ابھی ہم نے قومی سوگ کا دن گزارا۔ وہ دن جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ میرے نزدیک مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کا روپ دھارنا کسی بھی لحاظ سے ناگزیر نہ تھا۔ ہمارے بنگالی بھائیوں کی اکثریت کے دل تقریباً ربع صدی تک ہمارے ساتھ دھڑکتے رہے۔ زبان اور ثقافت کے مختلف رنگ اور اُن کی بنیاد پر وجود میں آنے والی قومیت پرستی کو ایک سیاسی قومی لڑی میں پرو دیا گیا تھا۔ پاکستان‘ بھارت اور دنیا کے زیادہ تر ممالک میں کئی زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ زبانیں، ثقافتیں اور سیاسی نظریے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، میری نظر میں ایک قومیت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دنیا میں جدھر بھی نظر دوڑائیں، غور و فکر کریں تو یہ کوئی راز نہیں، بلکہ ایک واشگاف حقیقت ہے۔
ہم بہت سن چکے اور اس کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکے کہ مشرقی پاکستان کے شہری ہم سے مختلف تھے۔ اُن کی زبان، رہن سہن، ثقافت، سب کچھ ہم سے الگ تھا۔ یہ درست ہو سکتا ہے، مگر تحریکِ پاکستان اور مسلمان قومیت کی نظریاتی ترویج میں ہم نے ایک ساتھ جدوجہد کی تھی۔ تاریخ کا بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ اُس وقت کے مسلم بنگال میں متحدہ ہندوستان کے حوالے سے زیادہ خدشات پائے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں انگریز سرکار نے بنگال تقسیم کر دیا۔ اس کی بنیاد نہ جغرافیہ تھا نہ تاریخ اور نہ ہی لسانیت۔ یہ خدوخال مسلم اور مغربی بنگال، دونوں میں مشترک تھے۔ بنگال مغربی شناخت کے حوالے سے تقسیم ہوا تھا۔ مسلم بنگال خوش تھا۔ اُس دوسرے بنگال سے علیحدگی میں اقتدار، خود مختاری اور صوبائی حیثیت اور ترقی و خوشحالی کے روشن امکانات دکھائی دیے۔ آنکھیں چمک اُٹھیں؛ دلوں میں امیدوں نے انگڑائی لی اور سینکڑوں سالوں کی پسماندگی، بے بسی اور کلکتے کا اقتصادی تسلط ختم ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس تقسیم پر دوسرا دھڑا خوش نہ تھا۔ وہاں تقسیم پر احتجاج دیکھنے میں آتا رہا۔
مسلم بنگال تحریکِ پاکستان میں صرف شریکِ سفر ہی نہ تھا بلکہ انگریزی راج میں دیگر مسلم اکثریتی علاقوں سے کہیں زیادہ منظم اور متحرک بھی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے تین جانب بھارت اور ایک طرف خلیج بنگال کا گہرا پانی ہے۔ متحدہ بھارت کا غلغلہ تھا۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا دھڑا متحدہ قومیت سے ہم آہنگ ہو چکا تھا؛ چنانچہ مسلم بنگال کے لیے اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ مسلم بنگال کے مفادات کا تقاضا یہی تھا کہ وہ مسلم قومیت کے دھارے میں ہی رہتا۔ کئی سال پہلے بنگلہ دیش سے ایک دانشور، جو امریکہ کی کسی جامعہ میں استاد ہیں، نے برقی پیغام بھیجا کہ وہ پاکستان آ رہے ہیں، اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ نام ظاہر کرنا مناسب نہیں۔ لاہور میں بہت طویل بات ہوئی کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا۔ خالصتاً بنگلہ دیشی تھے مگر ذہن تعصبات اور سیاسی جانبداری سے پاک۔ بر سبیلِ تذکرہ نہیں، بلکہ زور دے کر کہا کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو بنگلہ دیش بھی نہ بن پاتا۔ اس کے برعکس کوئی دوسری رائے بھی ہو سکتی ہے مگر اس میں تاریخی حوالے اور منطقی وزن کی گنجائش نہیں ہو گی۔ قراردادِ پاکستان لاہور کے منٹو پارک میں پیش کرنے والے بھی مسلم بنگال کے قائدین تھے۔ یہ نعرہ بھارت کے کونے کونے میں بلند ہونے لگا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد ہمارے زعما نے نئی ریاست کے تعمیر کچھ اس طرح کرنا شروع کر دی کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ سیاست اور ریاستی اداروں پر غالب آنا شروع ہو گئی۔ خدا جانے مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو کیوں تسلیم نہ کیا گیا؟ مغربی پاکستان کے غالب سیاسی دھڑے اکثریت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ طرح طرح کی تاویلیں پڑھنے کو ملتیں۔ کہا گیا کہ مغربی پاکستان کا رقبہ زیادہ ہے۔
مشرقی پاکستان کی اکثریت اپنے جائز حقوق کی جنگ جمہوری اور آئینی طریقوں سے لڑتی رہی۔ ایک قومی زبان، اردو کی بات جب قائدِ اعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں کی تو ہنگامے پھوٹ پڑے۔ کئی طلبا شہید ہوئے۔ وہی وقت تھا جب مغربی پاکستان کی قیادت کو مشرقی پاکستان کی برابری اور مساوات کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ ایک اور موقعہ آیا جب ہم مشرقی پاکستان کے سیاسی خواب کو سمجھ سکتے تھے۔ 1954ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات ہوئے تو کئی دھڑوں کا اتحاد جگتو فرنٹ واضح اکثریت کے ساتھ جیت گیا۔ وہاں مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔ جگتو فرنٹ کے اٹھارہ مطالبات کو اگر اختصار سے لکھا جائے تو وہ شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کے چھ نکات بنتے ہیں۔ صوبائی خود مختاری، ذرائع پیداوار پر اختیار، اقتدار میں اکثریت کی بنیاد پر شراکت داری اور ریاستی اداروں، خصوصاً نوکر شاہی میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی پاکستان کو سقوط سے بچا سکتے تھے۔ جب جذبات ٹھنڈے ہوئے تو مشرقی پاکستان نے حقوق کی آواز بلند کی۔ اُن کے مطالبات آئین اور قانون کے دائرے میں تھے، لیکن ہماری غیر ذمہ دار اشرافیہ نے جو گھنائونے کھیل کھیلے وہ سب کے سامنے ہیں۔
اب آگے چلتے ہیں۔ اکثریت ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان پارلیمان میں عددی برابری پر راضی ہو گیا جس کی وجہ سے 1956ء کا آئین تشکیل دینا ممکن ہوا۔ اس طرح اُنہوں نے بہت بڑی قربانی دی۔ جب آئین کے تحت انتخابات کا میدان سجا، سیاسی سرگرمیاں تیز ہوئیں، تو اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958ء میں مارشل لا مسلط کر دیا۔ ظاہر ہے کہ سب کچھ ایوب خان کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے بعد جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور اگلے دس سال کیلئے پاکستان کے مطلق العنان حکمران بن گئے۔ اس کیلئے اُنہوں نے فوج کا بازو استعمال کیا۔ خود فریبی اور تاریخ نا شناسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چند ایک کے سوا تمام سیاسی گھرانے ایوب کے قدموں میں جا بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو گیارہ سال اُن کی خدمت بجا لاتے رہے۔ جمہوریت اُنہیں تب یاد آئی جب ایوب خان نے اُنہیں اپنی کابینہ سے باہر نکالا۔ روئیداد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اُسی شام وہ اور غلام اسحاق خان بھٹو سے ملنے اُن کے گھر گئے۔ وہ شام کے مخصوص مشروبات سے اپنا غم غلط کر رہے تھے۔ اُنہوں نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ ایوب نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی چپراسی کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔
دوسرا بڑا تحفہ ہمیں جنرل یحییٰ خان کی ذات شریف کی صورت ملا۔ جب دو آئین موجود تھے تو نئی آئین ساز اسمبلی کی کیا تُک تھی؟ پھر انتخابی مہم کا عرصہ ایک سال۔ خدا کی پناہ! آمریت کی گھٹن ختم ہوئی تو ہر طرح کی نظریاتی اور لسانی تحریکوں نے جنم لیا۔ جب انتخابات ہو گئے تو دستور ساز اسمبلی کا طے شدہ انعقاد کیوں معطل ہوا؟ تاریخ روزِ روشن کی طرح سب چہرے بے نقاب کر چکی ہے۔ وہ کون تھا جس نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گیا تو اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ یہ بھٹو صاحب تھے۔ مطالبہ ان کا یہ تھا کہ اجلاس سے پہلے آئین کے خد و خال کہیں باہر طے ہو جائیں اور انہوں نے اپنے آئینی ماہر غلام مصطفیٰ کھر کو شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کیلئے بھیجا۔
یہ ظلم اور نا انصافی کی انتہا تھی کہ نہ صرف اجلاس ملتوی ہوا بلکہ جب احتجاج شروع ہوا تو مسلح کارروائی کی گئی۔ پاکستان تو اسی روز ٹوٹ گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اس وقت جو نعرہ لگایا اسے دہراتے ہوئے شرمندگی ہے، مگر کیا کریں، تاریخ کا جبر ہے ''شکر ہے، پاکستان بچ گیا‘‘ آج سب خاموش ہیں۔ کوئی تو بولے، کوئی تو کچھ کہے۔ اس وقت انصاف نہیں کر سکے تھے تو آج ہی کر لو۔ اس واقعے کے سب کردار اپنا وقت گزار کر جا چکے ہیں، چلو ان کے وارث ہی کچھ کہ دیں۔ شاید اس کی ضرورت نہیں۔ تاریخ ایک دائمی گواہ ہے، رہے گی اور اب بھی ہے۔