں برف زار میں بدل چکا تھا۔ دور سے کسی خوش الحان ترک قاری کی آواز آتی سنائی دے رہی تھی اور سلطان سلیم اول جاروب لیے اس کمرے سے نکلتا دکھائی دے رہا تھا جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص تبرکات محفوظ تھے اور جہاں سلیم اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیا کرتا تھا۔ یہ محبت، یہ عقیدت، یہ سلیقہ کیا ترکوں کے علاوہ کبھی کسی قوم کو نصیب ہوا اور اس کی برکت بھی کیا ان کے علاوہ کسی کے حصے میں آئی؟ لیکن ہوا کیا؟ طاؤس و رباب آخر۔ ترک سلطانوں نے جاروب کشی ختم کی اور دولما باشے سرائے میں منتقل ہوگئے۔ مزید عظمت، دبدبے اور شوکت کے لیے۔ برا وقت شکست کھائے، گھات لگائے دشمن کی طرح تاک میں تھا۔ برکت اٹھتے ہی ان سب پر جھاڑو پھیر دی۔
میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ دور سے کسی خوش الحان ترک قاری کی قرأت سنائی دے رہی تھی اور یہ خواب نہیں تھا۔ میں سلطان کے ان ذاتی کمروں کی طرف چلتا گیا جہاں اسلامی تبرکات محفوظ تھے۔ قرأت کی آواز تیز تر ہوتی گئی۔ ترک سلاطین نے بہت محبت اور ریزہ چینی کے ساتھ یہ تبرکات اور نوادرات اسلامی دنیا سے اکٹھے کیے۔ چچا تقی نے جہان دیدہ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں ایسے تبرکات محفوظ ہیں جو انبیائے کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہل بیت کرام کی طرف منسوب ہیں، توپ کاپے کے نوادرات ان سب میں مجموعی طور پر مستند ترین سمجھے جانے چاہئیں۔ قدرت نے سلاطین ترکی کی مدد ایسے کی کہ مصر سے لے کر حجاز تک اور شام سے لے کر عراق تک ان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ ممالک ان کے زیر نگیں آتے گئے اور وہ بے بہا خزانے جو کسی اور جگہ اس طرح محفوظ نہ رہ سکتے، توپ کاپے میں محفوظ ہوگئے۔
اگلا کمر ہ دستی مال کمرہ کہلاتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا پیالہ (شاید لکڑی کا)، حضرت یوسفؑ کی دستار (سفید رنگ)، حضرت موسیٰؑ کا عصا، حضرت داؤدؑ کی تلوار، حضرت یحییٰ ؑ کے خطوط، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نقش پائے مبارک اس کمرے کی زینت ہیں۔ سدروان لی صوفہ نامی کمرے میں کعبہ شریف کی چابیاں، میزاب رحمت، حجر اسود کو محفوظ کرنے والے چاندی کے خول، باب کعبہ اور چاروں خلفائے راشدین کی تلواریں محفوظ ہیں۔ عرض خانے نامی کمرے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دندان مبارک (دندانِ سعادت)،آپ کی ریشِ مبارک کا ایک بال، نبی اکرمﷺ کا ایک نامۂ مبارک، آپﷺ کی تلوار مبارک اور کمان سونے کے خولوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔
اگلا کمرہ چادر کا کمرہ کہلاتا ہے۔ یہاں وہ چادر سونے کے صندوق میں محفوظ ہے جو نبی اکرمﷺ نے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کو ان کے قصیدہ بانت سعاد پر عطا فرمائی تھی۔ یہ چادر تہ در تہ حفاظتی چادروں میں لپیٹ کر سونے کے صندوق میں رکھی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ چادر دو گز لمبی ہے اور کریم رنگ کے کپڑے پر سیاہ اونی دھاریاں ہیں۔ اسی کمرے میں نبی اکرمﷺ کا علم مبارک بھی ہے۔ یہ بھی ایک سونے کے صندوق میں محفوظ کیا گیا ہے۔ سلاطین ترکی اہم مہمات میں اسے نکالتے تھے اور اسے فتح کی علامت سمجھتے تھے۔
یہ اس حصے کے محض چند نوادرات کے نام ہیں۔ وہ خزانہ جس میں نبی اکرمﷺ کا خرقۂ مبارک، مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت تلاوت فرما رہے تھے اور جس کے اوراق پر آپ کے خون کے چھینٹے موجود ہیں‘ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا ملبوس مبارک، حضرت حسین ؓ کا کرتہ مبارک وغیرہ شامل ہیں‘ کیسا بے بہا اور نادر ہوگا۔
کئی گھنٹوں کے بعد میں ایک سرشاری اور ایک تحیر کے عالم میں ان غرفوں سے باہر نکلا اور سبزہ زار میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ دیر تک سوچتا رہا۔ میں نے یہ ابھی ابھی کیا دیکھا۔کیا واقعی یہ میں نے دیکھا؟ کیا یہ حقیقت ہے؟ کیا زندگی کبھی اتنی مہلت دے گی کہ اس خزانے کو نظر بھر کر پھر دیکھ سکوں؟ معلوم نہیں۔ نہ دیکھنے کی حسرت تو ختم ہوگئی لیکن ایک خواہش ابھی تک خون میں سرسراتی ہے اور یہ ان خواہشوں میں ہے جو مجھے زندہ رکھتی ہیں۔